عمران خان کے اقدامات پر خیبرپختوا کے اراکین اسمبلی پریشان

19 اگست 2014
خیبر پختونخوا کے متعدد اراکین قومی اسمبلی عمران خان کے اقدامات سے ناخوش ہیں—اے ایف پی فوٹو۔
خیبر پختونخوا کے متعدد اراکین قومی اسمبلی عمران خان کے اقدامات سے ناخوش ہیں—اے ایف پی فوٹو۔

پشاور: تمام تر نظریں اب خیبرپختونخوا پر مرکوز ہیں جہاں پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے استعفوں سے متعلق فیصلے نے حکومت کو مشکل میں ڈال دیا ہے جبکہ صوبے سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی کی وفاداری کا بھی یہ امتحان ہے۔

اس فیصلے سے یہ قانون ساز خوش نہیں ہیں جو الیکشن کے صرف ایک سال کے بعد ہی استعفیٰ دینے کو تیار نظر نہیں آتے۔

ایک رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ فیصلہ کور کمیٹی نے لیا اور جس کا قومی اسمبلی میں نہ کے برابر کچھ داؤ پر لگا ہے۔

پی ٹی آئی کی قومی اسمبلی کی 34 تنشستوں میں سے 23 کا تعلق خیبر پختونخوا سے ہے جن میں چار مخصوص تشستیں بھی شامل ہیں۔

تاہم یہ ابھی غیر واضح ہے کہ تمام اراکین استعفیٰ دے رہے ہیں یا پھر ان میں سے کچھ استعفیٰ دیں گے۔

رکن قومی اسمبلی نے ڈان کو بتایا کہ ایم این ایز کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ استعفے تب دیے جائیں گے جب وزیراعلیٰ پرویز خٹک اور ان کی کابینہ کے اراکین بھی استعفے پیش کریں گے۔

انہوں نے کہا 'اگر ایسا ہوتا ہے تو ٹھیک ہے لیکن اگر وہ استعفے نہیں دیتے تو ہم کیوں دیں۔ ہم (اراکین) آگے کا لائحہ عمل مشاورت کے بعد طے کریں گے۔'

تاہم پارٹی کے اراکین خٹک کی قیادت میں اتحادی حکومت کے تعاون نہ کرنے کے رویہ پر کافی عرصے سے احتجاج کرتے آرہے ہیں۔

ایم این اے کا کہنا تھا کہ ہماری کارکردگی کو مدنظر رکھتے ہوئے جتنی نشستیں ہم نے گزشتہ انتخابات میں حاصل کی تھیں اس کی صرف 30 فیصد ہی حاصل کر پائیں گے۔

اراکین قومی اسمبلی کے اعتراضات کے علاوہ پی ٹی آئی کے اتحادی بھی اس ممکنہ پیشرفت سے پریشان ہیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ وہ اسمبلی تحلیل نہیں کریں گے کیوں کہ انہیں ایسا کرنے کی وجہ نظر نہیں آرہی اور وہ نہیں چاہتے کہ انہیں اسمبلی تحلیل کرنے والے وزیراعلیٰ کے طور پر یاد کیا جائے۔

ادھر پی ٹی آئی کے اتحادی جماعت اسلامی اور پاکستان عوامی جموری اتحاد نے خیبر پختونخوا اسمبلی کی تحلیل اور سول نافرمانی کے پی ٹی آئی کے فیصلے کی مخالفت کی ہے۔

جماعت کے وزیر بلدیات عنایت اللہ خان اور جمہوری اتحاد سے تعلق رکھنے والے وزیر صحت شاہرام خان تراکی نے ڈان کو بتایا کہ مسئلے پر ان کا موقف بالکل واضح ہے۔

'نہ ہم سول نافرمانی کی تحریک کی حمایت کرتے ہیں اور نہ ہی اسمبلی کو تحلیل کرنے کی حمایت کرتے ہیں۔'

تحریک انصاف کے ایک رہنما نے کہا کہ ایسا وقت آسکتا ہے کہ ہمیں یہ نازک فیصلہ کرنا پڑ سکتا ہے۔

دوسری جانب صوبائی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں نے پیر کی رات ملاقات کی جس میں ممکنہ طور پر وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے حوالے سے غور کیا گیا۔

اپوزیشن رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہا پی ٹی آئی کے ممبران حالیہ پیشرفت سے گھبراہٹ کا شکار ہیں۔

ایک سینئر اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی اراکین کو بھروسہ نہیں ہے کہ وہ دوبارہ کبھی صوبے سے تشستیں حاصل کرپائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں