ایف ڈی ایم اے کو بے گھر افراد کے لیے ڈھائی ارب روپے درکار

اپ ڈیٹ 24 جولائ 2014
شمالی وزیرستان کے شورش زدہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے اندراج شدہ 92 ہزار سات سو دو گھرانوں میں سے نادرا نے 52 ہزار نو سو اٹھاسی کی تصدیق کی ہے۔ —. فائل فوٹو
شمالی وزیرستان کے شورش زدہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے اندراج شدہ 92 ہزار سات سو دو گھرانوں میں سے نادرا نے 52 ہزار نو سو اٹھاسی کی تصدیق کی ہے۔ —. فائل فوٹو

پشاور: متعلقہ حکام کا کہنا ہے کہ فاٹا ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (ایف ڈی ایم اے) کو شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کو امدادی اشیاء اور نقد امداد کی فراہمی کے لیے لگ بھگ 2.6 ارب روپے کی ضرورت ہے۔

حکام کے مطابق ایف ڈی ایم اے نے ریاستوں اور سرحدی علاقوں کی وفاقی وزارت سے 2.59 ارب روپے جاری کرنے کی درخواست کی ہے، تاکہ بے گھر افراد کو اگست اور ستمبر کے مہینوں کے دوران نقد ادائیگی، امدادی سامان اور بشمول طبی سہولیات کے زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کی جاسکیں۔

انہوں نے بدھ کے روز ڈان کو بتایا کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا) کی جانب سے توثیق شدہ ہر بے گھر خاندان کے سربراہ کو اگلے ماہ سے وفاقی حکومت بارہ ہزار روپے، جبکہ خیبر پختونخوا کی حکومت آٹھ ہزار روپے اور حکومت پنجاب سات ہزار روپے کی ادائیگی کرے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ یہ نقد ادائیگی اگلے چھ مہینے تک جاری رہے گی۔

شمالی وزیرستان کے شورش زدہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے اندراج شدہ 92 ہزار سات سو دو گھرانوں میں سے نادرا نے 52 ہزار نو سو اٹھاسی کی تصدیق کی ہے۔

ایف ڈی ایم اے کے مطابق نادرا نے دوہرے اندراج، کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ کے غیرقانونی نمبروں یا شناختی کارڈ کی عدم دستیابی کی وجہ سے 37 ہزار تریپن کیسز کو مسترد کردیا۔

تاہم نقل مکانی کرنے والے افراد کی ایک 65 رکنی کمیٹی کے سربراہ ناصر علی خان وزیر اصرار کرتے ہیں کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈز کی عدم دستیابی یا دیگر معمولی وجوہات کی بناءپر سینکڑوں مستحق خاندانوں کے کیسز کو مسترد کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا ’’بیواؤں اور یتیموں کی ایک بڑی تعداد کے پاس شناختی کارڈ موجود نہیں ہے، چنانچہ ان کا اندراج نہیں کیا گیا۔‘‘

ناصر علی خان وزیر نے کہا کہ کچھ بے گھر خاندانوں کے سربراہ مشرق وسطیٰ میں روزگار کے سلسلے میں گئے ہوئے ہیں، لیکن ان کے خاندانوں کا اندراج نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ بے گھر خاندانوں کے مسائل سے نمٹنے کے لیے تشکیل دی گئی ایک کمیٹی نے یہ معاملہ بنوں کے کمشنر کے سامنے اُٹھایا تھا، انہوں نے وعدہ کیا تھا کہ بیواؤں، یتیموں اور ایسے خاندان جن کے سربراہ روزگار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، کے اندراج کے لیے ایک طریقہ کاروضع کیا جائے گا۔

ناصر علی خان وزیر نے کہا کہ تقریباً چار سو بیواؤں اور ایسے خصوصی افراد جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں ہے، کو ان کے ناموں سے اس کمیٹی کے ساتھ اندار کیا گیا تھا۔

اسی دوران حکام نے اصرار کیا کہ نقل مکانی کرنے والے افراد میں نقد امداد کی تقسیم کو منظم کردیا گیا تھا، اور منگل کی شام کو 39 ہزار پچپن خاندانوں کے سربراہوں کو اس مقصد کے لیے ایک بڑی سیلولر کمپنی نے ایس ایم ایس بھیج دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ نقلِ مکانی کرنے والے بائیس ہزار نو سو اکتالیس خاندانوں نے ایف ڈی ایم اے کی جانب سے دیے گئے خصوصی سم کارڈز کا استعمال کرتے ہوئے امدادی رقم نکلوالی تھی۔

ایف ڈی ایم اے نے ایک سیل فون کمپنی کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، تاکہ نقل مکانی کرنے والے افراد کو نقد رقم کی الیکٹرانک ادائیگی کی جاسکے۔

اس مقصد کے لیے ایف ڈی ایم اے نے موبائل کمپنی کے اکاؤنٹ میں 1.4 ارب روپے منتقل کردیے ہیں۔

ایک اہلکار نے بتایا کہ یہ رقم عسکری بینک میں جمع کرادی گئی تھی۔

بنوں کے ڈپٹی کمشنر نے نقل مکانی کرنے والے میں نقد امداد تقسیم کی۔

بے گھر افراد میں نقد امداد کی ادائیگی، امدادی اشیاء کی فراہمی اور ہنگامی نوعیت کے کاموں کے لیے وفاقی حکومت پہلے ہی ایف ڈی ایم کو دو ارب روپے جاری کردیے تھے۔

اس کے علاوہ ایف ڈی ایم اے نے تقریباً دو کروڑ تیس لاکھ روپے انجینئرز ڈویژن کو جاری کیے تھے تاکہ بکاخیل کے علاقے میں نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپوں کو بہتر بنایا جائے۔

نقل مکانی کرنے والے طالبعلموں کے لیے منصوبہ

فاٹا کے ڈائریکٹوریٹ برائے تعلیم نے شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے طالبعلموں کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا ہے، تاکہ وہ اس بے گھری کے عرصے کے دوران اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

بنوں ڈسٹرکٹ ایجوکیشن آفیسر کے دفتر میں منعقدہ ایک اجلاس کے دوران اس منصوبے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔

فاٹا کے ڈائریکٹر برائے تعلیم روز ولی خان نے اس اجلاس کی صدارت کی۔

یہاں سے جاری ہونے والے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ شرکاء نے فیصلہ کیا کہ عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کی وجہ سے شمالی وزیرستان سے نقلِ مکانی کرنے والے طالبعلموں کو بالعموم صوبے اور بالخصوص بنوں اور لکی مروت کے ضلعوں کے اسکولوں اور کالجوں میں ایڈجسٹ کیا جائے گا۔

یہ بھی فیصلہ کیا گیا کہ فاٹا کے ڈائریکٹر تعلیم خیبر پختونخوا کے ابتدائی اورثانوی تعلیم کے ڈائریکٹر اور اعلیٰ تعلیم کے ڈائریکٹر سے رابطہ کریں گے، تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ صوبے کے تمام اسکولوں کے پرنسپل، ہیڈماسٹرز اور ہیڈ ٹیچرز نقل مکانی کرنے والے رجسٹرڈ طالبعلموں کو اپنے اسکول میں اس وقت تک کلاس میں حاضر ہونے کی اجازت دیں، جب تک کہ وہ اپنے گھروں کو واپس نہ لوٹ جاتے۔

شرکاء نے کہا کہ اگر بنوں اور لکی مروت کے ضلعوں میں جگہ یا اسٹرکچر دستیاب نہ ہوا، تو ایف ڈی ایم اے اور امدادی اداروں سے خیموں کی فراہمی کے لیے رابطہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ فاٹا کے ڈائریکٹر تعلیم جہاں ضرورت ہوگی، وہاں اضافی ٹیچروں کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے، جبکہ بنوں میں اس ڈائریکٹوریٹ کی مرکزی شخصیت شمالی وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والے طلباء اور اساتذہ کو کو سہولیات فراہم کریں گے۔

شرکاء نے اتفاق کیا کہ بنوں اور لکی مروت ضلعوں میں تعلیم کے ڈائریکٹرز اسکولوں میں گنجائش سے زیادہ طلباء ہونے کی صورت میں نقل مکانی کرنے والے طلباء کے لیے دوسری شفٹ شروع کریں گے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں