پائیڈ پائپر اور گمشدہ بچے

19 اگست 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

پشاور: پاکستان تحریک انصاف کو گیارہ مئی کے عام انتخابات میں ووٹ دینے والے پشاوری نوجوان سوچتے ہیں کہ عمران خان کی ’سول نافرمانی‘ کی کال بے کار ہے اور اپنی تقریر کے دوران جو زبان انہوں نے استعمال کی وہ ’غیرمہذب‘ تھی۔

یاسر آفریدی جنہوں نے پچھلے عام انتخابات میں اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا، کہتے ہیں ’’مجھے کبھی توقع نہیں تھی کہ عمران خان تعلیمیافتہ ہونے کے باوجود اس طرح کی خراب زبان استعمال کریں گے۔‘‘

انہوں نے مایوسی کے عالم میں کہا ’’ناصرف میں بلکہ میرے خاندان کے تیس افراد جنہوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا، اب افسوس کرتے ہیں کہ انہوں نے اس پارٹی کو ووٹ دیا تھا۔‘‘

تبدیلی کے ایجنڈے نے خیبر پختونخوا کے بہت سے حصے میں نوجوانوں پر سحر طاری کردیا تھا۔ سابق کرکٹ اسٹار عمران خان کی کرشماتی شخصیت نوجوانوں کے ہجوم جب چاہتی کھینچ لاتی تھی۔

نوجوانوں کی بڑی تعداد نے انتخابات سے قبل پارٹی ایجنڈے کی تشہیر کے لیے پی ٹی آئی کے تبدیلی رضاکار پروگرام میں اپنے ناموں کا اندارج کرایا تھا، سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی توقعات کس قدر بڑھی ہوئی تھیں۔

انتخابات کے دوران خاص طور پر ایسی خواتین نے بھی پی ٹی آئی کے انتخابی نشان بلّے کو ووٹ ڈالا، جنہوں نے اپنی پوری زندگی میں کبھی پولنگ اسٹیشن نہیں دیکھا تھا۔

پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے کے لیے خیبر پختونخوا میں اس لیے ووٹ ڈالے گئے تھے کہ اس کے چیئرمین نے وعدہ کیا تھا کہ اگر انہیں اقتدار میں لایا گیا تو نوّے دنوں کے اندر تبدیلی آجائے گی۔

تاہم خیبر پختونخوا کے اقتدار کے لیے منتخب ہونے کے ڈیڑھ سال گزرجانے کے بعد کسی قسم کی تبدیلی دیکھنے میں نہیں آئی۔

ایک اور نوجوان عرفان علی، جن کا تعلق صوابی سے ہے، انہوں نے بھی پچھلے انتخابات میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا، ان کا کہنا ہے ’’اگر کوئی چیز تبدیل ہوئی ہے تو وہ پی ٹی آئی کے بارے میں میری رائے ہے۔ میرا خیال ہے کہ یہ ایک اچھی تبدیلی ہے۔‘‘

جبکہ پی ٹی آئی کے طریقہ کار سے کچھ نے مایوسی کا اظہار کیا، خاص طور پر اس کے چیئرمین نے خیبر پختونخوا کے لوگوں کے ساتھ جس طرز کا برتاؤ کیا، یہاں تک کہ بہت سے ایسے لوگ جنہوں بلّے کو ووٹ دیا تھا، اب اسے یاد کرنا بھی پسند نہیں کرتے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ پی ٹی آئی کو ووٹ کیوں دیا تھا۔

سعید خان نے جواب دیا ’’جب میں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا، تب میں نے اپنا ہوش کھو دیا تھا۔‘‘

انہوں نے پی ٹی آئی کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ وہ کرکٹ کو پسند کرتے تھے اور عمران خان کے بہت بڑے پرستار تھے۔ ان کا خیال تھا کہ عمران خان کے ماضی پر بدعنوانی کا کوئی داغ نہیں ہے اور وہ ایک نوجوان سیاستدان ہیں، وہ دوسروں سے کچھ مختلف کریں گے۔

سعید خان نے کہا ’’یہ ٹھیک ہے کہ وہ مختلف ہیں لیکن اس طرح نہیں جیسا کہ میں نے سوچا تھا۔‘‘ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ آئندہ کبھی پی ٹی آئی کو ووٹ نہیں دیں گے۔

کچھ گھریلو خواتین یہ محسوس کرتی ہیں کہ انتخابات میں پی ٹی آئی کی حمایت کرنا ان کے لیے اچھا تھا، اس سے ان کے ذہن پر حقیقت واضح ہونے میں مدد ملی۔ ’’انہوں نے عہد کیا ہے کہ آئندہ ایسی غلطی کبھی نہیں کریں گی۔‘‘

پشاور سے تعلق رکھنے والے بہت سے پی ٹی آئی کے ووٹرز مایوس دکھائی دے رہےہیں، ان کے خیال میں صوبے میں کسی قسم کی تبدیلی کا مشاہدہ نہیں ہوا ہے، لیکن چودہ اگست سے عمران خان کی تقریروں سے بہت سی چیزیں واضح ہوئی ہیں۔ ایسے لوگ جو بطور کرکٹر عمران خان کو پسند کرتے ہیں، ان کے پاس اس کا کوئی جواز موجود نہیں۔

پی ٹی آئی کے ایک درمیانی عمر کے ووٹر رحمان وزیر کہتے ہیں ’’عمران خان کے خلاف کچھ نہ کہو۔ میں اس کی وضاحت نہیں کرسکتا، لیکن میں انہیں بہت زیادہ پسند کرتا ہوں۔‘‘

عمران خان نے اپنے آزادی مارچ کے دوران کی گئی تقاریر میں فخریہ کہا تھا کہ اگر خیبر پختونخوا میں دوبارہ انتخابات کروائے گئے، تو ان کی پارٹی دوبارہ اپنی پوزیشن حاصل کرلے گی۔

تاہم حقیقت اس کے برخلاف ہے۔

پی ٹی آئی کے ناراض اراکین صوبائی اسمبلی، جنہوں نے ایک پریشر گروپ بھی تشکیل دیا تھا، اپنی پارٹی کے چیئرمین کو آگاہ کیا تھا کہ وہ پی ٹی آئی کی قیادت میں صوبائی حکومت کی کارکردگی سے کس قدر مایوس ہیں۔

ایک وزیر اور وزیراعلٰی کے ایک مشیر کو ’خراب کارکردگی‘ پر برطرف کیا گیا تھا، لیکن اس سے اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا۔ یہ واضح طور سے پریشر گروپ کی جانب سے چیئرمین کو آگاہ کردیا گیا تھا کہ ’’پارٹی کو اپنی کارکردگی کی بنیاد پر آئندہ عام انتخابات میں کامیابی کی توقع نہیں کرنی چاہیٔے۔‘‘

عرفان جو محسوس کرتے ہیں کہ عمران خان صرف وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، ان کا کہنا ہے ’’میرا خیال تھا کہ چیزیں مختلف ہوجائیں گی۔ ہم اچھی ملازمتیں حاصل کریں گے، لیکن دیکھیے کہ اسلام آباد میں کیا ہورہا ہے۔ اس میں ہمارے لیے کیا اچھا ہے۔‘‘

ایسا لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا کے عوام سیاسی جماعتوں کو ووٹ دیتے وقت ردّعمل پر مبنی رویّے کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد کے منظرنامے میں تشکیل پانے والے مذہبی و سیاسی جماعتوں کے اتحاد متحدہ مجلس عمل کو انہوں نے ووٹ دیا، آزمایا اور پھر مسترد کردیا۔

اس کے بعد خیبر پختونخوا کے عوام نے صوبے میں ایک قوم پرست سیاسی جماعت کو ووٹ دیا، جو پہلے بھی دہشت گردوں کے نشانے پر تھی، اور اب بھی ہے۔

اس کی بدعنوانی کے بارے میں اس کے خلاف پروپیگنڈا اس کی حکمرانی کے پہلے چند مہینوں میں ہی شروع ہوگیا تھا، جس نے عوام میں بداعتمادی کو جنم دیا۔

اس پارٹی کی ناکامی اس کی خراب کارکردگی کی وجہ سے تھی، لیکن اس کے علاوہ انتخابات سے پہلے دھاندلی کی وجہ سے بھی اس کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا، جس میں اس کے کارکنوں اور رہنماؤں کو انتخابی مہم کے دوران دہشت گردوں کی جانب سے نشانہ بنایا گیا تھا۔

کچھ لوگوں نے محض اس لیے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا کہ صوبے میں خودکش حملے مزید نہیں ہوں گے، اس بنا پر کہ یہ عوامی نیشنل پارٹی کی طرح طالبان مخالف نہیں ہے۔

ایسے لوگ جو تبدیلی چاہتے تھے، انہوں نے بھی پی ٹی آئی کو ووٹ دیا تھا۔ اقتدار میں ایک سال سے زیادہ عرصہ رہنے کے بعد ’نیا خیبر پختونخوا‘ میں کوئی فرق دکھائی نہیں دیا۔ یہاں اب بھی وہی مسائل ہیں، جو ملک کے کسی بھی دوسرے شہر میں ہوسکتے ہیں۔

ہیملن کے پائیڈ پائپر نے اس شہر کو چوہوں سے چھٹکارا دلایا تھا، لیکن وہ بچوں کو بھی ایسی جگہ لے گیا، جس کا کسی کو علم نہیں تھا، بالکل اسی طرح ایسے نوجوان جنہوں نے پی ٹی آئی کو اس لیے ووٹ دیا تھا کہ انہیں عمران خان سے بہت زیادہ امیدیں تھیں، گمشدہ بچوں کی مانند ہیں۔

تبصرے (2) بند ہیں

Hasina Marwat Aug 20, 2014 03:01pm
خیبر پختونخوا کا حال بد سے بدتر ھو چُکا ھے مگر اِسکی حکومت مُجروں اور تماشوں میں مصروف ھے، تحریک انصاف حکومت نے صوبے کے عوام کو بُہت مایوس کیا ھے۔ عمران خان نے کبھی بھی مرکز کے سامنے اِس صوبے کے حقوق کی بات نہیں کی۔ اُسکو بس صرف ایک بات کی فکر ھے کہ کسی طرح بھی ھو وہ وزیر اعظم بن جائے۔ چاھے اِس کے لیئے پختونخوا کے عوام کو ھی کیوں نہ قُربان کیا جائے
Yizdyar Kekobaad Aug 20, 2014 09:48pm
@Hasina Marwat: welldone Hasina Marwat.