!یہ شادی نہیں ہوسکتی

اپ ڈیٹ 17 اگست 2014
ہمارا میڈیا جس سعودی فیصلے پر اتنا واویلا مچا رہا ہے اس کے جراثیم تو خود پاکستانی قوم میں بکثرت پاۓ جاتے ہیں -- فوٹو -- کری ایٹو کامنز
ہمارا میڈیا جس سعودی فیصلے پر اتنا واویلا مچا رہا ہے اس کے جراثیم تو خود پاکستانی قوم میں بکثرت پاۓ جاتے ہیں -- فوٹو -- کری ایٹو کامنز

بڑا ظلم کیا سعودی حکومت نے، ہزاروں بلکہ لاکھوں پاکستانی لڑکیوں کے خواب ہی چکناچور کر ڈالے- جب سے جوان ہوئیں ان بیچاریوں کے دو ہی تو شوق تھے صبح سویرے ٹی وی پر مورننگ شوز میں گڈے گڑیوں کی شادیاں دیکھنا اور دوسرے کسی سعودی شہزادے کا انتظار کرنا جو ایک دن سفید گھوڑے (یا اونٹ) پر آۓ گا اور اپنی شہزادی کو بیاہ کر کوہ قاف کی نگری لے جاۓ گا-

بیچاریوں کے پاس اور کوئی چارہ بھی نہیں کیونکہ لوکل شہزادوں کے معیار پر اترنے کے لئے ان کے پاس ایک عدد ڈاکٹر یا انجنیئر کی ڈگری ہونا ضروری ہے- خود چاہے شہزادہ بی اے فیل ہو مگر بیوی کم از کم ماسٹر ڈگری ہولڈر چاہیے اور ان کی امی حضور کو ایک ایسی ڈاکٹر بہو جو گول چپاتیاں بنا سکتی ہو، نازک و کمسن اتنی کے اپنے ہی میاں کی بیٹی لگے اور کم از کم درجن بھر پوتے پوتیوں کی لائن لگا سکتی ہو-

چناچہ ہماری لڑکیوں نے سوچا ہوگا کہ تعلیم جیسے بکھیڑوں میں پڑ کر وہ اپنی جوانی کیوں خراب کریں، آج کل پاکستانی ٹی وی سیریل دیکھ کر بھی یہی لگتا ہے کہ پاکستانی لڑکیوں کو اور کوئی کام دھندہ نہیں بس کسی طرح انہیں شادی شدہ ہونے کا سرٹیفکیٹ چاہیے، اگر کوئی قابل کنوارہ نہیں تو اپنی بہن یا سہیلی کے میاں کو پھانس لو، اگر وہ بھی دستیاب نہیں تو آس پاس کوئی فارغ انکل ہی دیکھ لو-

خدا نخواستہ کوئی لڑکی بیوہ ہو جاتی ہے یا اس کی طلاق ہوجاتی ہے تو ہمارے ٹی وی ڈراموں کے مطابق اس کے پاس دوسری شادی کے علاوہ کوئی اور چوائس ہے ہی نہیں- بقول ٹی وی کی بڑی بوڑھیوں کے جوان عورت بیری کا درخت ہوتی ہے جس پر جب تک مرد (لازمی شوہر) کا سایہ نہ ہو پتھر آتے رہتے ہیں-

اب لوکل شہزادوں کی ڈیمانڈز اور ٹیلی ویژن پر ایسے ڈراموں کی بھرمار کے بیچ ہماری مظلوم کنیزوں کے پاس سعودی شہزادوں کے علاوہ اور کوئی راستہ بھی تو نہیں تھا۔ صد افسوس ایک عرصے سے سعودی کلچر کی پریکٹس کرنے والی پاکستانی دوشیزاؤں سے یہ آخری امید بھی سعودی حکومت نے چھین لی- میڈیا پر جس طرح اس خبر کی تشہیر کی جا رہی ہے یوں لگتا ہے اس المیے نے یقیناً پاکستانی لڑکیوں نیند اڑا کر رکھ دی ہوگی-

سعودی حکومت کے اس اقدام پر ایک صاحب کی شادی کا واقعہ یاد آگیا، یہ قصّہ ان کے دوست کے توسط سے ہم تک پہنچا جو اس واردات کے چشم دید گواہ ہیں، قصّہ یہ ہے کہ مذکورہ برخوردار (جو کہ اب بذات خود دو تین ننھے منے برخورداروں کے ابّا ہیں) کسی خاتون سے عشق فرماتے تھے اور انہی سے شادی کے خواہشمند تھے- لڑکی خاندان اور برادری سے باہر کی تھی چناچہ والد محترم کو یہ رشتہ منظور نہ تھا- عشق جوان تھا اور عاشق مشتاق، بغاوت ہوگئی- لڑکا، لڑکی والوں کو راضی کر کے چند دوستوں کے ہمراہ بارات لے آیا- عین نکاح کے وقت لڑکے کے والد صاحب ہاتھ میں پستول لئے آ پنہچے اور انتہائی فلمی انداز میں، 'یہ شادی نہیں ہو سکتی!' کی للکار لگائی اور اسٹیج پر چڑھ کر دولہے پر چڑھائی کردی- خیر قصّہ مختصر بڑوں کے بیچ بچاؤ سے معاملہ سلجھ گیا اور شادی بھی ہو گئی یہ اور بات کہ دولہے کی سبکی بہت ہوئی-


اس قصّے کے تحریر کرنے اور اوپر اتنی لمبی تمہید باندھنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارا میڈیا جس سعودی فیصلے پر اتنا واویلا مچا رہا ہے اس کے جراثیم تو خود پاکستانی قوم میں بکثرت پائے جاتے ہیں-

اکثریت پاکستانی ذات، برادری، خاندان اور قبیلے سے باہر اپنے بچوں کی شادیاں نہیں کرنا چاہتے (کیونکہ اس طرح ان کا خالص خون 'آلودہ' ہوجانے کا خطرہ ہوتا ہے) اور پھر زور زبردستی بےجوڑ شادیاں کر کے انکی زندگیاں تباہ کر دیتے ہیں- ہم تو خود اپنے پاکستانی بھائیوں کے ساتھ زبان، ذات اور برادری کے نام پرامتیازی سلوک کرتے ہیں اب اگر ایسا ہی قدم سعودیوں نے اٹھا لیا تو کونسا پہاڑ ٹوٹ پڑا؟

بات یہ ہے کہ نہ تو پاکستانی دوشیزائیں کسی عرب پرنس کے انتظار میں مری جا رہی ہیں نا ہی انہیں تیل کے کنویں دیکھنے کا شوق ہے اور اس میں ڈوب کر مرنے کا تو بالکل بھی نہیں- اس لئے اس خبر پر اتنا کہرام مچانے کی ضرورت نہیں-

جہاں تک شادی کا تعلق ہے تو یہ ایک انسان کا ذاتی معاملہ ہے اگر سعودی حکومت اس پر پابندی عائد کر رہی ہے تو سراسر اپنے شہریوں پر ظلم کر رہی ہے، ویسے بھی انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب کا ریکارڈ کچھ خاص اچھا نہیں-

پسند ناپسند ایک فرد کا حق ہے اور ویسے بھی 'عشق نہ پچھے ذات'، چاہے سعودی حکومت جتنا بھی 'هذا الزواج لا يمكن أن يكون' (یہ شادی نہیں ہوسکتی) کہتی رہے، جنہوں نے اپنی مرضی کرنی ہوگی وہ تو کر کے رہیں گے-


تبصرے (1) بند ہیں

آشیان علی Aug 18, 2014 01:35pm
ناہید جی یہ تو ہمارے معاشرے کے تضادات ہیں. جس طرح اللہ کے نبی پاک ص کو سچا ماننے کے باوجود ان کی مخالفت کی جاتی تھی کہ یہ ایسی بات کرتا ہے جو ہمارے رسوم رواج اور اجداد کے طریقوں کے خلاف ہے. مگر وہ کفار مکہ تھے جو مخالفت کے باوجود نبی پاک کی سچی بات کو سچ مانتے تھے اور اپنے اجداد کی پیروی کو نہ چھوڑنے کے بھی قائل تھے. ہماری قوم میں کفار مکہ جتنا بھی ظرف نہیں ہے سچ بات کو سچ مانتے ہی نہیں. یہ ہی آپ کا امتحان ہے اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹنا سچائی کا اپنا نور ہوتا ہے اندھیرے کو شکست ہو گی . لڑکی کے بیوہ ہو جانے پر اسلامی معاشرے کے محلے کے تمام لفنگے اس کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں اجبکہ بیوہ کو اپنے اور بچوں کی ضروریات کے لیے گھر سے باہر نکلنا ہی پڑتا ہے .ایک مجبور بیوہ جب معاش کی تلاش میں گھر سے نکلتی ہے تو ہمارے معاشرے کے ہر عمر کے مردوں کے لیے شکار کی حیثیت رکھتی ہے. یہ کوئی اسرائیل یا ناروے کا کافر معشرہ نہیں ہے جہاں بیوہ کو صرف بیوگی کا سوگ منانا ہوتا ہے. کافر معاشرے میں بیوہ معاشی پرشانیوں سے آزاد ہوتی ہے. اس کی اور اس کے بچوں کی تمام بنیادی ضروریات حکومت اور معاشرہ پہلے سے طے کر چکا ہوتا ہے. واضح رہے ان کی بنیادی ضروریات ہمارے لیے عیاشی کی ذندگی میں بھی میسر نہیں ہوتیں ہیں. بہت سارے شکاریوں میں گھر کر شکار بن کر جینے کا حوصلہ ایک نازک، مجبور ، بے بس عورت کہاں سے لائے؟ بس یہ وجہ ہے کہ بیوہ عورت کو شادی کے نام پر کسی کی کنیز بن کر دنیا میں جہنم برداشت کرنا پڑتا ہے. دوگنی عمر کے مرد سے شادی ، یا کسی کی دوسری بیوی بن کے رہنا قبول کرنا پڑتا ہے.دن بھر دوسرے خاوند کے خاندان کی نوکرانی کی حیثیت سے خدم