کیا یہ بھی پاکستان ہے؟

02 اگست 2014
گُل خان آتی جاتی بسوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس بس میں سفر کرنے والے کتنے خُوش نصیب ہیں -- اے ایف پی فوٹو
گُل خان آتی جاتی بسوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس بس میں سفر کرنے والے کتنے خُوش نصیب ہیں -- اے ایف پی فوٹو

شمالی وزیرستان کا رہائشی گُل خان زندگی میں پہلی بار بنوں سے ویگنیں بدلتا بدلتا پشاور سے بس پر سوار ہو کر براستہ جی ٹی روڈ لاہور روانہ ہوا۔

گُل خان کے لاہور جانے کا مقصد ایک شیخ صاحب کے ہاں ڈرائیوری کی نوکری کرنا تھا۔ گُل خان اپنے چچا کے کہنے پر لاہور جا رہا تھا۔ جو اِن شیخ صاحب کے ہاں تیس سال ڈرائیوری کرچکے تھے۔

جونہی گُل خان کی بس راولپنڈی، جہلم، وزیر آباد اور گجرانوالہ سے ہوتے ہوئے شاہدرہ پہنچی اور گُل خان نے سڑک کے درمیان میں میٹرو بس کا جنگلہ دیکھا تو اس سے رہا نہیں گیا اور اس نے اپنی ساتھ والی سیٹ پر براجمان لاہوری سے دریافت کیا کہ یہ جنگلہ کس مقصد کے لئے لگایا گیا ہے؟

لاہوری نے بڑے فخر سے جواب دیا۔ یہ میٹرو بس کے لئے ہے۔

گُل خان کی جانب سے میٹرو بس سے متعلق دریافت کیا گیا کہ یہ کیا ہے؟

لاہوری نے کہا یہ شہباز شریف کا لاہوریوں کے لئے تحفہ ہے۔ اس جنگلے میں چلنی والی بسیں بغیر کسی ٹریفک کے سواریوں کو سفر کرواتی ہیں اور اس کا کرایہ صرف 20 روپے ہے۔

گُل خان لاہوری کا یہ جواب سن کر بڑا حیران ہوا، اتنی دیر میں ایک بس جنگلے کے اندر سے گزری جسے گُل خان نے سر باہر نکال کر دیکھا۔

بس دیکھنے کے بعد گُل خان بہت حیران ہوا اور شش و پنج میں مبتلا ہو کر سوچنے لگا کہ میں تو بنوں کے آئی ڈی پی کیمپ سے ذلیل ہوتا ہوا پشاور کے راستے کھچڑا بس پر سوار ہو کر لاہور پہنچا ہوں اور یہاں کے شہریوں کے لئے تو کیا کمال بسیں ہیں۔ واہ کیا بات ہے۔ کیا یہ بھی پاکستان ہی ہے؟

جوں جوں بس آگے بڑھتی گئی۔ گُل خان آتی جاتی بسوں کو دیکھتا رہا اور سوچتا رہا کہ اس بس میں سفر کرنے والے کتنے خُوش نصیب ہیں۔

گُل خان کی شکل اور عقل دیکھ کر ساتھ بیٹھے لاہوری نے سوال کیا۔ آپ پشاور سے آئے ہیں؟

جواب میں گُل خان بولا؛

"میرا تعلق شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ سے ہے۔ جہاں آپریشن جاری ہے اور میں اپنے گھر والوں کو بنوں آئی ڈی پی کیمپ چھوڑ کر لاہور نوکری کے لئے آیا ہوں۔"

یہ جاننے کے بعد لاہوری نے سوال کیا کہ تم یہاں کسی کو جانتے بھی ہو اور تم نے جانا کہاں ہے؟

اس سوال پر گُل خان نے اپنے میلے کپڑوں کی سامنے کی جیب میں سے ایک پرچی نکالی۔ جس پر نشتر کالونی، فیروز پور روڈ کا ایک پتہ درج تھا۔

اتنے میں بس راوی کا پُل کراس کرتے ہوئے آزادی چوک پر نئے تعمیر شدہ پُل پر چڑھنے لگی۔

لاہوری نے پتہ دیکھ کر گُل خان سے کہا کہ تم اگلے سٹاپ پر اترتے ہی اس جنگلے والی بس پر سوار ہوجانا۔ یہ سیدھا تمھیں نشتر کالونی لے جائیگی۔

لاہوری کا یہ جواب سن کر گُل خان بہت خوش ہوا کہ اسے بھی اس بس میں بیٹھنے کا موقعہ ملے گا۔

اتنے میں گُل خان نے محسوس کیا کے بس چڑھائی چڑھ رہی ہے اور بائیں جانب کی عمارتیں نیچے ہوتی جارہی ہیں۔ جونہی اسے مینار پاکستان نظر آیا تو اس نے بڑے جوش سے لاہوری سے پوچھا۔

یہ یادگارِ پاکستان ہے نا؟

لاہوری نے جواب دیا۔ ہاں اور یہ نیا پل بھی شہباز شریف کی حکومت میں ہی بنا ہے۔

گُل خان نے دوبارہ اپنا سر کھڑکی سے باہر نکالا اور اپنے آپ کو سائیڈوں پر واقع عمارات سے اوپر محسوس کرنے لگا اور یہ سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے!؟

اتنے میں سٹاپ آگیا اور ساتھ بیٹھے لاہوری نے گُل خان کو کھڑکی میں سے اندر کھینچتے ہوئے کہا کہ تمھارا سٹاپ آگیا ہے۔ یہاں اتر جاؤ اور وہ سامنے سٹاپ ہے میٹرو بس کا۔

جونہی گُل خان بس سے نیچے اترا تو وہ نیا تعمیر ہونے والا پُل دیکھ کر حیران رہ گیا اور سب کچھ ُبھلا کر ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا اور اپنے آپ سے سوال کرنے لگا کہ ہمارے علاقے میں تو دور دور تک پھیلے ہوئے پہاڑ نظر آتے ہیں اور یہاں حکمرانوں کے شہر میں اترتے ہی جدید ترین تعمیر شدہ پُل اور میٹرو بس کا نظارہ ہوتا ہے۔ یہ بھی سب کچھ اسی ملک میں ہے جہاں ہمارا شمالی وزیرستان ہے۔ "کیا یہ بھی پاکستان ہے"؟

خیر گُل خان لاہوریوں کی ہدایات پر عمل کرتا ہوا میٹرو بس کے سٹاپ کی جانب چل پڑا۔ راستے میں مدد حاصل کرتا گُل خان جب ایکسیلیٹرز تک پہنچا جو خوش قسمتی سے لائٹ ہونے کی وجہ سے چل رہی تھی، تو گُل خان ایک مرتبہ پھر حیران ہوا اور دل میں بولا کہ یہاں تو بندے کو اوپر لیجانے کے لئے بھی انتظامات کئے گئے ہیں۔

اس طرح گُل خان ٹکٹ بوتھ سے بیس روپے کے عوظ ٹکٹ لیتا ہوا پیلٹ فارم تک پہنچا جہاں انتظار گاہ میں پنکھے خالی کرسیوں کو ہوا دے رہے تھے۔

کچھ دیر کرسیوں پر ہوا کھانے کے بعد بس آتے ہی گُل خان بس پر سوار ہوگیا۔

میٹرو بس کے کھچا کھچ بھرے ہونے کی وجہ سے گُل خان کو بیٹھے کی جگہ نا ملی اور وہ داخلی دروازے کے نزدیک ہی کھڑا ہوگیا۔ جہاں ایئر کنڈیشنڈ کی کھڑکی بھی تھی۔

گُل خان نے کچھ دیر بعد محسوس کیا کہ اسے سردی لگنے لگی ہے، غور کیا تو اسے اپنے پر پڑنے والی ٹھنڈی ہوا کا پتہ چلا۔

دائیں ہاتھ سے ٹھنڈی ہوا کو چیک کرتے ہوئے گُل خان نے ساتھ کھڑے مسافر سے پوچھا کہ یہ ہوا کہاں سے آرہی ہے؟

مسافر نے جواب دیا کہ یہ اے سی ہے۔

گُل خان: کیا ہے؟

مسافر: اے سی۔

گُل خان شرمندہ ہوکر چپ ہوگیا اور تپتی گرمی میں ٹھنڈی ہوا کے مزے لینے لگا اور سوچنے لگا "کیا یہ بھی پاکستان ہے"!؟

اتنے میں ایک زنانہ آواز نے پہلے انگلش اور پھر اردو میں اگلے آنے والے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس پر گُل خان حیرانگی سے ادھر اُدھر دیکھنے لگ پڑا کہ یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔

کچھ ہی دیر بعد بس اگلے سٹاپ پر رکی اور دروازہ کھلتے کے ساتھ ہی اخراجی دروازے کی جانب لپکتے ہوئے ایک مسافر نے گُل خان کو کندھا مارا اور معزرت کرتا ہوا آگے چلا گیا۔ مزید مسافر بھی بس پر چڑھ گئے اور خودکار دروازہ بند ہوتے ساتھ ہی بس چل پڑی۔

اس طرح گُل خان ٹھنڈی ہوا کے جھونکے کھاتا، گمنام زنانہ آواز کے مزے لیتا ہوا اپنی منزل مقصود کی جانب بڑھتا گیا۔

راستے میں اسے یہ دیکھ کر مزید حیرانگی ہوئی کہ اس بس کے لئے علیحدہ سے پُل تعمیر کئے گئے ہیں۔ جہاں سے گُل خان کو ہر عمارت اوپر ہونے کی وجہ سے کلیئر دکھائی دے رہی تھی۔ جو اسے بار بار یہ سوال کرنے پر مجبور کر رہی تھے کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے!!؟؟"

اس طرح گُل خان شاہ جمال، مسلم ٹائون، کلمہ چوک اور چونگی امرسدھو کے اوور ہیڈ برجز سے ہوتا ہوا غازی چوک پہنچا۔ جس کے قریب ہی اسے ایک اور عجیب و غریب سا گھومتا ہوا برج تعمیر ہوتا دکھائی دیا۔ ساتھ کھڑے مسافر سے دریافت کیا کہ یہ پُل کس مقصد کے لئے تعمیر کیا جا رہا ہے؟

جواب ملا کہ یہ پُل پیدل سڑک پار کرنے والوں اور موٹر سائیکل سواروں کے لئے تعمیر کیا جارہا ہے۔

پہلے سے حیران گُل خان یہ سن کر مزید اضطراب کا شکار ہوگیا اور سوچنے لگا کہ اس شہر میں تو حکمرانوں کو سب کا خیال ہے۔ ہم ہی بد قسمت ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں اپنا گھر بار چھوڑ کر اس پورے ملک میں امن کے قیام کے لئے لاوارثوں کی طرح آئی ڈی پیز کیمپس منتقل ہورہے ہیں۔ جہاں ہمیں حکومت سے امداد لینے کے لئے نت نئے طریقے بتائے جاتے ہیں۔ کبھی رجسٹریشن اور کبھی سمارٹ کارڈ جیسی نامعلوم چیزوں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ اس شہر میں کئے جانے والے کاموں سے تو لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی ملک ہے جس کے ہم بھی شہری ہیں؟

اس دوران چلتی بس سے گُل خان یہ دیکھ کر اور بھی حیران ہوتا رہا کہ سڑک پر چلنے والی ٹریفک تو رش میں پھنسی ہے اور میٹرو بس بنا کسی روک ٹوک کے چلتی ہی جارہی ہے۔ یہ دیکھ کر گُل خان کو یہ احساس بھی ہوا کہ اس شہر میں تو غریبوں کو بھی بڑے حقوق حاصل ہیں جبکہ گاڑیوں والے اپنی ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں رش میں پھنسے کھڑے ہیں۔

