لکیر کے فقیر

26 جولائ 2014
دونوں صدارتی امیدواروں کے بیچ اقتدار کی جنگ نے افغانستان کو نسلی فسادات کی طرف دھکیل دیا ہے -- اے پی فوٹوز
دونوں صدارتی امیدواروں کے بیچ اقتدار کی جنگ نے افغانستان کو نسلی فسادات کی طرف دھکیل دیا ہے -- اے پی فوٹوز

ماہ جون میں ہونے والے افغان صدارتی انتخابات کے بعد ایسی صورتحال پیدا ہوگئی کے دونوں امیدواروں اشرف غنی احمد زائی اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے انتخابی نتائج مانے سے انکارکردیا اور اس گُھتی کو سُلجھانے امریکی سیکریٹری آف سٹیٹ جان کیری کو افغانستان آنا پڑا۔ جِنھوں نے ووٹوں کا انٹرنیشنل آڈٹ کروانے کا اعلان کیا۔

تاہم حالیہ پیشرفت کے بعد افغانستان کے انڈیپینڈنٹ الیکشن کمیشن نے ووٹوں کے انٹرنیشنل آڈٹ کے فیصلے کو معطل کردیا اور الیکشن کمیشن کا کہنا ہے کے ایسا ایک غلط فہمی کے نتیجے میں ہوا۔

دونوں امیدواروں کی جانب سے نتائج مانے سے انکار کے بعد افغانستان میں سنگین صورتحال پیدا ہوگئی اور انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق امریکی افواج کی آمد کے بعد سے ہونے والی ہلاکتوں اور زخمیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ لوگ صدارتی انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں ہلاک اور زخمی ہوئے۔

دونوں صدارتی امیدواروں کے بیچ اقتدار حاصل کرنے کی جنگ نے افغانستان کو نسلی فسادات کی طرف دھکیل دیا اور یہ صورتحال افغانستان کے لئے طالبان کے خلاف جنگ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔

حالات زیادہ خراب اس وقت ہوئے جب ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کی جانب سے انتخابات میں جیت کا اعلان کردیا گیا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کئے گئے ابتدائی نتائج کے مطابق اشرف غنی 56 فیصد ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے تھے۔ جبکہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ 44 فیصد ووٹ حاصل کرسکے۔

اس تنازعے سے امریکی صدر بارک اوبامہ کے افغانستان سے نکلنے اور افغانستان میں امریکی جنگ کے خاتمے کے لئے بنائے گئے منصوبے بھی متاثر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جو یقیناً عراق میں کی گئی غلطی افغانستان میں دہرانا نہیں چاہیں گے اور شاید اسی وجہ سے جان کیری نے اس تنازعے کے حل کے لئے افغانستان کا دورہ کیا۔

جان کیری کی جانب سے ووٹوں کے آڈٹ کے فیصلے پر موجودہ افغان صدر حامد کرزائی کا کہنا تھا کے وہ اس فیصلے پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ آڈٹ جلد سے جلد شروع کرایا جائے۔

جان کیری کی آمد سے قبل کرزائی کسی بھی قسم کی انٹرنیشنل مداخلت کے خلاف تھے۔ مگر کیری کی مداخلت انھیں ذرا بھی بری نہیں لگی اور وہ بھی انٹر نیشنل آڈٹ پر راضی ہو گئے۔

اس سے پہلے بھی حامد کرزائی نے جان کیری کے ایما پر ہی 2009 کے انتخابات میں حصّہ لیا تھا۔ اس کے علاوہ مارچ 2013 میں جب کرزائی نے امریکہ پر الزام لگایا تھا کے امریکہ افغانستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے۔ تو جان کیری ہی کرزائی کے ساتھ تعلقات استوار کرنے افغانستان آئے تھے۔

مگر لازمی نہیں کے صدر کرزائی نے ماضی میں جان کیری کی ہر بات مانی ہو۔ نومبر 2013 میں کیری نے اعلان کیا تھا کہ امریکہ اور افغانستان کے مابین بائلیٹرل سیکیورٹی معاہدہ طے پا گیا ہے۔ جس کے تحت امریکہ قانونی طور پر 2014 کے بعد بھی افغانستان میں اپنی فوج تعینات رکھ سکے گا۔

لیکن افغان صدر کی جانب سے بعد میں اس معاہدے پر دستخط کرنے سے انکار کردیا گیا۔ حالانکہ دونوں صدارتی امیدواروں کی جانب سے پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کرنے کا عندیہ دیا جا چکا ہے۔

یہ انتخابی تناذع ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جبکہ امریکہ افغانستان سے اپنی اکثریتی فوج کی واپسی کا اعلان کرچکا ہے اور حالیہ ہونے والے صدارتی انتخابات سے یہ امید کی جارہی تھی کے ان انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت افغانستان کو درپیش سیکیورٹی مسائل پر قابو پا سکے گی اور امریکی افواج کی غیر موجودگی میں ایک مستحکم افغانستان بن پائیگا۔

کیسی اچنبھے کی بات ہے کے دونوں صدارتی امیدواربین الاقوامی نگرانی میں ہونے والے ووٹوں کے آڈٹ پر تو رضا مند ہوگئے تھے مگر انھیں اپنے ملک کے ہی الیکشن کمیشن پر بھروسہ نہیں تھا۔ جس نے پہلے انہی دونوں صدارتی امیدواروں کو سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرنے والے امیدوار قرار دیا تھا۔

اگر امریکا کی ہدایات پر ووٹوں کا آڈٹ کروا دیا جاتا اور اس کے نتیجے میں کسی کی بھی حکومت بن جاتی تو افغانی عوام امریکی ایما پرہونے والے آڈٹ کے نتیجے میں بنے والی حکومت پر بھروسہ کیسے کر پاتے؟۔

یہ وہ سوال ہے جس کی وجہ سے ہی بظاہر افغان الیکشن کمیشن نے ووٹوں کا آڈٹ کروانے کا فیصلہ معطل کیا ہے اور یہ حقیقت بھی ہے کے ایک مظبوط اور مستحکم افغانستان کے لئے ضروری ہے کے وہاں ایسی حکومت اقتدار سنبھالے جس کا اعلان افغانستان کا اپنا الیکشن کمیشن کرے۔

افغانی عوام نے تو امریکی مداخلت کے 13 سالوں بعد ہونے والے انتخابات میں یہ سوچ کر ووٹ دیا تھا کے وہ اب اپنی حکومت منتخب کریں گے۔ جو امریکی فوج کے انخلا کے بعد افغانستان کو صحیح راہ پر گامزن کرے گی اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے کام کریگی۔

جاتے جاتے افغان صدر حامد کرزئی نے بھی عوامی ہمدردی حاصل کرنے کے لئے امریکی مخالفت شروع کردی اور اسی اثنا میں کرزئی نے بائلیٹرل سیکیورٹی معاہدے پر بھی دستخط نہیں کئے تاکہ نئے منتخب ہونے والے صدر کے گلے میں یہ گھنٹی ڈل جائے۔ جنہوں نے منتخب ہونے سے پہلے ہی اس معاہدے پر دستخط کرنے پر رضا مندی ظاہر کر دی ہوئی ہے۔

چودہ جون کو ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوسرے راؤنڈ میں تقریباً 80 ملین ووٹرز نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا تھا جو انتخابات کے پہلے راؤنڈ سے بھی زیادہ تھا۔ ایسے حالات میں افغانستان کی سالمیت اور اقتدار اعلٰی کے لئے لازمی ہے کے 80 ملین ووٹرز کا احترام کیا جائے اور ایسی حکومت تشکیل دی جائے جو امریکی فوج کے انخلا کے بعد ملک کی بھاگ دوڑ سنبھال سکے۔

افغان الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹوں کے انٹرنیشنل آڈٹ کے فیصلے کو معطل کرنے کے بعد اب دیکھنا یہ ہوگا کے الیکشن کمیشن اس مسئلے کا حل کیسے نکالنے میں کامیاب ہوتا ہے اور اس مسئلے کے حل میں کتنا مزید وقت لگتا ہے۔

امریکہ اس سال کے آخر تک اپنی اکثریتی فوج افغانستان سے نکالنے کا اعلان کرچکا ہے۔ ایسی صورتحال میں جتنا جلدی ممکن ہو الیکشن کمیشن کو انتخابات کے نتائج کا اعلان کردینا چاہیے تاکے ملک میں بگڑتے حالات پر قابو پایا جاسکے اور نئی منتخب ہونے والی حکومت افغانستان کی بھاگ دوڑ سنبھال سکے۔


بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات، خیالات و تجزیات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے۔

Twitter: @navidnasim

تبصرے (3) بند ہیں

Abid Mir Jul 27, 2014 01:08am
''نئی منتخب ہونے والی حکومت افغانستان کی بھاگ دوڑ سنبھال سکے'' ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ ''بھاگ دوڑ'' کیسے سنبھالتے ہیں، کچھ ہمیں بھی سمجھائیے؟ (خدارا اب اسے محض پروف کی غلطی کہہ کر ایڈیٹر کو اس 'بلنڈر' سے بری الذمہ قرار نہ دیا جائے)
Name Jul 29, 2014 02:30am
Ap log apne bag dor sambalo afghanistan dor ki bath ha
Ahmed Jul 29, 2014 12:25pm
80 million ? ziada nahi ho gaya......... itnay votes to pakistan main b cast nahi hotay