ڈیرہ اسمعیل خان : جنوری میں جب ایک بارودی سرنگ کے دھماکے میں انسپکٹر عنایت اللہ کا دایاں پیر اور بایاں ہاتھ ضائع ہوگئے تو سینکڑوں افراد کا ہجوم اپنے شہر کے اس ہیرو کو خون کا عطیہ دینے کے لیے ہسپتال میں جمع ہوگیا تھا۔

اب عنایت جسے "ٹائیگر" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، دوبارہ ضلعی بم اسکواڈ کے سربراہ کی حیثیت سے کام پر واپس آچکا ہے اور وہ ان بموں کا مقابلہ کرنے کے لیے پرعزم ہے جو اس کے خیال میں عیدالفطر کے بعد پاکستانی طالبان مختلف مقامات پر نصب کرسکتے ہیں۔

گزشتہ ماہ فوج نے عسکریت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں آپریشن شروع کیا تھا جس کے ردعمل میں ریاست کے خلاف لڑنے والے دہشت گردوں کی جانب سے ابھی خاموشی ہے مگر عنایت کا ماننا ہے کہ وہ جلد دوبارہ شہروں میں چھپے بموں کو استعمال کرنا شروع کرسکتے ہیں۔

عنایت کا کہنا تھا" ہم ریڈ الرٹ ہیں، تاہم ہمیں آلات کی کمی کا سامنا ہے"۔

اپنی متاثرہ انگلیوں سے عنایت نے زندگی بچانے والے آلات کی اس فہرست کی جانب اشارہ کیا جو اس کے اہلکاروں کو درکار ہیں، جن میں ایک طاقتور موبائل فون جیمر، وہیکل سکینر اور بموں سے تحفظ دینے والا سوٹ وغیرہ شامل ہیں۔

عنایت نے مزید کہا" ہم عالمی معیار سے واقف ہیں مگر ہمارے پاس جدید آلات نہیں، میرے اہلکاروں کو زیادہ تحفظ حاصل نہیں، اگر ان میں سے کوئی ایک بھی مارا جائے تو ہم کس طرح اس کی بیوی یا ماں کا سامنا کرسکیں گے؟۔

اس نے مزید کہا کہ بم یونٹ کو تیس افراد کی نفری درکار ہے تاہم ہمارا عملہ صرف گیارہ لوگوں پر مشتمل ہے۔

انہیں کوئی اضافی تنخواہ یا انشورنس کی سہولیت میسر نہیں اور صوبائی حکومت کی جانب سے کافی عرصے قبل انعام کا وعدہ تاحال پورا نہیں کیا جاسکا۔

اس یونٹ میں دو سدھائے ہوئے کتے موجود ہیں مگر ان کے رہنے کے لیے کوئی ائیرکنڈیشنڈ سگ خانہ یا کتا گھر نہیں، اور گرمی میں رہنے کی وجہ سے کتے دھماکہ خیز مواد کی بو سونگھنے میں ناکام رہتے ہیں۔

پولیس کو دہائیوں سے نظرانداز کیا جارہا ہے رواں برس کے وفاقی بجٹ میں فوج کے لیے تو سات ارب ڈالرز رکھے گئے مگر پولیس کو صرف اسی کروڑ ڈالرز دیئے جائیں گے۔

ٹائیگر اور کبوتر

عنایت ڈیرہ اسمعیل خان کے ارگرد ایک مقبول چہرہ ہے، وہ گزشتہ چودہ سال سے بموں کو ناکارہ بنانے کا کام کررہا ہے اور وہ اکثر بموں کو ناکارہ بنانے کے لیے اپنے پالتو کبوتر مینا کے ساتھ جائے وقوعہ پر پہنچتا ہے جو اس کے کندھے پر بیٹھا ہوتا ہے۔

عنایت جب زخمی ہوا تھا تو اس روز اس نے پانچ بارودی سرنگوں کو ناکارہ بنایا تھا، اس دوران دن کی روشنی مدھم ہونے لگی اور وہ علاقہ کافی خطرناک تھا، تو جلدبازی میں وہ چھٹی سرنگ کی زد میں آگیا۔

عنایت کا کہنا تھا" میں نے اپنے ڈرائیور کے چیخنے کی آواز سنی تھی، جو کہہ رہا تھا کہ یہ مرگیا ہے ہم اسے کھو چکے ہیں، میں نے اسے بتایا کہ میں ابھی بھی زندہ ہوں، میں نے کھڑا ہونے کی بھی کوشش کی مگر پھر گرگیا"۔

اس کا دایاں پیر دھماکے کی نذر ہوگیا تھا مگر وہاں سے گزرنے والے ایک راہ گیر کے اسکارف کے ذریعے زخم سے خون بہنے کا سلسلہ روک کر اس کی زندگی بچالی گئی، جب یہ خبر شہر میں پہنچی تو سینکڑوں افراد خون کا عطیہ دینے ہسپتال کے باہر جمع ہوگئے۔

مدھم لہجے میں بات کرنے والا عنایت، جس کا کمرہ اس کے بیٹے کی تصاویر اور ناکارہ بموں سے بھرا ہوا ہے، دوبارہ اپنے کام پر واپس آگیا ہے۔

وی بیساکھی کی مدد سے چلتا ہے اور اس کے متاثرہ ہاتھ اس کی میز پھر پھیلے تاروں کے جال کو کھینچ ک عسکریت پسندوں کی دھماکے کرنے کی تازہ ترین تیکنیک کا مظاہرہ کرکے دکھاتے ہیں۔

اگرچہ اس کے اہلکار آئندہ مہینوں میں تشدد کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہیں تاہم اس ے توقع ہے کہ طالبان کے خلاف فوجی کارروائی سے پاکستان میں طویل المعیاد بنیادوں پر امن قائم ہوجائے گا۔

عنایت کا کہنا ہے" اگر وہ تشدد کے مرکزی دھارے کو سست کریں گے تو یہ بہت اچھا ہوگا، جہاں تک میری بات ہے میں دوبارہ فیلڈ میں جانے کے لیے مزید انتظار نہیں کرسکتا"۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

nasir Jul 29, 2014 09:29am
Ese insan ko tmgha milna chahye.
waseem Jul 29, 2014 01:28pm
He is a real hero when everyone from the civilian set up is shifting the burden to military, he is one doing his job, and doing brilliantly.
fakhar choudhury Jul 29, 2014 11:52pm
aise bahaduron ko hazaro salam
fakhar choudhury Jul 29, 2014 11:53pm
aise bahaduron ko hazaro salam