لاہور : پاکستان تحریک انصاف کی قیادت آزادی مارچ سے متعلق تفصیلات کو حتمی صورت دینے پر کام کررہی ہے۔

پی ٹی آئی کی مرکزی مجلس عاملہ کے ایک رکن نے بتایا کہ آزادی مارچ اور اس کے بعد کی حکمت عملی مناسب وقت پر سامنے لائی جائے گی۔

مذکورہ رکن نے زور دیا کہ "اس سپنس کو برقرار رکھا جانا چاہیئے، آخر کیوں ہم اپنے منصوبے بیان کرکے حکومت کو جوابی منصوبہ بندی کے لیے سہولت فراہم کریں"۔

ان کا کہنا تھا "ہم اپنے رہنما عمران خان کی پیروی کررہے ہیں اور ان کی جانب سے لانگ یا شارٹ مارچ کے اعلان پر لبیک کہیں گے"۔

پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ مرکزی مجسل عاملہ کا اجلاس جلد ہوگا جس میں آزادی مارچ اور اس کے بعد کی حکمت عملی کو حتمی شکل دی جائے گی۔

انہوں نے بتایا کہ پی ٹی آئی کا آزادی مارچ چودہ اگست کو ہر صورت میں ہوگا اور حکومت کی جانب سے کارکنوں کو حراست میں لینے کی کوشش سے نمٹنے کے لیے پارٹی اپنی حکمت عملی کو حتمی شکل دے گی۔

ان کا کہان تھا کہ گرفتاری کے معاملے پر ضلعی سطح پر وکلاء کی کمیٹیاں تشکیل دی جائیں گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت یوم آزادی کی تقریبات کے حوالے سے واضح نظر نہیں آتی اور اس نے ابھی تک رسمی طور پر پی ٹی آئی سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔

شاہ محمود قریشی نے کہا کہ وزیرِ اطلاعات پرویز رشید کہتے ہیں کہ حکومت کو لانگ مارچ کا کوئی خوف نہیں اور وہ پی ٹی آئی کو مارچ کی اجازت دے گی، مگر پنجاب کے وزیر قانون رانا مشہور احمد خان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ابھی تک پی ٹی آئی کو لانگ مارچ کی اجازت دینے کا فیصلہ نہیں کیا۔

این آر او کے بارے میں سندھ اسمبلی کی ڈپٹی اسپیکر شہلا رضا کا ایک بیان جس میں ان کا کہنا تھا کہ ملک میں مارشل لاء آئندہ تین عام انتخابات سے پہلے نہیں لگایا جاسکتا، پر پی ٹی آئی کے نائب چیئرمین نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اس بارے میں وضاحت کرنی چاہیئے کہ "کیا چوتھے عام انتخابات سے قبل فوجی مداخلت جائز ہوگی"۔

انہوں نے کہا کہ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے بھی این آر او ڈیل پر کئی انکشافات کئے ہیں، پیپلزپارٹی کے رہنماﺅں کے ان بیانات کو سنجیدگی سے لیا جانا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی وزیر عبدالقادر بلوچ کو تسلیم کرنا چاہیئے کہ حکومت آئی ڈی پیز کے معاملے میں ناکام ہوچکی ہے۔

ایک سوال کے جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی کسی ڈیل کا حصہ نہیں بنے گی، جبکہ پی ٹی آئی اور پاکستانی عوامی تحریک کے درمیان کوئی ڈیڈ لاک نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے خیالات انتخابی اصلاحات سمیت مخصوص معاملات میں ملتے جلتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں