دنیائے سکواش کا بادشاہ عظیم ترین خان

اپ ڈیٹ 19 اگست 2014
ہاشم خان 1951 میں پہلی بار برٹش اوپن جیتنے کے بعد ہاتھ میں کپ اٹھائے محمود الکریم سے مصافحہ کرتے ہوئے— سکواش فلم فوٹو
ہاشم خان 1951 میں پہلی بار برٹش اوپن جیتنے کے بعد ہاتھ میں کپ اٹھائے محمود الکریم سے مصافحہ کرتے ہوئے— سکواش فلم فوٹو

معروف مصنف جیمز زگ جو ایک کتاب " سکواش: اے ہسٹری آف دی گیم" کے مصنف ہیں، اپنے ایک انٹرویو کے دوران حیرت سے کہتے ہیں" وہ اس وقت واپس آیا جس کا اب تصور کرنا بھی ممکن نہیں، وہ شخص سب سے بڑے ٹورنامنٹ میں ابھرا اور اس عمر میں اسے جیتنے میں کامیاب رہا جب بیشتر کھلاڑی ریٹائر ہوجاتے ہیں، یہ حیرت انگیز ہے، کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ اپنے عروج کے دور میں وہ کتنا زبردست کھلاڑی رہا ہوگا"۔

وہ ہاشم خان کی بات کررہے تھے جنھیں بلاشبہ سکواش کی دنیا میں سب سے عظیم کھلاڑی کی نظر سے دیکھا جاتا رہے گا۔

ہاشم جنھوں نے اس کھیل کا پہلا مزہ پشاور کے برٹس آفیسرز کلب میں رضاکار بال بوائے کی حیثیت سے چکھا، لڑکپن میں اپنے والد جو کہ اسی کلب میں چیف اسٹیورڈ تھے، کی کار حادثے میں موت تک ہاشم بمقابلہ ہاشم تک محدود رہے، اس کے بعد ہاشم خان پڑھائی ادھوری چھوڑ کر سکول سے نکل گئے اور خود کو مکمل طور پر سکواش کلب کے لیے وقف کردیا، پہلے بال بوائے اور پھر کوچ کی شکل میں ان کی آمدنی خاندان کی کفالت کے لیے کافی ثابت ہوئی۔

بمبئی کے ایک پیشہ ور کھلاڑی کے ساتھ ایک میچ نے سکواش کی تاریخ کو بدل کر رکھ دیا، وہ کھلاڑی جو پشاور کلب میں ایک میچ کے لیے آیا تھا، نے اپنے چیلنجز کا مذاق اڑایا، جو اپنی عمر کی چوتھی دہائی میں داخل ہوچکا تھا۔

مگر میچ کے اختتام پر ہاشم خان 9-7 کے اسکور کے ساتھ فاتح رہے اور مقامی ہیرو بننے کے ساتھ انہیں 1944ءمیں بمبئی میں آل انڈیا ٹورنامنٹ میں شرکت کی دعوت بھی دی گئی۔

تقسیم ہند سے پہلے انہوں نے مسلسل تین بار بمبئی میں یہ ٹورنامنٹ جیتا، تاہم پاکستان ہجرت کرنے کے بعد وہ اس میں شرکت کے اہل نہیں مگر حیرت کا یہ سلسلہ یہاں تھما نہیں۔

آزادی کے بعد پاکستان ایک شناخت اور قومی ہیروز کی تلاش میں تھا اور اس کی امیدوں کو ہاشم خان نے اس وقت بڑھایا جب انہوں نے 37 سال کی عمر میںسکواش کی دنیا کے سب سے بڑے ٹورنامنٹ برٹش اوپن میں ملک کی نمائندگی کی۔

پانچ فٹ پانچ انچ قامت کے حامل ہاشم خان بظاہر تو اس کھیل کے لیے موزوں دکھائی نہیں دیتے تھے مگر انہوں نے سکواش کی دنیا کو اس وقت سکتے میں مبتلا کردیا جب انہوں نے ٹورنامنٹ کے فائنل میں مصر کے محمود الکریم کو 9-5، 9-0 اور 9-0 کے اسکور سے شکست دی۔

اس کے بعد انہوں نے مسلسل چھ بار برٹش اوپن کا تاج اپنے سر پر سجایا اور آخری ایونٹ میں جب انہیں شکست ہوئی تو ان کی عمر 44 سال تھی۔

اس عرصے کے دوران ہاشم خان جو 1960ءکی دہائی میں ڈیٹوریٹ کے اپ ٹاﺅن ایتھلیٹک کلب میں کوچنگ کی ملازمت کے بعد امریکہ شفٹ ہوگئے تھے، نے تین بار کینیڈین اوپن اور یوایس اوپن کے ٹائٹلز بھی جیتے، آخری بار انہیں یہ کامیابی اس وقت ملی جب سکواش کا یہ بادشاہ اپنی عمر کی پانچویں دہائی کے اختتام پر تھے۔

کولوراڈو کا شہر ڈینور جو ہاشم خان کی اگلی منزل بنا، کو بھی پاکستانی کھلاڑی کے جادو کا تجربہ ہوا، جو اتنا پراثر ہوا کہ اس شہر کے میئر جون ہیکنلوپر نے یکم جولائی کو ' ہاشم خان ڈے' قرار دے دیا۔

ہاشم خان بلاشبہ عظیم ترین خان تھے جنھوں نے سکواش کی دنیا پر راج کیا ہوسکتا ہے کچھ افراد اتفاق نہ کرین مگر وہ اس کھیل کے گرینڈ ماسٹر سمجھے جاسکتے ہیں۔

ہربرٹ وارن ونڈ جنھوں نے کھیلوں پر لکھنے کو ادب مین منتقل کیا،بالکل ٹھیک کہتے ہیں" جتنا زیادہ میں سوچتا ہوں اتنا ہی اس بات کا قائل ہو جاتا ہوں کہ دنیا میں اس عمر کا کھلاڑی سب سے عظیم ترین تھا وہ ہاشم خان ہی تھا"۔

تبصرے (0) بند ہیں