واشنگٹن: پاکستان نے امریکا پر زور دیا ہے کہ وہ عسکریت پسندوں سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو آہنی طاقت فراہم کرے، جبکہ واشنگٹن چاہتا ہے کہ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ بھی آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے۔

دونوں فریقوں نے دبے دبے الفاظ میں باہمی تعاون میں کمی کے بارے میں اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

واشنگٹن میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ایک سینئر پاکستانی اہلکار نے شکایت کی کہ امریکی اور ان کے افغان اتحادیوں کی جانب سے آپریشن ضربِ عضب کی وجہ سے افغانستان فرار ہونے والے دہشت گردوں کو روکا نہیں گیا۔

لیکن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے جمعرات کی سہہ پہر ایک بریفنگ میں بتایا تھا کہ واشنگٹن کی توجہ حقانی نیٹ ورک پر برقرار ہے، جو افغانستان کے اندر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس ہفتے کے اوائل میں افغان وزارت خارجہ کے ایک ترجمان نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ شمالی وزیرستان کا آپریشن کابل کے لیے قابلِ قبول نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف پاکستانی طالبان کو نشانہ بنایا جارہا ہے، حقانی نیٹ ورک اس کا ہدف نہیں ہے۔

پاکستان نے اپنے وزارتِ خارجہ کے اعلٰی سطح کے ایک عہدے دار طارق فاطمی کو ان اختلافات کو دور کرنے کے لیے امریکا بھیجا ہے اور وہ ایک پورا ہفتہ واشنگٹن میں سینئر حکام اور قانون سازوں سے ملاقات میں صرف کررہے ہیں۔

ایک سینئر پاکستانی اہلکار نے طارق فاطمی کے دورے کے بارے میں امریکی میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے افغان سرحد کی دوسری جانب سے تعاون میں کمی پر پاکستان کی مایوسی کے بارے میں بتایا تھا۔

اپنی شناخت نہ ظاہر کرنے کی درخواست کے ساتھ ایک اہلکار نے یہ شکایت کی کہ امریکی قیادت میں بین الاقوامی افواج اور ان کے افغان اتحادی ان عسکریت پسندوں کو روکنے میں ناکام رہے ہیں، جو جاری آپریشن کی وجہ سے افغانستان فرار ہوگئے تھے۔

مذکورہ اہلکار نے کہا ’’ان کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیٔے تھا، لیکن پاکستان نے دوسری طرف ایسا کوئی ثبوت نہیں دیکھا۔‘‘ انہوں نے امریکا پر زور دیا کہ ان عسکریت پسندوں کو باہر نکالیں اور انہیں ختم کردیں۔

لیکن جمعرات کی سہہ پہر ایک بریفنگ میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ترجمان میری ہاف نے واضح کیا کہ امریکا اب بھی حقانی نیٹ ورک کے بارے میں فکرمند ہے، جس کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ اس کا شمالی وزیرستان میں گڑھ ہے۔

امریکی میڈیا میں سے اکثر نے سینئر امریکی حکام کا حوالہ دیا ہے، جن کا کہنا تھا کہ پاکستان نے شمالی وزیرستان میں آپریشن کی تشہیر کرکے حقانی نیٹ ورک کو فرار ہونے میں مدد کی تھی۔

میری ہاف نے کہا ’’ہم طویل عرصے سے حقانی نیٹ ورک اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے، امریکی شہریوں اور خاص طور پر فوج کے حاضر سروس اہلکاروں پر حملہ کرنے اور انہیں کرنے کے مقصد پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، جس کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا ’’اور یہ ہماری اولین ترجیحات میں سے ہے کہ ہماری تمام مجموعی طاقت کو بروئے کار لاتے ہوئے اس خطرے سے مقابلہ کرنے میں مدد کی جائے، ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت کو کمزور کیا جائے، انہیں اپنے لیے فنڈز جمع کرنے سے روکا جائے اور انہیں اردگرد کے لوگوں میں منتقل ہونے سے روکا جائے۔ لہٰذا یہ اب بھی ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے۔‘‘

میری ہاف نے کہاکہ امریکا اس چیلنج کے بارے میں جانتا ہے اور خصوصاً افغانستان میں اس خطرے کا مقابلہ کرنے میں مدد دینے کے لیے کام کررہا ہے۔

تاہم پاکستانی اہلکار جو امریکی میڈیا کو بریفنگ دے رہے تھے، انہوں نے کہا کہ امریکی اور افغان افواج ان لوگوں کو فرار ہونے کی ہرگز اجازت نہیں دیں۔

واشنگٹن پوسٹ نے اس بریفنگ کی رپورٹ دیتے ہوئے اشارہ کیا کہ امریکی افواج نے شمالی وزیرستان کے اطراف میں اپنی چوکیوں کو پہلے ہی چھوڑ دیا تھا اور فرار ہونے والے عسکریت پسندوں کو روکنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔

امریکی میڈیا نے فوجی آپریشن کے حوالے سے پاکستان کی حکمت عملی پر بھی سوالات اُٹھائے ہیں، کہ جب امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی ہیں تو یہ کارروائی شروع کی گئی ہے، اس کے بجائے اگر یہ کافی پہلے شروع کی گئی ہوتی، جب امریکا کے ایک لاکھ سے زیادہ کی تعداد میں فوجی وہاں موجود تھے تو وہ پاکستانیوں کو آہنی قوت سے مدد کرسکتا تھا، جوپاکستان اس وقت طلب کررہا ہے۔

بریفنگ کے دوران پاکستانی اہلکار نے اس خیال کو مسترد کردیا کہ حقانی نیٹ ورک جاری آپریشن میں محفوظ رہے گا۔

انہوں نے کہا ’’یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک فوجی آپریشن جس میں سینکڑوں سپاہیوں اور افسران کی زندگیوں اور کروڑوں ڈالرز کی قیمت پر شروع کیا جائے اور کسی ایک گروپ کو فرار ہونے میں مدد دی جائے، اس آپریشن میں ہر ایک کو نشانہ بنایا جائے گا۔‘‘

مذکورہ اہلکار نے کہا ’’اگر فرار ہونے والا کوئی بھی عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہوا تو ہم یہ دیکھنا پسند کریں گے کہ ایساف اور افغان افواج انہیں باہر نکال دیں۔‘‘

انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکا پاکستان کے ساتھ اپنی انٹیلی جنس کے اشتراک میں اضافہ کرے تاکہ دہشت گردی سے مقابلہ کرنے والے اس آپریشن میں مدد مل سکے، لیکن انہوں نے ڈرون حملوں کی مخالفت کی جو چھ مہینوں کے وقفے کے بعد جون میں دوبارہ شروع ہوگئے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’’سرحد کی دوسری جانب ڈرون حملے شروع کیے جانے چاہیٔیں۔‘‘

تبصرے (0) بند ہیں