کابلی پلاؤ، یخنی پلاؤ کا جد امجد سمجھا جاتا ہے اور اس کی بہترین تعریف مشرقی زبانوں کے ہنگیرین پروفیسر، آرمینیس ویمبرے نے کی ہے- ویمبرے نے انیسویں صدی میں مشرقی زبانوں پر تحقیق کے لئے سینٹرل ایشیا، افغانستان اور برصغیر کا سفر کیا، اپنے اس سفر کے دوران انہوں نے ان خطّوں کے رہنے والوں کے رہن سہن اور خوراک کا مشاہدہ بھی کیا-


چند چائے کے چمچ چربی پگھلانے کے لئے برتن میں ڈالی جاتی ہے (ترجیحاً دم کی چربی)- چکنائی گرم ہو جانے پر چھوٹے ٹکڑوں میں کاٹا گیا گوشت اس میں ڈال دیا جاتا ہے- جب گوشت کسی حد تک فرائی ہوجائے تو اس میں کم زکم تین انگل گہرائی تک پانی ڈالتے ہیں- پھر اسے ہلکی آنچ پر گوشت گل جانے تک پکنے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں- اس کے بعد اس میں مرچ اور باریک کٹی ہوئی گاجر شامل کی جاتی ہے، پھر اپر سے چاول کی تہہ بچھا دیتے ہیں، تھوڑا اور پانی ڈالا جاتا ہے- جیسے ہی چاول پانی جذب کر لیں آنچ کم کر دی جاتی ہے اور پتیلی کو ڈھکن سے اچھی طرح ڈھک دیا جاتا ہے، اور اس طرح سرخ دہکتے کوئلوں کی آنچ پر چاول، گوشت، گاجر اور میٹھے خشک میوے سٹیم میں اچھی طرح پکتے ہیں-

کوئی آدھے گھنٹے کے بعد ڈھکن ہٹایا جاتا ہے اور پلاؤ کو اس طرح ڈش میں نکالا جاتا ہے کہ ہر تہہ الگ الگ نظر آتی ہے- پہلے چکنائی سے تر چاول، پھر گاجر اور گوشت سب سے اوپر کشمش سجائی جاتی ہیں اور یوں کھانے کا آغاز ہوتا ہے-


ویمبرے کو کئی مواقعوں پر آفریدی قبیلے کے ساتھ اس پکوان سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا اور انہوں نے اسے ذائقہ دار اور انتہائی خوشبو دار پایا-

وسطی ایشیاء اور افغانستان میں گوشت مرد کے جوہر، اس کی جرأت اور مردانہ طاقت بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے، چناچہ اسے کھانے کی اشیاء میں سب سے قوی سمجھا جاتا تھا- شکار خود کو تندرست، مستعد اور جنگی تربیت کا مؤثر طریقہ تھا، یہی وجہ ہے کہ گوشت کی یخنی میں پکا ہوا چاول علاقے کے جنگجوؤں کے لئے قابل قبول ذہنی و جسمانی ضیافت تھا-

کباب اور پلاؤ کے شوقین، مغل شہنشاہ بابر برصغیر پہنچنے پر مقامی کھانوں سے نالاں تھے، وہ لکھتے ہیں، 'یہاں کے بازاروں میں نہ اچھا گوشت ہے، نہ انگور، نہ خربوزے اور نہ ہی اچھے کھانے'- خیبر اور وسطی ایشیاء کے پہاڑی علاقوں کے رہنے والے اعلیٰ کھانوں کے شوقین تھے- گوشت، خربوزے اور انگور، خشک میوے اور ذائقہ دار غیرملکی چاول وغیرہ بادشاہوں کے کھانے سمجھے جاتے تھے-

کابلی پلاؤ، میٹھے اور نمکین کا ایک لذیذ امتزاج ہے- گاجر اور کشمش کی لطیف مٹھاس، گوشت اور چاول کی معتدل نمکینیت کو مزید بڑھا دیتی ہے، ساتھ ہی بادام، پستہ اور کاجو اس پکوان کو ایک ایسی لذّت بخشتے ہیں جو رنگ و روپ اور ذائقے میں منفرد ہے-

تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ گاجر افغانستان میں کوئی پانچ ہزار سال سے موجود ہیں اسی طرح انگور، کشمش اور دیگر خشک میوے بھی، چناچہ ممکن ہے اس وقت کے باورچیوں نے کابلی پلاؤ کے لئے ان اجزاء کا انتخاب ان کی آسان فراہمی اور نفیس ذائقے کی بنیاد پر کیا ہو، جو انہیں اعلیٰ کھانوں کی فہرست میں شمار کرتا ہے-

جب مجھے کابلی پلاؤ بنانے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے اپنی آنٹی شہناز سے رجوع کیا جن کا تعلق اسی خطّے سے ہے اور ان کے ہاتھ کا کابلی پلاؤ بلکل پرفیکٹ ہوتا ہے- ان کی ریسیپی آسان بھی ہے اور جلد تیار ہوجانے والی بھی، اور بلکل افغانی ہے- تو میرے کچن سے آپ کی خدمت میں پیش ہے۔


اجزاء: چار سے چھ افراد کے لئے


مرغی / بکری کا گوشت - ڈھائی پاؤنڈ

پیاز - چھوٹے دو عدد

ادرک - ایک چائے کا چمچ

لہسن- ایک چائے کا چمچ

کالا زیرہ - دو چائے کے چمچ

تیل - آدھا کپ

نمک - حسب ذائقہ

گرم مصالحہ - ایک چائے کا چمچ

چاول - دو مگ

کشمش- آدھا کپ

بادام- آدھا کپ

کاجو - آدھا کپ

گاجر - تین عدد کدوکش کی ہوئیں

شکر - آدھی چائے کا چمچ


ترکیب


ایک پتیلی میں تیل گرم کر کے اس میں ادرک، لہسن اور گوشت ڈال دیں اور چند منٹ فرائی کریں- کٹی ہوئی پیاز شامل کر کے پکائیں کہ گوشت کا رنگ تبدیل ہوجائے پھر اس میں نمک، کالا زیرہ اور گرم مصالحہ بھی شامل کردیں-

چند منٹ بھوننے کے بعد سات سے آٹھ مگ پانی ڈال دیں اور مقدار آدھی ہو جانے تک پکنے دیں یا پھر جب تک گوشت گل نہ جائے- یخنی میں ¼ کپ کے برابر کشمش، بادام اور کاجو شامل کریں- گوشت گل جانے پر اس میں دھلا ہوا چاول شامل کریں اور تیز آنچ پر اس وقت تک پکائیں جب تک چاول پھول نہ جائیں اور یخنی کی ہلکی سی تہہ اوپر نظر آئے-

اب ڈش کو ایک اوون ڈش میں منتقل کریں، چاروں طرف اچھی طرح سیل کر کے پہلے سے گرم شدہ اوون میں (درمیانی آنچ پر) بیس سے تیس منٹ تک دم دیں-

ایک فرائنگ پین میں دو سے تین کھانے کے چمچ تیل ڈال کر اس میں شکر، گاجر اور بقیہ میوہ جات ڈال کر ایک منٹ تک فرائی کریں اور پلاؤ کے اوپر بطور گارنش استعمال کریں- کابلی پلاؤ تیار ہے-


ترجمہ : ناہید اسرار

انگلش میں پڑھیں

رائیٹر ڈان کے لئے کام کرتی رہی ہیں اور آج کل فری لانس صحافی ہیں- میوزک، کھانا اور چھوٹی چھوٹی خوشیوں کی دلدادہ ہیں -

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں