مضبوط ادارے

لکھاری ڈویلپمنٹ اور پولیٹیکل اکنامسٹ ہیں، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں میں سینئر فیلو ہیں۔
لکھاری ڈویلپمنٹ اور پولیٹیکل اکنامسٹ ہیں، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں میں سینئر فیلو ہیں۔

پاکستانی عوام میں گڈ گورننس کا مطالبہ شدت سے پایا جاتا ہے، پر گڈ گورننس کی سپلائی بہت کم ہے۔ عالمی تجربات یہ کہتے ہیں کہ صرف مضبوط اداروں سے ہی گڈ گورننس مل سکتی ہے۔ لیکن گڈ گورننس کے حصول کے لیے پی ایم ایل این کے خلاف پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی تحریک میں تینوں جماعتوں نے ہی ریاستی اداروں کی قانونی حیثیت کو ہلکا لیا ہے۔

پی ایم ایل این نے ریاستی مشینری کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کیا، اور اپنی متنازعہ بھرتیوں، برطرفیوں، اور بھرتیاں نا کرنے سے اداروں کی قانونی حیثیت کو نقصان پہنچایا۔ اس میں سابقہ نگراں حکومت کے عہدیداروں کو اہم عہدوں پر تعینات کرنا، اور نادرا چیئرمین کو فارغ کرنا شامل ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی نے یہی کام الیکشن کمیشن، الیکشن ٹریبونل، نادرا، اور عدالتوں پربے بنیاد الزامات عائد کر کے کیا۔

میڈیا کی جانب سے پریشر بڑھنے کے بعد پی ٹی آئی نے تسلیم کیا کہ اس کے پاس مضبوط شواہد کے بجائے صرف قرائنی شواہد (circumstantial evidence) ہیں۔ لیکن پی ٹی آئی اس بات کو تسلیم کرنے پر تیار نہیں کہ ایسے شواہد شک کو تو جنم دے سکتے ہی٘ں، پر ان کو بنیاد بنا کر، اداروں پر دھاندلی میں ملوث ہونے کا الزام عائد نہیں کیا جا سکتا۔

پاکستان عوامی تحریک نے یہ کام اور شدت سے کیا، اور "انقلاب" کے ذریعے پورے سسٹم کی تبدیلی کا مطالبہ کیا۔ دیکھنے کی بات یہ ہے، کہ واحد ادارہ جو عوامی تحریک کے انقلابی منصوبے سے اب تک بچا ہوا ہے، وہ آرمی ہے، جس کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد ہی دنیا کے تمام بڑے انقلاب (روسی، ایرانی وغیرہ) آئے ہیں۔

سمجھ میں آتا ہے، کہ طاہر القادری اس پرانی پاکستانی طاقت سے الجھنے کے موڈ میں نہیں۔ پی اے ٹی یہ بتانا پسند نہیں کرتی، کہ کسی بھی انقلاب میں فوری طور پر گڈ گورننس نہیں آئی، بلکہ اس کام میں کم سے کم وقت بھی کئی عشروں پر محیط ہے، اور کچھ اکثر انقلابوں نے تو چیزوں کو فوری طور پر ٹھیک کرنے کے بجائے مزید خراب کر دیا۔

بد قسمتی سے ریاستی اداروں پر تمام جماعتوں کی جانب سے حملہ اس وقت کیا گیا، جب وہ بھلے ہی ابتدائی طور پر ہی سہی، پر کچھ قابلیت کا مظاہرہ کرنے لگے تھے۔

ٹریبونل آہستہ آہستہ، پرپچھلےانتخابات کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے کیسز نمٹا رہے ہیں، اور اس دفعہ جانب داری کی اطلاعات بھی نہیں۔ نادرا با مقصد ویری فکیشن رپورٹس تیار کر رہی ہے، جن پر طارق ملک کی برطرفی کے بعد بھی کم ہی تنقید ہوئی ہے، بھلے ہی مسلم لیگ ن کی جانب سے اس کی قابلیت پر شک کیا گیا، اور تحریک انصاف کی جانب سے اس کی آزادی پر سوال اٹھائے گئے۔

وفاقی، صوبائی، اور لوکل سطح پر (30 ضلعوں میں یو سی سطح تک) ریاستی اداروں کے ساتھ میرے تجربے کی بنیاد پر میں کہ سکتا ہوں، کہ عشروں پر محیط نا اہلی کے بعد اب آخر کار ادارے کچھ اہلیت اور قابلیت کا مظاہرہ کرنے لگے ہیں۔

تاریخ دان کہتے ہیں کہ ساٹھ کی دہائی پاکستانی اداروں کا سنہرا دور تھا، جب وہ قابلیت اور لیاقت کے ساتھ، سیاسی وابستگیوں کا خیال کیے بغیر کام کرتے تھے۔ لیکن میرٹ کی بنیاد پر غیر سیاسی طور پر کام کرنے کے باوجود ان کی کارکارگی سے زیادہ تر کچھ حلقوں کا مراعات یافتہ طبقہ ہی فوائد حاصل کرتا تھا۔

ایسے مراعاتی رویے کے خلاف تحریک سے جیتنے والے ذوالفقار علی بھٹو نے اس وقت پیچھے دھکیل دیے گئے گروہوں اور طبقات کے سیاسی مطالبات پورے کرنے کے لیے اداروں کو انکے سامنے رکھ دیا، جس سے اداروں کی قابلیت پر شدید اثر پڑا۔

گڈ گورننس صرف مضبوط اداروں سے وجود میں آتی ہے۔ مضبوط ادارے مساواتی معاشروں سے وجود میں آتے ہیں۔ اور ایسے معاشرے فی فرد آمدنی، خواندگی، صنعت، اور شہری تمدن کے بڑھنے سے ہی بن سکتے ہیں۔

سال بہ سال ملک میں یہ شرحیں بڑھتی جا رہی ہیں، اور معاشرہ میں عدم مساوات کم ہو رہی ہے۔ اداروں کی قابلیت اور گورننس بھی بڑھ رہی ہے۔ وقت کے ساتھ، یہ ادارے جمہوریت کے سائے تلے اس مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں نا ایوب دور کا الیٹیزم ہو گا، نا بھٹو دور کی پولیٹیسائزنگ، بلکہ میرٹ اور سیاسی ملاحظات کے امتزاج سے مساوی خدمات فراہم کر سکیں گے۔

بد قسمتی سے یہ مرحلہ بہت لوگوں کے لیے کافی سست ہے، اور پھر وہ دھوکے پر مبنی شارٹ کٹس جیسے ڈکٹیٹر شپ، خلافت، انقلاب، اور ٹیکنو کریسی وغیرہ کا پرچار کرتے ہیں۔ سادہ لوحی سے یہ یقین کر لیا جاتا ہے کہ اصلاحات کے ذریعے فوراً ہی سپر سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ تیار ہو گی، جو فوراً گڈ گورننس کی مثال قائم کر دے گی، یعنی جمہوریت خود ہی گڈ گورننس کے شارٹ کٹ تیار کرے گی۔

بھلے ہی جمہوریت کی مارکیٹنگ کے لیے یہ غلط فہمی کو پھیلایا جائے، پر حقائق دیکھنے کے لیے غلط فہمی کے اس غبارے سے ہوا نکالنی پڑے گی۔ جلد از جلد جامع انتخابی اصلاحات کی جائیں، جن سے غیر متنازعہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو گا، اور مستقبل میں اس طرح کے سیاسی بحرانوں سے بچا جا سکے گا۔ لیکن ان سے گورننس میں فوراً اور بہترین تبدیلیاں نہیں آئیں گی، بلکہ وقت کے ساتھ جیسے جیسے معاشرتی ڈھانچے میں تبدیلی آئے گی، تب ہی یہ تبدیلیاں آئیں گی، اور ادارے مضبوط ہوں گے۔

اس لیے ضروری ہے کہ سیاستدان اپنے سیاسی جھگڑوں میں اداروں کو نا گھسیٹیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اداروں کے ساتھ تحمل کے ساتھ کھڑے ہوں، اور وسیع مدتی وژن اپنائیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈویلپمنٹ اور پولیٹیکل اکنامسٹ ہیں، اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا برکلے میں میں سینئر فیلو ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 19 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں