لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے عید اُداسی لے کر آئی

01 اگست 2014
لاپتہ افراد کے کئی رشتہ داروں نے ڈان کو بتایا کہ اس طرح کے تہوار ان کے لیے مزید دکھ کا باعث بنتے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی
لاپتہ افراد کے کئی رشتہ داروں نے ڈان کو بتایا کہ اس طرح کے تہوار ان کے لیے مزید دکھ کا باعث بنتے ہیں۔ —. فائل فوٹو اے پی

پشاور: خیبر پختونخوا اور وفاق کے زیرِ اہتمام قبائلی علاقوں کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے اُن سینکڑوں لاپتہ افراد کے خاندانوں کے لیے عید کا تہوار مزید مایوسی اور اُداسی لے کر آیا۔ ان کی مصیبتوں میں اب تک کوئی کمی نہیں آئی ہے اور ان کے مقدمات میں کسی پیش رفت کی امید بھی باقی نہیں رہی ہے۔

ان لاپتہ افراد کے کئی رشتہ داروں نے ڈان کو بتایا کہ اس طرح کے تہوار ان کے لیے مزید دکھ کا باعث بنتے ہیں، اس لیے کہ لاپتہ عزیزوں کی غیرموجودگی میں وہ کس طرح خوشیاں مناسکتے ہیں۔

بخت سعید کے بھائی جاوید خان کو مبینہ طور پر اس وقت حراست میں لیا گیا تھا، جب وہ کراچی سے واپس آرہے تھے، وہ کہتے ہیں ’’ہم کیسے عید مناسکتے ہیں اور خوش ہوسکتے ہیں، جبکہ میری والدہ روتی رہتی ہیں اور مسلسل میرے لاپتہ بھائی کے بارے میں پوچھتی ہیں، جنہیں مبینہ طور پر انٹیلی جنس ایجنسیوں نے تقریباً دو برس پہلے اُٹھالیا تھا۔‘‘

ضلع بونیر سے تعلق رکھنے والے بخت سعید نے بتایا کہ جاوید کراچی میں آٹھویں جماعت کا طالبعلم تھا اور اس کی عمر لگ بھگ سترہ برس کی تھی۔ وہ بس کے ذریعے اپنے گاؤں واپس آرہا تھا تو اسے کوہاٹ میں مقامی پولیس نے حراست میں لے لیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بعد میں انہیں پتہ چلا کہ وہ ہنگو کے جیل میں ہے اور اس پر اورکزئی ایجنسی سے ملحقہ قبائلی انتظامیہ کی جانب سے فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن (ایف سی آر) کے تحت گرفتار گیا ہے۔

بخت سعید نے کہا کہ پھر وہ جیل سے پُراسرار طور پر لاپتہ ہوگیا، اس لیے کہ جیل حکام کا دعویٰ تھا کہ اس کو ضمانت پر رہا کردیا گیا تھا، جبکہ انہیں معلوم ہوا کہ اس کو ایجنسیاں اُٹھا کر لے گئی تھیں۔

انہوں نے کہا ’’میرے والدین حیات ہیں، اور وہ جاوید کی کمی محسوس کرتے ہیں۔ پورا خاندان عید کے روز اُداس ہوجاتا ہے، اس لیے کہ ہم جاوید کی زندگی کے بارے میں فکرمند ہیں۔‘‘

بخت سعید نے بتایا کہ اس کی گمشدگی کےخلاف ایک درخواست پشاور ہائی کورٹ میں زیرِ التواء ہے، اور اس مہینے (اگست) میں اس کی سماعت ہوگی۔

ایک اور لاپتہ فرد بلال احمد کے والد واصف خان کہتے ہیں ’’آپ شاید مجھ پر یقین نہ کریں کہ ہم نے عید کا پورا دن روتے ہوئے اور ایک دوسرے کو تسلی دیتے ہوئے گزارا۔ اب میں اپنے بیٹے کی گمشدگی زیادہ عرصے تک برداشت نہیں کرسکتا، اور میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید کمزور ہوتا جارہا ہوں۔‘‘

مہمند ایجنسی سے تعلق رکھنے والے واصف خان نے کہا کہ انہوں نے اسلام آباد میں رہائش اختیار کرلی تھی، تین سال پہلے ان کے بیس برس کے بیٹے کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے راولپنڈی سے اُٹھالیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے ایک اور بیٹے محمود خان کو بھی حراست میں لیا گیا تھا، لیکن اس کو نو مہینوں کے بعد رہا کردیا تھا۔

انہوں نے سوال کیا کہ اگر بلال انٹیلی جنس ایجنسیوں کی تحویل میں ہے تو وہ اس حقیقت کا اقرار ہائی کورٹ کے سامنے کیوں نہیں کرلیتیں، جہاں ان کی درخواست پچھلے تین سالوں سے زیرِ التواء پڑی ہوئی ہے۔

ہنگو سے تعلق رکھنے والے خان سعید کہتے ہیں کہ وہ اپنے تین کم سن پوتوں کو زیادہ عرصے تک مطمئن نہیں کرسکتے، جن کے والد پچھلے پانچ سالوں سے لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ان برسوں کے دوران عید جیسے تہوار ان کے پورے گھرانے کے لیے مزید دکھ درد لے کر آتے ہیں۔

’’میری اہلیہ اب مسلسل بیمار رہنے لگی ہیں اور ذہنی بیماری میں مبتلا ہوگئی ہیں۔ میری بہو سوال کرتی ہے کہ اس کا شوہر کب واپس آئے گا۔‘‘

خان سعید نے مزید بتایا کہ ان کا بیٹا نور سعید ایک رکشہ ڈرائیور تھا، اور اس کو انٹیلی جنس ایجنسیوں کی جانب سے بیس جون 2009ء کو حاجی کیمپ کے علاقے سے اُٹھایا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ان کے بیٹے کے ساتھ ایک اور شخص کو بھی گرفتار کیا گیا تھا اور بعد میں وہ رہا ہوگیا، بعد میں اس نے ہی ہمیں اپنے بیٹے کی گرفتاری کے بارے میں بتایا۔

خان سعید نے کہا کہ پشاور ہائی کورٹ کے حکم پر ایک ایف آئی آر پہاڑی پورہ پولیس اسٹیشن پر درج کی گئی تھی، لیکن پولیس کی جانب سے اس کی کوئی قابلِ ذکر تفتیش نہیں کی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں