اسلام آباد میں لانگ مارچز کی تاریخ

17 اگست 2014
اسلام آباد میں پی ٹی آئی دھرنے کا ایک منظر۔ —تنویر شہزاد/وائٹ سٹار
اسلام آباد میں پی ٹی آئی دھرنے کا ایک منظر۔ —تنویر شہزاد/وائٹ سٹار

اسلام آباد: پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے حالیہ لانگ مارچ اور دھرنے غیر مثالی نہیں۔

پچھلی پانچ دہائیوں میں دارالحکومت نے کئی سیاسی تحریکیں دیکھیں۔ان میں دو سب سے مشہور مارچ مرحوم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف نے ایک دوسرے کے خلاف کئے تھے۔

اسلام آباد میں پہلا بڑا مظاہرہ چار اور پانچ جولائی، 1980 میں ہوا جب شیعہ برادری نے سابق صدر ضیاء الحق کے زکوہ اور عشر آرڈیننس کے خلاف دارالحکومت میں لانگ مارچ کیا۔

شیعہ رہنما مفتی جعفر حسین کی قیادت میں مظاہرین نے وفاقی سیکریٹریٹ پر دھاوا بول دیا۔ بیورکریسی کے مفلوج ہونےکے بعد حکومت مظاہرین کے مطالبوں کے سامنے جھک گئی اور انہیں ریاست کو زکوہ دینے سے مستثنی قرار دے دیا۔

پھر، سترہ اگست، 1989 کو بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں نواز شریف نے فیصل مسجد میں ضیاء الحق کی پہلی برسی منانے کے لئے اپوزیشن جماعتوں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد کی جانب مارچ کیا۔

یہ اُس وقت کی حکومت کے لئے پہلا بڑا چیلنج تھا، اور موجودہ حکومت کی طرح بے نظیر سرکار نے بھی اسلام آباد کو بند کرنےکا فیصلہ کیا۔ تاہم بعد میں ہوش مندی غالب آئی اور اُس قت کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن نے برسی منانے والوں کے ساتھ مکمل تعاون کیا۔

تعزیت کے لئے آئے لوگ سیاسی تقاریر اور برسی کے بعد پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔

کچھ سالوں بعد سولہ نومبر، 1992 میں اپوزیشن لیڈر بے نظیر بھٹو نے 1990 کے عام انتخابات میں دھاندلی کے الزامات لگاتے ہوئے ایک لانگ مارچ کا اعلان کر دیا۔

اس تحریک کی وجہ سے مرحوم صدر غلام اسحق خان نواز شریف کی پہلی حکومت کو تحلیل کرنے پر مجبور ہوئے۔ 26 مئی، 1993 میں شریف حکومت کو سپریم کورٹ کے احکامات پر بحال کر دیا گیا۔

اگلے سال، سولہ جولائی، 1993 میں بے نظیر بھٹو نے ایک مرتبہ پھر لانگ مارچ کیا تاہم اس مرتبہ انہیں اسلام آباد بلاک ملا۔ یہ نازک صورتحال اس وقت قابو آئی جب فوجی سربراہ جنرل وحید کاکڑ نے صدر اسحق اور وزیر اعظم نواز شریف کو مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا۔

سن 1999 میں جماعت اسلامی کے سابق سربراہ قاضی حسین احمد نے نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کے دورے کے موقع پر لاہور میں دھرنا دیا تھا۔

مارچ، 2007 میں فوجی حکمران پرویز مشرف کی جانب سے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو برطرف کئے جانے پر وکلا نے عدلیہ کی بحالی کے لئے تحریک چلائی۔

تحریک کی وجہ سے ملک بھر میں احتجاج شروع ہو گیا اور پھر جسٹس افتخار، وکلاء رہنماؤں اعتزاز احسن، منیر اے ملک، اور علی احمد کرد کی قیادت میں پہلا لانگ مارچ شروع ہوا۔

متاثرہ ججوں کی مختصر بحالی کے بعد، مشرف نے نومبر، 2007 میں ایمرجنسی نافذ کرتے ہوئے اعلی عدلیہ کو گھر بھیج دیا۔ اس دوران ججوں کو نظر بند کرتے ہوئے انہیں دوبارہ حلف اٹھانے کو کہا گیا، جس پر کئی ججوں نے مذاحمت کی۔

وکلا نے اس پر دوسری مرتبہ احتجاج شروع کیا، اور پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں اسلام آباد لانگ مارچ کی کال دی گئی۔

نواز شریف کی قیادت میں لاہور سے شروع ہونے والا مارچ گجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ اُس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے رات گئے اپنی تقریر میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری اور دوسرے ججوں کو بحال کرنے کا اعلان کر دیا۔

مبینہ طور پر سیکورٹی ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ ہونے والے بلوچ افراد کے رشتہ داروں نے اکتوبر، 2013 اور مارچ، 2014 کے دوران براستہ کراچی کوئٹہ سے اسلام آباد مارچ کیا۔

ماما قدیر کی قیادت میں 'وائس آف بلوچ مسننگ پرسنز' نامی گروپ کے اس پیدل مارچ کو صحیح معنوں میں مارچ قرار دیا جا سکتا ہے۔

خواتین اور بچوں سمیت تیس شرکاء کے اس قافلے نے دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کرتے ہوئے موہنداس کرم چند گاندھی کا 1930 میں 'سالٹ مارچ' کا بھی ریکارڈ توڑ دیا۔

تاہم ان کا مشکلات بھرا سفر بھی مقاصد کے حصول کا سبب نہ بن سکا۔

حالیہ تاریخ کا آخری بڑا لانگ مارچ پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پچھلے سال 14 جنوری کو کیا تھا۔

لاہور سے اسلام آباد تک مارچ کا آخری پڑاؤ ڈی چوک کے قریب جناح ایونیو تھا۔ چار دنوں تک جاری رہنے والے دھرنے کا اختتام حکومت اور مظاہرین کے درمیان کامیاب مذاکرات پر ختم ہوا۔

تاہم ، اس مرتبہ ڈاکٹر قادری کے لئے حالات ویسے نظر نہیں آ رہے جیسے پچھلے سال تھے۔

تبصرے (1) بند ہیں

azzam Aug 20, 2014 12:55am
یار دفاعِ پاکستان کونسل نامی اتحاد نے بھی ایک لانگ مارچ کیا تھا ، وہ نہیں ہے لسٹ میں