ہمارے کپتانوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے؟

21 اگست 2014
اس بات کا پتہ  لگانا مشکل ہے کہ مصباح الحق اور عمران خان میں سے زیادہ کون بچوں کی طرح اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہے۔
اس بات کا پتہ لگانا مشکل ہے کہ مصباح الحق اور عمران خان میں سے زیادہ کون بچوں کی طرح اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہے۔

اتوار کا دن میانوالی سے تعلق رکھنے والے کپتانوں کے لیے کچھ خاص اچھا نہیں تھا۔ ہفتے کا اختتام انکے جیت کے منصوبے بکھرنے کے ساتھ ہوا۔

چھوٹے کپتان کی تو غلطی ہے کہ وہ دو دن میں دو دفعہ اسی بولر کا نشانہ بنے، جسے ہینڈل کر لینے کا انہیں پورا یقین تھا۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ بڑے کپتان اپنی ہی یارکر گیند کا نشانہ بن گئے۔ پر اب بھی وہ پچ پر مضبوطی سے جم کر کھڑے ہیں، اور تب تک وہاں سے جانے کو تیار نظر نہیں آ رہے، جب تک ایک غیر جانبدار امپائر آ کر انہیں جانے کو نہ کہے۔

عمران! آپ آخر پچ چھوڑ کر جا کیوں نہیں رہے، کیا سٹمپس ٹوٹ چکنے کے بعد بھی امپائر کی ضرورت باقی رہتی ہے؟

آخر ہمارے کپتانوں کے ساتھ مسئلہ کیا ہے۔

اس بات کا پتہ لگانا مشکل ہے کہ مصباح الحق اور عمران خان میں سے زیادہ کون بچوں کی طرح اپنی غلطی ماننے سے انکاری ہے۔

ایک بار بار اپنا "صبر و تحمل" کا نعرہ دہرا رہا ہے، پر اپنے کھلاڑیوں کی تکنیکی کمزوریوں پر بات نہیں کرتا، جبکہ خود ان سب سے زیادہ کمزور ہے۔

دوسرے کپتان کے چیتے اپنے پنجرے توڑ کر باہر آنے اور حملہ کرنے کے لیے بیتاب ہیں۔

لیکن یہ سب آخر ہو کیوں رہا ہے، اور ہمارے ساتھ کیوں ہو رہا ہے۔

اصل وجہ صرف ایک ناکام منصوبہ بندی نہیں، پر اس سے بڑھ کر ہے۔ ان دونوں کے ساتھ ایسا پچھلے کافی وقت سے ہو رہا ہے۔

مصباح کا معاملہ زیادہ پیچیدہ ہے، اور ان کی ٹیم کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ان کو کل بھی وہی دکھ پہنچا جو ان کے ساتھ پہلے بھی ہوتا رہا ہے۔

لیکن تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا مقصد تو شاید عوام کا مقصد ہے نا؟ تو براہ مہربانی مجھے بتائیں، کہ سول نافرمانی کیوں؟

اتوار کے روز ان کی تقریر میں، جو اپنے زعم میں "تاریخی" تھی، اور ان کے "فائنل میچ"، میں انہوں نے اتنی کرتب بازی کی، کہ دیکھنے والے بھی دنگ رہ گئے۔

"میں اس جعلی پارلیمنٹ اور وزیراعظم ہائوس میں گھس کر، نواز شریف کو گردن سے گھسیٹ کر باہر لانا چاہتا ہوں، اور انکا بے رحم احتساب کرنا چاہتا ہوں"، "لیکن ہم ایک پر امن جدوجہد میں یقین رکھتے ہیںؔ"۔

ٹھیک ہے۔

"ٹیکسز مت دیں"، پھر تھوڑی دیر بعد، "لیکن خیبر پختونخواہ حکومت کو ضرور دیجیے گا، بس وفاق کو نہیں"۔

صحیح ہے۔

"مجھے 40 گھنٹے جاگنا بھی کچھ مشکل نہیں ہے، اس لیے آپ مجھے ہمیشہ یہیں پائیں گے۔۔۔۔ ہر کوئی میری طرح سابق کرکٹر نہیں ہے"۔

"یہ ایک پر امن اور آئینی مارچ ہے، لیکن وزیر اعظم صاحب، میں آپ کو یقین دلا سکتا ہوں کہ یہ امن صرف دو دن کا ہے، اس کے بعد مجھے معلوم نہیں کہ یہ مجمع کیا کر بیٹھے"۔

کسی کو بھی شوق نہیں، کہ ایک گرتے شخص کو ایک اور زوردار دھکا دے، خاص طور پر عمران خان کے معاملے میں، جس کی صاف نیت پر ان کے دشمن بھی سوال نہیں اٹھا سکتے۔ لیکن اس ویک اینڈ کا کیس مختلف ہے۔

میں وزیر اعظم کے استعفے سے کم پر کسی صورت راضی نہیں ہوں گا۔۔۔۔ یہ رہی سول نا فرمانی کی تحریک۔۔۔۔

ہمارے مطالبات مکمل طور پر آئینی ہیں، پر یہ بادشاہت ہے جمہوریت نہیں۔۔۔۔ پر ہم کے پی اسمبلی سے استعفیٰ نہیں دیں گے۔

"ہمیں ایک ہفتہ بیٹھنے میں بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے"۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ "دو دن زیادہ ٹھیک رہے گا"۔

میرا خیال ہے کہ ہیملٹ نے خودکشی کا منصوبہ بھی زیادہ آسانی سے بنایا ہو گا۔

کتنی مضحکہ خیز صورتحال تھی، جب عمران نے پہلے دھرنا ہفتے بھر تک جاری رکھنے کا اعلان کیا، پھر اسے عوامی مطالبے پر 48 گھنٹے کر دیا۔ کتنا مزیدار نظارہ تھا جب وہ مکمل طور پر بھیگے ہوئے لوگوں کو دلاسا دے رہے تھے کہ یہ بارش رحمت ہے۔

پر یہ مذاق تب ختم ہو گیا جب انہوں نے اپنے حامیوں کو بار بار کہنا شروع کر دیا کہ 48 گھنٹوں کے بعد وہ "چڑیا گھر" پر قبضہ کر لینے کے لیے پوری طرح تیار ہوں گے۔

قابل مذمت۔

ہمارا 1992 کا کپتان کہاں گیا؟

وہ جذبہ لالچ، مایوسی اور فرسٹریشن میں کیسے بدل گیا۔

مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب بھی عمران خان سے کرکٹ پر سوال کیا جائے، تو وہ معمولی دلائل سے اوپر بڑھ کر کہتے ہیں،

"دیکھیں، کھلاڑی اداروں سے بنتے ہیں، جمھوری نظام سے، صحیح نظام کے بغیر صحیح پراڈکٹ نہیں مل سکتی"۔

میدان میں وہ ہمیشہ نظم و ضبط میں رہ کر جارحیت کا مظاہرہ کرتے تھے، اور کھلاڑیوں پر اپنی جان لڑا دینے کے لیے زور دیتے تھے۔

اور اب انکی جگہ ہمارے پاس کیا ہے؟ ایک ایسا لیڈر جس کے پاس صرف بوسیدہ اور دفاعی حکمت عملیاں ہیں، بولنگ میں عجیب تبدیلیاں، اور بیٹنگ تو ایسی جس کا کورٹ میں ٹرائل ہونا چاہیے۔

ایک چیز جس کے لیے مصباح الحق کوشش کرتے ہیں وہ مڈل آرڈر میں صبر و تحمل لانا ہے۔

میں پوچھتا ہوں، کیا ہم کپتان بدل سکتے ہیں؟

کیا ایسا اچھا نہیں ہو گا کہ چیتے کو واپس میدان میں، اور کچھوے کو پارلیمنٹ میں بھیج دیا جائے تاکہ سیاسی ڈس آرڈر میں استحکام لایا جا سکے؟

یہ دونوں سخت گیر ہیں، جو اپنے ذاتی خواہشات کے لیے اچھے مشورے کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

اور وہ دونوں شخصی گروہوں کی ہی تو قیادت کر رہے ہیں، اور دونوں کی ٹیموں میں شخصیت پرستی کی بیماری موجود ہے۔

تو کیا ہم سپاہیوں کو بدل کر دیکھ سکتے ہیں؟ شاید اگلے اتوار کے میچ میں سب ٹھیک ہو جائے؟

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان ڈاٹ کام کے سٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @_talhaahmed کے نام سے لکھتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں