نمبروں کی غلط فہمی

19 اگست 2014
لکھاری ڈان کے سٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے سٹاف ممبر ہیں۔

ایک خرافات جو آج کل گردش کررہی ہے، اس کے مطابق پاکستانیوں کی غلط طریقے سے حاصل کی ہوئی دولت کے 200 بلین ڈالر سوئس بینک کے اکاؤنٹوں میں جمع ہیں- نہ صرف یہ بلکہ، ہمیں تو یہاں تک بتایا گیا ہے کہ ایک سوئس بینک کے "ایک ڈائریکٹر" نے خود یہ بات "ریکارڈ پر لاکر کہی" کہ پاکستانیوں کی جمع کی ہوئی کل رقم 200 بلین ڈالر کے قریب ہے۔

یہ مہمل قسم کے اعداد وشمار ہیں، اور کوئی بھی شخص جو بینکنگ یا سفارت کاری کے بارے میں تھوڑی سی معلومات بھی رکھتا ہے وہ بتائیگا کہ اس طرح کے بیانات دینا کسی ذمہ دار ڈائریکٹر یا وزیر کیلئے ممکن نہیں ہے۔

لیکن خبروں میں یہ الفاظ وزیرخزانہ سے منسوب کئے گئے ہیں- جب میں نے وزیرصاحب سے ان اعداد کی تصدیق چاہی تو انہوں نے اس طرح کی کوئی بات کبھی بھی کہنے سےانکار کیا- تو آخر یہ اعداد کہاں سے آگئے؟ اوران کو وزیر صاحب سے منسوب کیوں کیا جارہا ہے؟۔

دراصل جو ہوا وہ یہ ہے- اسی سال مئی کے مہینے میں، پاکستان تحریک انصاف کے ڈاکٹر عارف علوی نے وزیر خزانہ سے ملک کے اثاثے جو سوئس بینکوں میں غیرقانونی طورجمع کئے گئے ہیں ان کو واپس لانے کیلئے حکومت کی جانب سے " کئے جانے والے اقدامات" کے بارے میں پوچھا؛ اور یہ کہ" کیا حکومت کے سامنے 2010ء کےسوئس قانون (Restitution of Illicit Act (RIAA کی مدد حاصل کرنے کی کوئی تجویز زیرغور ہے"۔

وزیر صاحب نے تحریری طور پر جواب دیا کہ حکومت کا ارادہ RIAA سے فائدہ اٹھانے کا ضرور ہے لیکن اس کیلئے پہلے موجودہ Pak- Swiss Tax Treaty پر دوبارہ نئی شرائط کیلئے گفت و شنید کرنی ہوگی اور 26 اگست کا دن مذاکرات شروع کرنے کیلئے مقرر کیا گیا ہے- بس اتنی سی بات ہے۔

لیکن وزیر صاحب کا جواب تحریری شکل میں تھا، اور، ان کی غیرموجودگی میں وزارت خزانہ کے پارلیمنٹری سکریٹری، رانا محمد افضل خان نے لکھا تھا- سکریٹری صاحب نے اپنے طور پر فیصلہ کیا اور وزیرصاحب کی جانب سے مزید دو معلومات اپنے طور پر مہیا کردیں۔

دوسرے دن ساری شہہ سرخیوں کا مرکز 200 بلین ڈالر کی رقم تھی- ان خبروں کی رپورٹ دیتے ہوئے ایک اخبار نے اس بیان کو" حکومت" سے منسوب کیا، دوسرے نے اس بیان کیلئے سکریٹری کا نام لیکر اس کے ذمہ ڈال دیا، تیسرے نے پرانی روایات کو اپنا کر خود وزیرخزانہ سے منسوب کردیا، کیونکہ سکریٹری وزیر صاحب کے کہنے پر یہ بیان دے رہا تھا۔

اور پھر اس طرح ہمیں خبروں کا ایک ملغوبہ یا کاک ٹیل ملا۔

اور سکریٹری صاحب کو یہ معلومات کہاں سے حاصل ہوئیں؟ یہ ہمیں وہی بتائیں گے- جہاں تک میرا سوال ہے، 200 بلین ڈالر کی رقم کا ذکر سب سے پہلے 2010ء میں میری نظر سے ایک مضمون میں پاکستان کے ایک مشہور بزنس روزنامہ میں گذرا جسے دو مستقل لکھنے والوں کی ایک جوڑی نے لکھا تھا- اس مضمون کی سرخی کافی دلچسپ تھی: " Swiss' Return of Illicit Assets Act ' ہمیں اربوں ڈالر واپس مل سکتے ہیں " جہاں ایک ہی لائن میں، مضمون کے مصنف نے بلا تکلف یہ لکھا کہ "ایک اندازے کے مطابق، سوئس بینکوں میں پاکستانیوں کا جو پیسہ پڑاہوا ہے وہ تقریباً 200 بلین ڈالر ہے۔ ۔ ۔" کیسا اندازہ اور کس کا اندازہ؟ اس میں یہ نہیں بتایا گیا۔

اسکے بعد جون 2011ء میں ایک مشہور ٹی وی اینکر یہ عدد لے اڑے اور اس پر پورا ایک پروگرام کردیا- اس مضمون کے لکھنے والوں میں سے ایک اس پروگرام کے نمایاں مہمان تھے اور اس پورے شو میں کبھی بھی اینکر نے ان خاتون سے یہ نہیں پوچھا کہ انہیں اس رقم کے بارے میں کہاں سے پتہ چلا۔

چند مہینوں کے بعد ایک مشکوک خبررساں ایجنسی نے شہہ سرخیوں میں ایک خبر چلائی " پاکستان کے 97 بلین ڈالر سوئس بینکوں میں جمع ہیں" اور ایک سوئس بینک کے ڈائریکٹرکو جس کا نام بھی نہیں بتایا، اس کا ذمہ دار قرار دیا اور ذریعہ کے بارے میں" سیل فون سے بھیجے جانے والے پیغامات "- وہ ایس ایم ایس پیغامات جن کا تبادلہ ہورہا تھا اس خبررساں ایجنسی کے ہاتھ لگ گیا اور ایک خبر میں بدل گیا اور ایک مرتبہ یہ خبر باہر نکلی، تو دو چھوٹے اخبار یہ خبر لے اڑے اور انہیں عام خبروں میں جگہ مل گئی۔

اور ، اب یہ خبریں ہم تواتر کے ساتھَ روزانہ سن رہے ہیں، مثال کے طور پر، صرف پچھلے ایک ہفتے میں، آدھے درجن چھوٹے بڑے خبروں کے چینلوں نے یہ خبریں دکھائیں- کل ہی کی بات ہے کہ وہی بزنس اخبار جس نے سب سے پہلے یہ خبر دی تھی اس نے اپنا اداریہ اسی مسئلے کیلئے وقف کردیا، اور وزیرخزانہ کو تنقید کا نشانہ بنایا جنہوں نے یہ " وعدہ تو کیا کہ سوئس بینکوں سے پاکستانیوں کے پیسے واپس لائیں گے " اور" امیدیں بھی بڑھائیں لیکن کتنی رقم تھی اس کی تصدیق نہیں کی "۔

تاہم یہ دکھانے کیلئے کہ یہ مالیت جس کا دعویٰ کیا جارہا ہے یہ ایک بکواس ہے گوگل پر صرف ایک چھوٹی سی تحقیقات کی ضرورت ہے- سوئس نیشنل بینک کی اپنی ویب سائٹ پر یہ اعدادوشمار جغرافیائی بنیادوں پر اس کے تحت تمام 80 برانچوں کی کل تفصیلات مع اثاثوں اور ادائگیوں کی مکمل معلومات کے ساتھ موجود ہیں- وہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان کے پاکستانی کلائنٹ کی طرف بینکوں کی واجب الادا رقم صرف ایک بلین سوئس فرانک سے کچھ زیادہ ہے- شرح مبادلہ 1.1 ڈالر فی فرانک ہے- اب آپ خود ہی حساب کرلیجئے۔

اتنا ہی آسان یہ معلوم کرلینا بھی ہے کہ پہلے مضمون کے مصنفین سے اس رقم کی مالیت کے بارے میں تعین کرنے میں کیوں کر غلطی ہوئی ہے- مثلاً اس سلسلے میں ان کا پانچواں مضمون لےلیجئے، جو 25 جولائی کو اسی بزنس روزنامہ میں شائع ہوا، جو پاکستانیوں کے سوئس بینک میں پیسے کے سلسلے میں اپنی کہانیوں کیلئے ٹائمز آف انڈیا پر بھروسہ کرتا ہے- ایک جگہ پر وہ لکھتے ہیں کہ 2010ء میں یہ رقم گھٹ کرکم ترین 195 بلین سوئس فرانک کی حد کو پہنچ گئی تھی- لگتا ہے چھپتے وقت اعشاریہ اِدھر اُدھر ہوگیا- کیونکہ ایک اور جگہ 3 بلین سوئس فرانک کو 418 بلین ڈالر کے برابر بتایا، جو کہ پھر وہی اعشاریہ کے اِدھر اُدھر ہونے کی وجہ سے ہوا۔

یہ ایک افسوسناک بات ہے کہ رقم کے بارے میں ایک بالکل بے تکا اندازہ اتنے عرصے سے خبروں میں گردش کررہا ہے اور کوئی اس کی تصدیق کرنے کیلئے سوالات نہیں کررہا ہے- لیکن اس سے زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ایک نہایت سنجیدہ مسئلہ جو غلط طریقے سے جمع کی ہوئی دولت واپس لانے کے بارے میں ہے وہ ایک نہایت مہمل مذاق کی شکل اختیار کررہا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے سٹاف ممبر ہیں۔

ترجمہ ۔ علی مظفرجعفری


یہ مضمون ڈان اخبار میں 7 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (4) بند ہیں

Chaudry Adil Mansoor Aug 19, 2014 06:54pm
good and informative -
Khan Aug 19, 2014 07:19pm
Author sahib 200million $ ki figure ka logical critics bhi paish kar daitay to khoob tha. Adam saboot ki bina per is raqam ka inkaar to nahin kiya ja sakta. . .
khadim hussain Aug 21, 2014 01:27pm
very good article Khurram sb. pls also write about crash of stock market and 3 billion drained out etc etc or claims about Govt figure due to long much country occured a loss of 100 billion etc etc
Saleem Alam Aug 22, 2014 11:30pm
نمبر کی غلطی اپنی جگہہ درست - مگر پاکستانی قوم یہ حقیقت کیسے بھولے کہ ہمارے ہاں اب بھی وڈیرا سیاست اور موروثی جمہوریت ہی کا دور دورہ ہے اور یہی وجہہ ہے کہ ہر سال قومی دولت کا ایک بڑا حصہ ان ہی ( لٹیروں)کی نذر ہو جاتا ہے کبھی قرضوں اور ٹیکس کی معافی یا چھوٹ کی شکل میں تو کھبی ٹنڈروں کی آڑ میں - اور رہ گیا میڈیا تو اسے بھی تو اپنی ریٹنگ کی فکر رہتی ہے-) وگر نہ وہ یہ دعویٰ کیسے کریں کہ یہ خبر سب سے پہلے ہم نے دی تھی