اخلاقیات: غیر مسلم پاکستانیوں کے لیے

26 جولائ 2014
اگر آج پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کا تناسب 5 فی صد بھی ہے تو 20 کروڑ کے ملک میں یہ ایک کروڑ پاکستانی بنتے ہیں۔ -- فوٹوز -- اے پی / الطاف قادری
اگر آج پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کا تناسب 5 فی صد بھی ہے تو 20 کروڑ کے ملک میں یہ ایک کروڑ پاکستانی بنتے ہیں۔ -- فوٹوز -- اے پی / الطاف قادری
فوٹوز -- اے پی / الطاف قادری
فوٹوز -- اے پی / الطاف قادری

شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیے افواج پاکستان کا آپریشن "ضرب عضب" زور شور سے جاری ہے۔

وفاقی وزیراطلاعات اور براستہ این ایس ایف مسلم لیگ (ن) میں آئے پرویز رشید کا استدلال ہے کہ فوج عسکریت پسندوں کے ٹھکانے ختم کر رہی ہے مگر قوم کو ان کے نظریاتی ٹھکانے ختم کرنے کے لیے کام کرنا ہوگا۔

یہ تحریر بھی اک ایسے "نظریاتی ٹھکانے" کے خاتمے کے لیے لکھی جارہی ہے جس کے بارے میں 1969 سے 2009 تک، یعنی 40 سال تک ریاست پاکستان نے چپ سادھے رکھی۔

ایک مسئلہ تو ایک کروڑ کے قریب غیر مسلم پاکستانیوں کے بچوں کو ان کے عقائد کے مطابق تعلیم دینے کا ہے، اس سے جڑا ایک اور مسئلہ پاکستانی مسلم بچوں کے ذہنوں سے اپنے غیر مسلم پاکستانی بھائیوں و بہنوں کے بارے میں خوارج کی تکفیری آئیڈیولوجی کے پیدا کردہ تعصبات اور غلط فہمیوں کے خاتمے کا ہے۔

ملک پاکستان میں 1969 کے تعلیمی پالیسی کا شمار ان بدترین تعلیمی پالیسیوں میں ہوتا ہے جس نے لبرل و عقلی (Rational) رویوں کو قومی تشکیل (Nation Building) کے گھیرے پیٹے سے باہر نکال ڈالا تھا۔

اس پالیسی میں چار اہم فیصلے کیے گئے تھے جنھیں ضیاءالحق کی سیاست کا دیباچہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ بھٹو صاحب کے ہونہار وزیر تعلیم عبدالحفیظ پیرزادہ اور 1972 کی تعلیمی پالیسی نے بھی ان اقدامات کے بارے چپ سادھ لی، جس کا مطلب ان کا تسلسل ہی ٹھہرا۔ یہ چار فیصلے تھے؛

  1. اسلامیات کو دسویں جماعت تک بطور لازمی مضمون پڑھایا جائے۔

  2. انگریزوں کے بنائے سکولوں کی بجائے مدارس سے پڑھے ہوئے بچے پاکستان کی "نظریاتی سرحدوں" کے ضامن ہیں۔

  3. غیرملکی فنڈنگ لینے والے مشنری ادارے "نظریہ پاکستان" کے نفاذ میں رکاوٹ ہیں۔ انہیں یا تو قومیا لیا جانا چاہیے یا بند کر دینا چاہیے۔

  4. غیرمسلم پاکستانیوں کو اسلامیات کی جگہ کونسی کتب پڑھانی ہیں اس بارے پالیسی خاموش رہی کہ اب انہیں عملاً اسلامیات ہی پڑھنی ہوگی۔


آپ مانیں یا نہ مانیں، مگر میں نے جب حکومت پاکستان کی جاری کردہ درجن بھر سے زائد تعلیمی پالیسیوں اور تعلیمی کانفرنسوں کی رپورٹوں کو پڑھا تو نومبر1947 کی پہلی تعلیمی کانفرنس، 1951کی دوسری تعلیمی کانفرنس، 1959 کے باکمال شریف کمیشن اور اپنے جسٹس حمود الرحمن کی طلبا کے بارے 1966 والی رپورٹوں کا جائزہ لیتے ہوئے مجھے ان تمام دستاویزات میں غیرمسلموں کو ان کے عقائد کے مطابق کتب پڑھانے کا ویژن ضرور ملا۔

مگر شیر علی پٹودی اور ائیرمارشل نور خان کی تیار کردہ رپورٹ "نئی تعلیمی پالیسی کے لیے تجاویز" مطبوعہ 1969 تو قدرت اللہ شہاب کے اس خط کا تسلسل تھی جو انھوں نے 1967 میں اسلامی جمعیت طلبہ کے اس وقت کے امیر سید منور حسن کے نام لکھا تھا۔

شہاب صاحب نے اس خط میں اقرار کیا تھا کہ اب ریاست دھیرے دھیرے جماعت اسلامی کے نقطہ نظر کو اپنانے کے لیے تیار ہو رہی ہے۔ اس خط کو پنجاب یونیورسٹی کے مجلہ "محور" کے اس خصوصی شمارے میں اسلامی جمیعت طلبہ نے شائع کیا جو صد سالہ تقریبات کے تناظر میں 1981 کو فخریہ انداز میں چھاپا گیا تھا۔

یاد رہے جنرل شیرعلی پٹودی تو وہ موصوف تھے جن کی مذہبی بنیادوں پر ہندوستان دشمنی پر مبنی دو کتابیں 1966 میں امریکہ سے چھپ چکی تھیں۔

قدرت اللہ شہاب کا قصہ بھی سن لیں جو حضرت نے خود اپنی خود نوشت "شہاب نامہ" میں رقم کیا ہے۔ 1956 کے آئین میں پاکستان کو "اسلامی جمہوریہ پاکستان" قرار دیا تھا۔ مگر اکتوبر 1958 کے بعد مارشل لاء حکومت نے اسے بدل کر جمہوریہ پاکستان (Republic of Pakistan) کردیا اور سرکاری کاغذات پر یہی لکھا جانے لگا۔

شہاب نے جب یہ 'بے توقیری' دیکھی تو انہیں 'دھچکا' لگا اور استعفیٰ دینے بارے سوچنے لگے۔ جنرل ایوب کی توجہ دلائی تو جرنیل صاحب نے کہا یہ تبدیلی ہم نے سوچ سمجھ کر کی ہے۔ مگر جب سٹینڈ لینے کا موقعہ آیا تو سٹی گم ہو گئی۔

یہ موقعہ 1962 کے آئین کے تحت ہونے والے پہلے اجلاس کے وقت آیا۔ اس آئین میں بھی 'جمہوریہ پاکستان' ہی لکھا تھا مگر شہاب جیسے افسروں کے اضطراب اور مشرقی پاکستان کے بنگالی اراکین اسمبلی کے احتجاج کے بعد ایوبی آئین میں پہلی ترمیم کی گئی اور ملک کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان رکھ دیا گیا۔

1962 کے آئین کی پہلی ترمیم انٹرنیٹ پر دسیتاب ہے۔ یہی شہاب 1962 میں دلبرداشتہ ہوکر بطور سفیر ہالینڈ چلے گئے۔ تین سال ہالینڈ میں سفارت کاری کرنے کے بعد اچانک 1966میں سیکریٹری تعلیم مقرر ہوئے تھے۔

انھوں نے یہ خط بطور چیئرمین ادارہ نصابیات پاکستان لکھا تھا جس میں ریاست کے مقتدر گروہ ”ہندوستان دشمن“ مذہبی قوم پرستی کے آگے سرنگوں ہوتے نظر آرہے تھے۔ یہ 1969کی تعلیمی پالیسی ہی تھی جس میں پاکستان کو ایک "نظریاتی مملکت" بنانے کا نعرہ لگا کر "یکساں نظام تعلیم" کی سفارش موجود ہے۔

بظاہر یکساں نظام تعلیم ایک غیر طبقاتی بندوبست نظر آتا ہے مگر اصل مقصد یہ تھا کہ اس کی آڑ میں ریاست من مرضی کے نظریات یکساں انداز میں سب پر تھوپ سکے۔ مسیحی مشنری اداروں کو قومیانے جیسی سفارشات پر مبنی یہ پالیسی "سکول سسٹم" کو انگریز کی پیداوار جبکہ "مدرسہ سسٹم" کو مجوزہ نظریاتی مملکت کا پہرہ دار قرار دے رہی تھی۔

"سکول سسٹم" پر تنقید کرنے والے یہ بات یاد نہیں رکھنا چاہتے تھے کہ علامہ اقبال، قائد اعظم، حسین شہید سہروردی، لیاقت علی خان، چوہدری محمد علی، فیروز خان نون اور غلام محمد سمیت تحریک پاکستان میں شامل بہت سے رہنما اسی "سکول سسٹم" سے مستفید ہوئے تھے۔

عملاً یہ پالیسی تحریک پاکستان پر بھی کھلی تنقید تھی کہ اب مدارس کو استعمال کرنا ضروری گردانا جا چکا تھا۔ مدارس کو سکول سسٹم سے ملانے کے ویژن سے مراجعت اختیار کرتے ہوئے اب ان میں تکرار کو ضروری گردانا گیا۔ مشنری سکولوں کے متعلق پالیسی میں یہ الفاظ لکھے تھے؛

''Their continued existence in a free and independent state which is an Islamic Republic must be regarded as highly anachronistic.''

جب اس پالیسی پر تنقید بڑھی تو جنرل یحییٰ خان کی حکومت نے ڈنگ ٹپانے کے لیے 1970 میں نئی تعلیمی پالیسی کا اعلان کردیا۔ مگر اس نئی پالیسی میں پہلے لکھے چاروں فیصلوں پر خاموش رہتے ہوئے درحقیقت ان کے تسلسل کا اعلان کردیا۔

1972 کی تعلیمی پالیسی میں بھی ان فیصلوں کو برقرار رکھا گیا کہ جس کا ثبوت وہ فیصلہ ہے جس کے تحت تمام نجی تعلیمی اداروں کو تو قومیا لیا گیا مگر مدارس کو مستثنیٰ قرار دے ڈالا گیا۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ بعد ازاں بھٹو صاحب کے وزیر تعلیم اپنی تعلیمی پالیسی کو 1973 کے آئین سے ہم آہنگ کرنے میں ناکام رہے۔

1969 سے 2009 تک غیرمسلم پاکستانیوں کو عملاً اسلامیات پڑھانے کی پالیسی جاری رہی کہ اس دوران امیر غیر مسلم پاکستانیوں کے بچے تو مہنگے نجی تعلیمی اداروں کی طرف راغب ہوئے اور غریب غیرمسلم پاکستانی (جن کی تعداد بہت زیادہ ہے) یا تو یہ "جبر" سہتے رہے یا پھر ہندو مسیحی برادریوں کے بنائے این جی اوز کے سکولوں میں جانے لگے۔

اگر آج پاکستان میں غیر مسلم پاکستانیوں کا تناسب 5 فی صد بھی ہے تو 20 کروڑ کے ملک میں یہ ایک کروڑ پاکستانی بنتے ہیں۔ اگر کسی غیرمسلم ملک میں رہنے والی مسلم اقلیت کے بچوں کے ساتھ یہ سلوک کیا جائے تو ہم کیا سوچیں گے؟

مگر اس بارے میں 40 سال تک صرف پاکستانی ریاست ہی خاموش نہ رہی بلکہ میڈیا، سیاسی جماعتیں سب اس بارے میں چپ سادھے بیٹھے رہے۔ لبرل و سیکولر حضرات نے محدود سطح پر آواز ضرور بلند کی مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز بھلا کون سنتا ہے۔

کیا ایسی پالیسی سے ہم نے ایک کروڑ باسیوں کوعملاً "غیرپاکستانی" قرار دے کر پاکستانی قوم پرستی کو مضبوط کیا؟

بھلا ہو پیپلز پارٹی کا کہ انھوں نے پچھلی حکومت کے آخری دور میں تعلیمی اصلاحات کے ضمن میں کیے جانے والے کام کو اچھی طرح ڈھوک بجانے کے بعد 2009 میں نئی تعلیمی پالیسی منظور کر دی۔ اس تعلیمی پالیسی میں 1969 کی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے غیر مسلم پاکستانیوں کو پھر سے مملکت سے جوڑنے کا ویژن موجود ہے۔

اس پالیسی کی منظوری کے اگلے ہی سال بذریعہ 18ویں ترمیم کنکرنٹ لسٹ ختم ہوئی اور تعلیم سمیت بہت سے شعبہ جات مرکز کی گرفت سے نکل کر صوبوں کو منتقل ہوگئے۔ 2010 سے کم از کم پنجاب حکومت تو پالیسی کی اس شق پر عملدرآمد کروارہی ہے جس کا مقصد غیرمسلم پاکستانیوں کو دوبارہ سے پاکستانی قوم پرستی سے جوڑنا ہے۔

جب میں نے 2011 میں پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی چھپی کتاب کا عنصری جائزہ "ہم اپنے بچوں کو کیا پڑھا رہے ہیں" لکھا تو اس میں کلاس 9/10 کی اخلاقیات کی واحد کتاب بھی شامل تھی۔

2014 میں جب میں نے پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتب کا جائزہ لینا شروع کیا تو مجھے یہ خوشگوار حیرت ہوئی کہ بورڈ نے کلاس 3 سے 9/10 تک ماسوائے جماعت 8 کے اخلاقیات کی تمام کتب چھاپ دی ہیں۔ آپ مسلم لیگ (ن) اور میاں شہبازشریف کی حکومت سے لاکھ اختلاف کریں مگر پنجاب حکومت کا 2009 کی تعلیمی پالیسی کی اس شق کا خیال رکھنا یقینا اک مثبت پہلو ہے۔ جب میں نے اپنے کوئٹہ مقیم بلوچ دوست سے پوچھا کہ وہاں کے ٹیکسٹ بک بورڈ نے غیر مسلموں کے بارے میں کتب چھاپی ہیں تو اس نے نفی میں جواب دیا۔

اب جب کے یہ کتابیں مارکیٹ میں دستیاب ہیں تو غیرمسلم پاکستانیوں میں کام کرنے والے گروہوں، غیرسرکاری تنظیموں اور اداروں کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ یقینا ان کتابوں میں گھاٹے یا کمیاں ہوں گی، مگر سب سے پہلے تو اس جرات رندانہ پر انہیں پنجاب سرکار کو سراہنا چاہیے اور پھر ان کتب میں ترمیم و اضافہ کے لئے سر جوڑنا چاہیے۔

یہی نہیں بلکہ دیگر صوبوں کو بھی یہ کہنا چاہیے کہ وہ پنجاب سرکار کی تقلید کریں اور غیر مسلم پاکستانیوں کے بچوں کے لیے اخلاقیات کی کتب جلد از جلد تیار کروائیں۔ ان کتب کو پڑھنے کے بعد جو سوالات میرے ذہن میں آئے میں ان سے بھی آپ کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔

  1. آئین پاکستان کی دوسری ترمیم کے تحت احمدیوں کو غیرمسلم قرار دیا ہوا ہے۔ ان کتب میں مسیحیوں، سکھوں، پارسیوں، ہندوﺅں، بدھ مت والوں بارے میں بہت سی مثبت معلومات دی گئی ہیں مگر احمدیوں اور ان کے عقائد کے بارے ذکر تک نہیں۔ یوں عملاً اخلاقیات کی یہ کتب یا تو احمدیوں کو غیرمسلم کے زمرے میں نہیں سمجھتیں یا پھر انہیں احمدیوں سے اتنی چڑ ہے کہ وہ ان کے بارے مثبت باتیں لکھ ہی نہیں سکتے۔

  2. ان کتب میں غیر مسلم پاکستانیوں کے عقائد کا ذکر تو ہے مگر ان غیرمسلم پاکستانی شخصیات کا ذکر ہی نہیں جنھوں نے وطن عزیز کے لیے گرانقدر خدمات سرانجام دیں ہیں۔ آپ سرظفراللہ اور ڈاکٹرعبدالسلام کا ذکر بوجوہ نہیں کرنا چاہتے مگر میرافیلبوس، بھگوان داس، جوگندر ناتھ منڈل، ارد شیر کاؤس جی سمیت لاتعداد غیرمسلم پاکستانیوں کے بارے میں مضمون شامل نصاب کرسکتے ہیں جنھوں نے اس وطن عزیز میں خدمات سرانجام دیں ہیں۔

  3. انہی کتب میں آپ آئین پاکستان کی ان شقوں کا تعارف دے سکتے ہیں جن میں غیرمسلم پاکستانیوں کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔

4 . غیر اسلامی عقائد کے بارے میں مثبت باتیں "اخلاقیات" کی کتاب میں شامل کرنا بہتر عمل ہے مگر کیا ضروری نہیں کہ مسلمان بچوں کی کتب میں غیرمسلم پاکستانیوں اور ان کے عقائد کے بارے میں منفی باتیں شامل نا کی جائیں۔ اخلاقیات کی نئی کتب کا تعارف بھی کسی وقت کرواﺅں گا مگر فی الحال آپ یہ جدوجہد کریں کہ سندھ، بلوچستان، خیبر پی کے اور فیڈرل ٹیکسٹ بک بورڈ والے اخلاقیات کی کتب چھاپیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (9) بند ہیں

آشیان علی Jul 26, 2014 02:32pm
جناب عامر ریاض چوتھی کی اردو کی کتاب میں میجر عزیز بھٹی شہید کے نام سے ایک سبق ہم نے پڑھا ہے جو اس فقرے سے شروع ہوتا ہے'' 6 ستمبر کی رات دشمن نے بغیر اعلان کے بغیر پنجاب پر حملہ کر دیا "" پھر عملی ذندگی میں داخل ہونے کے بعد جب نصابی کتب سے آزادی نصیب ہوئی تو جنرل نیازی کی سوانح عمری کا مطالعہ کر کے خود پر لعنت بھیجتے رہے. اسی سبق میں ایک فقرہ "" اور ٹینک کا ایک گولہ ان کے بائیں کندھے پر لگا جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہو گئے"" ہم یہ سمجھتے رہے بھارتی ٹینک کا گولہ غلیل کے پتھر جیسا ہوتا ہے یا میجر عزیز بھٹی کے ٹو سے بڑے حجم کے تھے جو ٹینک کے گولے سے زخمی ہو گئے .اسلامیات نہیں اردو اور مطالعہ پاکستان کی کتب میں ٹیپو سلطان کی بہادری کی داستان میں ان کا اپنی بیشتر سلطنت گنوانے پر بچی کھچی سلطنت بچانے کے لیے اپنے دو بیٹے انگریز کے پاس گروی رکھنے کا ذکر تک نہیں ہے. جب ہم کسی کو بتاتے ہیں تو نصابی کتب کے جھوٹ اور سچ چھپانے کے نتیجے میں ہم کو کافر کا ایجنٹ کی گالی ملتی ہے . محمد بن قاسم کی ہلاکت کا احوال بتانے پر نصابی کتب کے کیڑوں نے ہم پر حملہ ہی کر دیا تھا . 9 اور 10 کلاس کی کیمسٹری فزکس اور بیالوجی میں تخلیاتی کرداروں کو مسلمان سائنسدان کے نام سے کارنامے شامل کرنا یا ان کتب کے اردو میں تحریر کیے جانے کے بعد اگلی کلاسوں میں یہی مضامین انگریزی میں ہونا بھی بذات خود ایک ظلم ہے . آپ کی تعلیمی نصاب کے حوالے سےکافی خدمات ہیں بس عرض صرف اتنی ہے صرف اسلامیات نہیں باقی نصاب پر بھی توجہ کی ضرورت ہے .
aamir riaz Jul 26, 2014 04:44pm
@آشیان علی: i already wrote that these books needs attention yet if Punjab Government started publishing it and others are not ready to even start it than we should first appreciate it and than work on these books. am working on English, Islamyat, Pak Studies, Urdu and Ikhlaqiat books but the worst case is Urdu textbooks.
Abid Mir Jul 27, 2014 12:59am
بلوچستان میں مطالعہ پاکستان کی میٹرک کی کتاب میں جنرل ضیا الحق کی شان میں پورا ایک باب شامل ہے۔ بلوچستان ٹیکسٹ بک بورڈ کی شایع کردہ مطالعہ پاکستان برائے انٹرمیڈیٹ کا پہلا ہی باب ہندو ازم کی تحقیر سے شروع ہوتا ہے۔ نیشنل بک فائونڈیشن کی شایع کردہ یہی کتاب نظریہ پاکستان، ہندو دشمنی اور پرویز مشرف سمیت فوجی حکمرانوں کی 'کامیابیوں' سے بھری پڑی ہے۔پاکستانی زبانیں کے عنوان سے شامل باب میں اردو اور پاکستان کو لازم و ملزوم قرار دیا گیا ہے۔ پنجابی کے بارے میں لکھا گیا ہے 'پنجابی زبان میں تخلیق ہونے والے ادب کی نظیر عالمی ادب میں نہیں ملتی' اور بلوچی زبان کی سرخی کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ'بلوچوں میں زمانہ جاہلیت کے عرب قبائل کی تمام خصوصیات پائی جاتی تھیں۔' میٹرک اور انٹر لیول پہ پڑھائی جانے والی اسلامیات کی کتاب کا وسیع حصہ جہادی مواد پہ مشتمل ہے ۔ اور یہ سب تازہ ایڈیشنوں میں موجود ہے۔
ali Jul 27, 2014 10:57am
@آشیان علی: sari dunya main is trha hota hy. America b apny bachon ko isi trha btata hy k unhon ny japan pr atomic bomb gra kr acha kam kia tha. israel btata hy k unhon ny kisi ki zmeen pr qabza nhi kya balkay ye un ka haq hy. india b aisy krta hy. kisi b mulk ki education policy main in baton ka khyal rakha jata. aur ye qoum k faidy k liay hy believe me
aamir riaz Jul 27, 2014 01:28pm
@ali: there is no harm in introducing nationalism yet why we always love to present Pakistani nationalism in contradiction of Pakistani nationalities like Punjabi, pukhtoon, sindhi, Baloch. Why we present Pakistani nationalism in contradiction with Non-Muslim Pakistanis? yeh tu amrika meen nahi hota jinab. Abid ji, have u read any textbook study of baluchistan textbooks? we love to raise slogans but Kam Jawan di maut hai. now balochistan has an elected government and a vibrant political party is leading it so it is high time to pressurize them to work for a balance, pro peace curriculum.
zaman butt Jul 28, 2014 08:00am
good
آشیان علی Jul 28, 2014 03:55pm
@ali: ہم لوگ پاکستانی ہیں اور ہندوستان 9برصغیر کا حصہ ہیں. ہماری تاریخ سے عربوں کے قسوں کو بڑھا چڑھا کر اور عربوں کو بطور ہیرو طالب علمی کے دور میں ہمارے ذہنوں میں ڈال دینا ٹھیک نہیں ہے. اور عربوں کے سامنے مقامی لوگوں کی ناکامی کو حقارت سے بیان کرنا بذات خود بے غیرتی ہے.
Naumana Suleman Jul 29, 2014 06:27pm
Mr. Amir you wrote well, but Ethics is not an alternate. If religious education is necessary and being provided to the Muslim students, then all non-muslim students should be provided with the education of their own religion and according to their believes/ faith.
aamir riaz Jul 31, 2014 10:21pm
@Naumana Suleman: sarkar it is better . from 40 years non muslims were bound to read islamyat but now they r reading Ethics in the Punjab. in these books there r stories from Bible, Gita, Garanth etc