اپنی منزل کی طرف گامزن میران شاہ کا رہائشی دوران سفر یہی سوچ سوچ کر حیران ہوتا رہا کہ "کیا یہ بھی پاکستان ہے؟"

کچھ ہی دیر بعد انجانی گمنام زنانہ آواز نے نشتر ٹاؤن کے سٹاپ کا اعلان کیا۔ جس کے بعد گُل خان اترنے کے لئے چوکنا ہوگیا اور خود کار دروازوں کے کھلنے پر نشتر ٹاؤن کے بس سٹاپ پر اُتر گیا۔

گُل خان سٹاپ سے باہر نکلنے کے بعد وہاں پہلے سے موجود رکشے کے پاس گیا اور سامنے کی جیب سے پرچی نکال کر رکشے والے کو دکھائی۔

خوش قسمتی سے رکشے کا ڈرائیور بھی پٹھان ہی تھا۔ جس کو دیکھتے ہی گُل خان مسکرا اٹھا اور پشتو میں درخواست کی کہ اسے اس پرچی پر درج پتے پر پہنچا دے۔

مطلوبہ پتے پر پہنچنے پر گُل خان نے اپنے پٹھان بھائی کا شکریہ ادا کیا اور سیدھا ہاتھ پیسے نکالنے کے لئے اپنی جیب میں ڈالا۔

جیب میں ہاتھ ڈالتے ہی گُل خان کو احساس ہوا کہ اس کی جیب کٹ چکی ہے اور جتنے پیسے لیکر وہ بنوں سے لاہور لایا تھا اب اس کے پاس نہیں رہے۔

بلآخر اسے یقین آ ہی گیا کہ؛

"یہ پاکستان ہی ہے!"


بلاگرکا تعلق الیکٹرانک میڈیا سے ہے۔ مگر لکھاری اخراجِ جزبات، خیالات و تجزیات کے لئے ذریعہ بلاگ کا استعمال بہتر سمجھتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (19) بند ہیں

hafiz Aug 02, 2014 11:27am
Quite an average article but you made me laugh at the end. Thanks
Maria Aug 02, 2014 07:10pm
You made me cry! :) I wish nobody suffers. I wish everybody has everything they need and want. I wish everybody smiles and Pakistan prospers, be it be PML N in power or PTI or PPP, Ameen.
ASLAM Aug 02, 2014 08:37pm
YA BHI PAKITAN HY
javed Ahmad Butt Aug 02, 2014 09:21pm
پاکستان زندہ باد
Sunny Aug 02, 2014 10:39pm
Bakwas blog, writer ne jaan boojh kr is column k zariye soobaiyat ka zeher ghola or ak sachay pakistani ki tauhin ki or shahbaz shrif k lie to bus lahore hi pakistan hai
Zaighum Amin Aug 02, 2014 10:45pm
Now he should eat and drink the metro bus. because all his money has gone. reality yahi hai k insan metro bus k bgair zinda reh sakta hai lakin khanay k bhair nai. metro ki bjaye ager koi industry lagai hoti to hazaron logon ka rozgar b lag jata and gov. ko faida milna b shuru ho jata jo k halaal faida hota. baki likh to ma boht kuch sakta hun lakin ye jaghan aisi nai hai k yahan mazeen kuch kaha jaye.
Mohammed Shuaib Sheikh Aug 03, 2014 12:01am
Gul Khan Lahore and Lahorees say, "Welcome Gul Khan."
Mohammed Shuaib Sheikh Aug 03, 2014 02:09am
@Sunny: Lahore and Lahorees welcome you to Lahore, Gul Khan. Jee aayan noon.
Naeem Akhter Aug 03, 2014 05:03am
This is a bias story and completely rubbish. Every country of the world has big and small cities and towns and not every where you get same facilities. As here in the UK we have underground tube in London but its not there in other areas or cities. A lot of people of our waziristan live in Dubai and other Gulf states they are not that stupid.
Abdul Wajid Qureshi Aug 03, 2014 06:25am
Metro Bus ki Kahani "Hamaray Mulk" mein Nai hai Lekin ye Poori Dunya mein kisi Kisi Shakal mein Barri Kamyabi k sath chal Rahi hy. Mein Haal hi mein Denmark(Copenhagen), France(Paris) aur Sweden(Malmo) ka Aik Mah ka Tour ker k Aaya hoon Aur mein ye Jana hy k Inn Mumalik mein "Metro Train aur Bus" k Baghair Mamoolat Zindagi ka Tasawwar hi nhi hy. Wo Log Jin k Paas Apni Car hy Wo Metro Station ki Parking mein Car Park kertay hain Aur Car ki Di gi mein se Apni Bicycle Lay ker Metro Train mein Mojood Parking Boogie mein Apni Cycle Park ker k Araam se Seat per Baith Jatay hain. Jon hi Unn ka Station Aata hy Wo Cycle k Sath Doosri Metro mein Baith ker Apni Manzil pe Pohanch Jatay hain. Ye Unn Sab ka Mamool hy. Aur Wapsi bhi Isi Tarha hoti hy. Jahan Car thhi Wahan se Cycle K sath Apnay Gharr Aa jatay hain. Nateeja kiya Nikalta hy k Roads pe Cars ki Tedad bohat kum hy. Yahan Car Wala "Cycle" Chala_ay Tau kanjoos samjha jata hy. Wahan Choti Roads pe bhi 60/70 KMP Ki Raftar k sath Bus Chalti hy, Waja sirf Traffic Rules ka Pabandi. Koi Signal nhi Kaat ta aur na hi Kisi Chowk mein Traffic Wardens hain. Mukhtasar ye k Hum Abhi tak yehi nhi Samajh Sakay k Muwaslat ka Nizam Behtar ho ga tau Log Aasani k Sath move ker Sakain gay. Iss ka Ye Matlab har giz nhi ZaraAy Aamadni k Wasael na Paida Kiay jaen. Wo bhi Nahayat Zaroori hain Lekin ye na kahain Ye Jo ho Raha hy Ye "Ghair Zaroori" hy. Bilkul Ghalat Soch hy. Wahan k Log "Metro" k Baghair Zindagi ka Tasawwar nhi ker Saktay. Mein nay 1 Mah k Doran SIRF 2 Martaba Paris mein TAXI ka Use ki. Airport se Hotel tak Aur Hotel se Airport Tak, Baqi Saara Safar Metro Bus/Train mein kiya. PARIS mein tau Basement, Sub Basement Aur Ground pe TRAIN chalti hy. Agar Wahan ye Sab kuch Mumkin hy tau yahan Kyun nhi? AWAM ki Sahoolat Pohnchanay k Li_ay hy Warna pehlay kisi nay Dehan Diya hota tau Ham bhi Taraqi Yafta Mumalik k Saath Kharay hotay. CHINA Ham se Ba'ad Aazad huwa Dunya Tez Raftar Taraqqi ka Muqabla ker hi nhi Raha Bal k Japan jaisay Mulk ki Market pe Qabza ker Liya hy. Ham kyun nhi? Pakistan mein Masla ye hy k, Ham nay tau kerna nhi AUR ye jo bhi Ker Rahay hain Kyun ker Rahay hain? Ker Rahay hain Tau Roko "Matt Kernay Dou" Punjabi ka Muhawra hy na: "Na Khaidaan Gay, Na Khaidan Diyan Gay" 1 Saal Huva hy Nai Hakoomat ko Aur "Hakoomat Hataoo" Tehreek Shuru kara e Ja Rahi hy.... AWAM nay 5 Saal k Li_ay Muntahib kiya hy Lekin Opposition nhi Chahti k Govt. Kuch Karay? Kuch Kaam ho ga ay tau Wo Phir Aa Jaen gay. Allah k
Zahid Shah Aug 03, 2014 12:10pm
Dear All Readers: We are not feeling sory for ****PTI**** that they are in KPK and working or not but we are feeling sorry for Punjabi Govt that they are making distance between pakistan and punjab think if I am not right. from last 15 years PMLN is governing punjab and making rules to stop support other provinces like wheat sugar and other things. Not only this they are selling pakistan but still they are strong not due to money due to foolish people of pakistan (sorry pakistan and Qauid - e- Azam)
Imran Munir Aug 03, 2014 04:42pm
@Zahid Shah: it is not in KPK ,Sind or bolochistan because their ruler priorities are different from Shahbaz Sharif.They construct fly over ,underpasses new roads new industrial estates ,collages,universities power plants with the money which we get our share from natiionalnatiional finance commission on the basis of population.Three other provinces also get their share on the basis of their population as well and usage is up to them.Punjad donot receive a penny more than his share.You ask this question from theirtheir respective ruler not from Shahbaz or Nawas.After 18 th amendment provinves has autonomy to do what they want.It is not possible that government will set his priorities on your wish but as per his voters.
Imran Munir Aug 03, 2014 04:55pm
@Zahid Shah: Dear Mr .Zahiid please update your records PML N is governing Punjad only for last six years not fifteen years.From 1999 to 2008 it is ruling by Musharaf with the help of PML Q.Please donot propogate provisionalism every province get his share according to his population but Punjab utilize it efficiently and smartely to get better fruit.It is just like that one man has four sons who get equal share in his savings and property but one use it smartely and improve his status and living.Please ask and wish that people's of three other provinces to select appropriate rulers but donot curse Punjab.
Saeed Aug 03, 2014 10:45pm
Although end is not good but it reflects reality of our society. my best wishes are with Gul Agha Khan and sooner he will return to his native village .
noman Aug 04, 2014 04:14am
Jenab buuuhet meza aea goll han ke kehani son kar ke ya be pakistan he ha ha ha ha h ha
Junaid Aug 04, 2014 11:30am
A very good effort, it made me laugh :)
Ahmed Aug 04, 2014 02:29pm
This blog has deliberately tried to spread hatred for punjab among the less developed provinces. The writer should also have commented about the much lesser share punjab received in the NFC which it sacrificed to help financing KPK and Baluchistan. The writer forgot the millions belonging to kpk who not only are employed in punjab but own land, property and business in punjab. There are enough sectarian and ethnic conflicts in the country, stop this propaganda against punjab. Definitely a bised article.
Chandio Afi Aug 04, 2014 03:07pm
اس آرٹیکل کا حتمی اور مرکزی خیال سمجھ میں نہیں آپایا ہے؟ گل کان ایک فرضی کردار ہے جو وزیرستان کے اینتھائی پسمادہ ہے وہ لاہور کی جدید میٹرو بس سروس دیکھ کر حیران رہجانا، خود حیران کرنے والی بات ہے.. لکحاری لکھتا ہے کہ گل خان ڈرائیور کی نوکری کے کیلیے لاہور جا رہے ہیں، میٹروبس اور اس پر بیٹھنا تو نیا ہو سکتا ہے، لیکن کیا کسی ڈرائیور کے لیے کسی بھی گاڑی یا بس میں اے سی کا ہونا حیران کن بات ہو سکتی ہے؟ ناہموار ترقی کی نشاندہی کرنے کی حد تک تو ٹھیک ہے لیکن آرٹیکل میں تجسس کا بیڑا غرق ہوا دکھائی دیے رہا ہے.
ساجداقبال Aug 05, 2014 01:12pm
اگر لاہور کا کوئی شیدا وزیرستان جا کر کے ٹویوٹا کرولا ٹیکسی میں بیٹھتا تو وہ بھی سوچتا کہ کیا یہ بھی پاکستان ہے؟