ملکی مسائل سے غیر آہنگ حکومتی پالیسیاں

اپ ڈیٹ 31 اگست 2014
فرحان بخاری اسلام آباد میں مقیم ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔
فرحان بخاری اسلام آباد میں مقیم ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

ایک ایسے وقت میں جب پاکستان مسلم لیگ ن عمران خان کے اعلان کردہ آزادی مارچ سے نمٹنے کے لیے کوششیں کر رہی ہے، پاکستان زیادہ سے زیادہ غیر محفوظ ہوتا جا رہا ہے۔

طالبان جنگجوؤں کی جانب سے دی جانے والی دھمکیوں کے علاوہ حکومت بھی سیکورٹی وجوہات کا جواز پیش کر کے عمران خان کے مارچ کو روکنے کی تیاریوں میں مصروف نظر آرہی ہے۔ لیکن اس معاملے میں سرکاری موقف کچھ خاص مضبوط نہیں ہے۔

آرٹیکل 245 کے تحت فوج کی مدد حاصل کرنے کے حکومتی فیصلے نے اسلام آباد کی سول انتظامیہ کی نا اہلی کا پول کھول دیا ہے۔ لیکن پاکستان کے مستقبل کو بگڑتے ہوئے معاشی و اقتصادی حالات کی صورت میں اور بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں۔

ایک ایسا ملک، جس میں عوام کی ایک انتہائی تعداد غربت، بجلی کے بحران، اور دیگر مسائل کا سامنا کر رہی ہے، وہاں پالیسی سازوں کو سب سے پہلے انسانی ضروریات پوری کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ مختصراً کہیں تو پاکستان کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے موجودہ سرکاری مشن، اور ان تلخ حقائق سے نمٹنے کے لیے مطلوب کوششوں کے درمیان یہی خلیج حائل ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل پر ایک سوالیہ نشان موجود ہے۔

شریف حکومت کے کسی بھی ترقیاتی منصوبے پر اٹھنے والی تنقید کا گلا مسلم لیگ ن یہ دعویٰ کر کے گھونٹ دیتی ہے، کہ یہ تمام پروجیکٹس پاکستان کے مستقبل کے لیے نہایت اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی حوالے سے مسلم لیگ ن کے پاس موجود سب سے مضبوط دلیل لاہور اور اسلام آباد کے درمیان تعمیر ہونے والا موٹروے ہے، جو نوے کی دہائی میں مکمّل کیا گیا تھا۔ لاہور سے اسلام آباد تک گڑھوں سے پاک سڑک نا صرف آرامدہ سفر کی، بلکہ وقت کی بچت کی بھی ضامن ہے۔

لیکن شریف حکومت کی یہی اپروچ ہے، جس کی وجہ سے پاکستان کے مستقبل کے راستے پر کافی گڑھے پڑنے کا خدشہ ہے۔ اسلام آباد میں جاری اس چمکیلے اور خوشنما میٹرو بس پروجیکٹ کے علاوہ مسلم لیگ ن کی ایسی بہت ساری متنازعہ ترجیحات ہیں، جو یہ کھل کر ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کے تلخ زمینی حقائق اور حکومتی پالیسیوں میں ہم آہنگی نہیں ہے۔

پچھلے سال سے لے کر اب تک حکومت نے ایسے کافی سارے فضول خرچی پر مبنی اقدامات کا اعلان کیا ہے، جو حکومتی موقف کے مطابق پاکستان کی جاں بلب معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔ ان اقدامات میں لاہور میں ایک میٹرو ٹرین نیٹ ورک، لاہورتا کراچی موٹروے کی تعمیر، اور اسلام آباد، مری اور مظفرآباد کو ملانے والا ایک ریلوے منصوبہ شامل ہیں۔ اگریہ سب پروجیکٹس عوام کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھنے کے ساتھ ساتھ زیر تعمیر ہوتے، تو یہ حکومت کے بہترین اقدامات اور ترجیحات قرار پاتے۔

لیکن پاکستان ایک مثالی ملک نہیں ہے۔ پاکستان کا بجٹ بہت ہی محدود ہے، جس کی وجہ سے ملک کے منصوبہ سازوں کو تمام پروجیکٹس، ان پر اٹھنے والے اخراجات، اور دیگر تمام مشکلات کا گہرائی اور ہر پہلو سے مطالعہ کرنے کے بعد ہی کوئی فیصلہ لینا چاہیے، نہ کہ صرف ظاہری چمک دھمک والے پروجیکٹس کو کسی مالیاتی منصوبہ بندی کے بغیر شروع کر دینا چاہیے۔

پاکستان اس وقت توانائی کے انتہائی تکلیف دہ بحران سے گزر رہا ہے۔ شعوری طور پر کیا یہ بات سمجھ آنے والی نہیں کہ ان میگا پروجیکٹس پر اٹھنے والے پیسے سے پہلے توانائی کے اس مسئلے کو حل کر لیا جائے؟

پاکستان کی اقتصادی ترجیحات پر دو وجوہات کی بنا پر از سر نو غور کرنے کی ضرورت ہے۔

پہلا یہ، کہ پاکستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی سے نمٹنے کے لیے سب سے پہلا کام یہ کرنا ہوگا، کہ ملک سے غربت کا خاتمہ کیا جائے۔ وقت نے یہ بات ثابت کر دی ہے کہ نظر انداز کر دیے گئے غریب علاقے ہی دہشتگردوں کی نرسریوں کا کردار ادا کرتے ہیں، جہاں سے دہشتگردوں کو افرادی قوّت حاصل ہوتی ہے۔

ملک میں طویل مدّت سے صحت اور تعلیم کے شعبوں کو نظر انداز کیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے عوامی سطح پر سخت بے چینی پائی جاتی ہے۔ انفراسٹرکچر کے پروجیکٹس سے عوام کو اتنا فائدہ شاید نہ ہو، جتنا سماجی خدمات (صحت و تعلیم وغیرہ) کو بہتر بنانے سے ہوگا۔

دوسری طرف، اگر ہمیں پاکستان کو اقتصادی طور پر مضبوط اور اپنے پیروں پر کھڑا ہوتے دیکھنا ہے، تو پاکستان میں ٹیکس وصولی کے نظام کو، جو کہ ابھی انتہائی غیر مؤثر حالت میں ہے، بہتر بنانا ہوگا۔ ایک لمبے عرصے سے شہری و دیہی علاقوں کے با اثر پاکستانی ٹیکس کے جال سے بچ نکلنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں۔ اسکا ثبوت پاکستان کے چوٹی کے سیاستدانوں کے ٹیکس گوشواروں کا ملاحظہ کرنے سے مل سکتا ہے۔ دولتمند افراد کو اپنے واجبات کی ادائیگی پر مجبور کیے بغیر پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کا خواب ہمیشہ کے لیے خواب ہی رہے گا۔

پاکستان کو اگر محفوظ رکھنا ہے، تو ملکی و ریاستی ڈھانچے میں انتہائی مضبوط اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، اور یہی اسلام آباد میں اگلے ہفتے ہونے والی سیاسی ہل چل کا بھی سد باب کر سکتا ہے۔

انگلش میں پڑھیں

فرحان بخاری اسلام آباد میں مقیم ہیں اور صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 8 اگست 2014 کو شائع ہوا۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں