ملتان: حضرت سلطان باہو کے ایک عقیدت مند اور بزرگ حضرت دلیر باہو کا مزار پر متعلقہ حکام کی فوری توجہ کی ضرورت ہے تاکہ اس کو بطور یادگار محفوظ کیا جاسکے۔

یہ مزار محلہ کمہاراں کلاں کے وارڈ نمبر تین، اسٹریٹ نمبر چھ پر دولت گیٹ کے اندر واقع ہے۔ اس کے بالکل سامنے تاریخی درس والی مسجد ہے، جہاں حضرت نظام الدین اولیاءؒ اور حضرت بابا فرید الدین گنج شکرؒ سمیت برّصغیر کی ممتاز مذہبی و روحانی شخصیات نے تعلیم حاصل کی تھی۔

اگرچہ یہ مزار شہر کے ان باون مزارات کی فہرست میں شامل نہیں تھا، جنہیں اس شہر کے لیے وزیراعظم کے پانچ سالہ ترقیاتی پیکیج کے تحت محفوظ کیا جارہا ہے۔ یاد رہے کہ اس پیکیج کا اعلان 2008ء میں ہوا تھا۔

ایک نجی کنسلٹنٹ فرم نے تاریخی یادگاروں کی بحالی اور تحفظ کے ایک منصوبے کے تحت ابتدائی سروے کیا تھا۔ اس میں غلطی سے اس مزار کو حضرت بنگا بلال کا مزار قرار دے دیا تھا، جو ایک اور بزرگ تھے، جنہیں ملتان میں دفن کیا گیا تھا۔

گوکہ اس فرم نے اپنی سروے رپورٹ میں واضح کیا تھا کہ حضرت بنگا بلال کا مزار سعید قریشی کے مقبرے کے سامنے واقع ہے۔تاہم اس کی تصویر حضرت دلیر باہو کے مزار کی دستاویز کے ساتھ منسلک کردی اور اس کے تحفظ کے کام کے لیے پی سی ون بھی تیار کرلیا گیا۔

مزار کے مرکزی دروازے پر ایک منقش کتبے پر ان بزرگ کی وفات کا سال 1248ھ (1832ء) درج ہے۔

اس مزار کے نگران رفعت سلطان کے مطابق یہ بزرگ حضرت سلطان باہو کے ایک عظیم عقیدت مند اور چنیوٹ کے جاگیردار تھے۔

مقامی طور پر بیان کی جانے والی ایک حکایت کا حوالہ دیتے ہوئے رفعت سلطان نے بتایا کہ ایک رات یہ بزرگ حضرت سلطان باہو کے مزار پر سورہے تھے، تب انہیں ان کے روحانی سرپرست کی جانب سے ملتان جانے کا حکم دیا گیا۔

جب یہ بزرگ دریائے چناب کے کنارے پر پہنچے تو ایک کشتی کے مالک نے کرایہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں دریا پار کرانے سے انکار کردیا۔

حکایت کے مطابق ان بزرگ نے ملتان پہنچنے کے لیے بغیر کسی کشتی کے دریا پار کرلیا، جبکہ وہ ملاح جس نے انکار کردیا تھا دریا کے بیچ پھنس کر رہ گیا، اس کو انہی بزرگ نے بچایا تھا۔

ایک اور حکایت میں بیان ہوا ہے کہ ملتان کا گورنر دیوان سوان مل ایک کرامت دیکھنے کے بعد ان بزرگ کا عقیدت مند ہوگیا تھا، ان کی وفات کے بعد ان کا مزار تعمیر کروایا تھا۔

حضرت دلیر باہوؒ کا مقبرہ چار میناروں کے ساتھ مربع شکل میں ہے اور ہر کونے میں ایک مینار ہے، نیلوفر کی کلیوں کے نقش سے اس کی آرائش کی گئی ہے۔

مزار کے اندر ایک مربع کمرے میں لکڑی کی چھت کے ساتھ صرف حضرت دلیرؒ کی ہی قبر ہے۔ تاہم مزار کے اردگرد کچھ دیگر قبریں بھی موجود ہیں۔

مزار کی اصل تزئین و آرائش کو تو وقت نے برباد کرکے مٹادیا یا پھر اس کی دیواروں پر بعد میں مختلف وقتوں کے دوران کیے جانے والے پلاسٹر کی تہوں کے نیچے دفن ہو کر رہ گئی۔

رفعت سلطان نے بتایا کہ مزار کی بنیادوں میں بارش کے پانی کی سیلن سے اس کے ڈھانچے کو نقصان پہنچا تھا۔

کنسلٹنٹ فرم نے اپنی تجاویز میں اس مزار کے عناصر کی نئے سرے سے دریافت کے علاوہ اس کو اصل صورت میں بحال کرنے کی سفارش کی تھی۔

محکمہ آثارِ قدیمہ کے انچارج ملک غلام محمد نے کہا کہ اس یادگار کو پنجاب اسپیشل پریمیسز ایکٹ 1985ء کے تحت محفوظ نہیں کیا گیا تھا۔

تاہم انہوں نے کہا کہ فنڈز کی فراہمی پر اس یادگار کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں