زرداری-بائیڈن ملاقات میں اہم معاملات پر گفتگو

24 جولائ 2014
واشنگٹن: افطار - ڈنر میں آصف علی زرداری اور جو بائیڈن  ایک ساتھ  نظر آ رہے ہیں۔
واشنگٹن: افطار - ڈنر میں آصف علی زرداری اور جو بائیڈن ایک ساتھ نظر آ رہے ہیں۔

واشنگٹن: امریکی نائب صدر جو بائیڈن اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان ایک ملاقات ہوئی اور اگر میڈیا رپورٹس پر اعتبار کیا جائے تو ملاقات میں دونوں ملکوں سے متعلق انتہائی اہم معاملات پر تبادلہ خیال ہوا۔

یہ ملاقات پاکستان کے سابق اعزازی سفیر رائے محمود کی رہائش گاہ پر افطار-ڈنر کی ایک تقریب میں ہوئی۔

میڈیا رپورٹس میں دعوی کیا گیا ہےکہ دونوں رہنماؤں میں علیحدہ سے ایک گھنٹہ طویل ملاقات ہوئی جس میں امریکی کانگریس کے کچھ ارکان بھی شامل ہوئے۔

ملاقات میں پی پی پی کے شریک چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی موجود تھے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق، زرداری اور ان کے بیٹے رائے محمود کی رہائش گاہ پر قیام کر رہے ہیں۔

ان خبروں کے مطابق، دونوں رہنماؤں نے 'باہمی دلچسپی کے امور' کے علاوہ شمالی وزیرستان میں جاری فوج آپریشن ، پاک-امریکا تعلقات اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

بدقسمتی سے ، یہ تمام خبریں قیاس آرئیوں پر مبنی ہیں کیونکہ افطار-ڈنر پر کسی صحافی کو مدعو نہیں کیا گیا اور جن رپوٹروں نے جائےتقریب کے آس پاس رہ کر مہمانوں کی شناخت کرنے کی کوششیں کیں انہیں واپس بھیج دیا گیا۔

میزبان رائے محمود نے واضح کر دیا تھا کہ تقریب میں صحافیوں کو ہرگز خوش آمدید نہیں کہا جائے گا۔

صحافیوں کے لیے اسی طرح کی ایک تنبیہ وائٹ ہاؤس کی جانب سے بھی آئی، جب ملاقات سے پہلے ایک جاری بیان میں کہا گیا 'نائب صدر ایک نجی رہائش گاہ پر افطار- ڈنر کے لیے جائیں گے اور اس تقریب کی میڈیا کوریج نہیں ہو سکتی'۔

امریکی صدر اور نائب صدر کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے والے وائٹ ہاؤس پریس کو بھی ملاقات کے حوالے سے زحمت نہ اٹھانے کی ہدایت کی گئی۔

بائیڈن- زرداری ملاقات کے حوالے سے غیر معمولی پراسراریت اور سندھ اسمبلی کی سپیکر اور پی پی پی رہنما شہلا رضا کے ایک حالیہ بیان نے بڑے پیمانے پر قیاس آرائیوں کو جنم دیا۔

شہلا رضا نے دعوی کیا تھا کہ زرداری واشنگٹن میں امریکیوں کو یہ یاد دلانے گئے ہیں کہ مشرف دور میں این آراو کے وقت انہوں نے پی پی پی اور پی ایم ایل-ن کو یقین دہانی کرائی تھی کہ اگلے پندرہ سالوں تک عوامی حکومت چلنے دی جائے گی اور کم از کم تین انتخابات تک فوج بغاوت نہیں کرے گی۔

پی پی پی نے باضابطہ طور پر شہلا کے اس بیان سے خود کو الگ کر لیا اور کہا کہ اس معاملے پر یہ پارٹی کا موقف ہرگز نہیں۔

تاہم ، پی پی پی کے دور حکومت میں وزیر خارجہ رہنے والے اور ان دنوں پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی کے ایک دعوے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔

قریشی کا کبھی دعوی تھا کہ زرداری امریکیوں کو این آور او معاہدہ یاد دلانے واشنن ک گئے ہیں۔

اس پوری کہانی کا ایک اور دلچسپ رخ پاکستانی میڈیا میں سازش پسندوں کا یہ دعوی ہے کہ ' پاکستان میں کچھ طاقت ور حلقے قومی اتحاد پر مبنی ایک حکومت بنانے کی باتیں کر رہے ہیں'۔

واشنگٹن میں پی پی پی اور ن لیگی رہنما اس سازشی نظریے کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زرداری یقینی طور پر امریکیوں کو کہنے آئے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو اپنی مدت مکمل کرنے میں مدد کریں۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ ان نظریوںمیں کتنی حقیقت ہے لیکن امریکا یا پاکستان کی جانب سے ایک باضابطہ میڈیا بریفنگ ہونے تک یہ قیاس آرئیاں دم توڑتی نظر نہیں آتیں۔

تبصرے (0) بند ہیں