پاکستان ایک "ساس" کی نظر سے

اپ ڈیٹ 22 اگست 2014
بوتھم -- رائٹرز فوٹو
بوتھم -- رائٹرز فوٹو

سقوط مشرقی پاکستان وطن عزیز کی تاریخ کا ایک ایسا سانحہ تھا، جس نے قومی غرور کے بت کوتوڑ کر رکھ دیا تھا۔ دنیا کی سب سے بڑی مسلم ریاست ہونے کا زعم ختم ہونے سے قومی نفسیات پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ جس طرح زندگی کی کشمکش میں شکست کھانے والا راہ فرار اختیار کرتے ہوئے نشہ آور چیزوں کا رخ کرتا ہے بالکل اسی طرح بچے کچھے پاکستان کے باشندوں کو ایک سہارے کی ضرورت تھی، جو ان کے قومی جاہ و جلال کو برقرار رکھ سکے۔

قومی نغموں میں ملک و ملت کی عظمت کے گن گائے گئے اور اس احساس کو مٹانے کی کوشش کی گئی لیکن میدان کی شکست کا ازالہ صرف میدان ہی میں ممکن تھا اور قوم نے وہ میدان کرکٹ میں ڈھونڈا، یوں کرکٹ آج بھی قومی تقاخر کا سب سے بڑا اور امتیازی نشان ہے۔

خاص طور پر 1970ء کی دہائی میں قومی نشریاتی رابطے پر کرکٹ کی براہ راست نشریات کا آغاز ہوا تو ریڈیو اور ٹیلی وژن کے ذریعے پاکستان کرکٹ کی مقبولیت آسمانوں تک پہنچ گئی۔ عمران خان، جاوید میانداد، ظہیر عباس، ماجد خان، آصف اقبال، وسیم راجہ، سرفراز نواز اور مدثر نذر ہر گھر میں جانے جاتے تھے۔ کرکٹ اب صرف اشرافیہ کا کھیل نہیں رہا تھا، اس کی جڑیں اب عوام میں تھیں۔

اگلی دہائی میں پاکستان کرکٹ کا سورج نصف النہار پر تھا۔ کرکٹ کے میدان میں فتوحات اور ملی نغموں اور فوجی پریڈوں نے ملی جذبات کو عروج پر پہنچا دیا تھا اور اس قومی وقار کو سخت ٹھیس پہنچی جب 1984ء میں انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم نے پاکستان کا دورہ کیا اور ان کے آل راؤنڈر این بوتھم نے یہ بیان دیا کہ "پاکستان تو ایسی جگہ ہے کہ بندہ مہینے بھر کے لیے یہاں اپنی ساس کو بھیجے، اور وہ بھی پورا خرچہ اپنی جیب سے ادا کرکے" ۔

کرکٹ اب محض ایک کھیل نہیں تھا کہ ایک کھلاڑی کے بیان کو ہلکا لیا جاتا۔ این بوتھم کو پاکستان میں سخت ترین ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ انگلینڈ اینڈ ویلز کرکٹ بورڈ نے ان پر جرمانہ عائد کیا اور انہیں اپنے بیان پر معافی بھی مانگنا پڑی یہاں تک کہ انہیں زخمی قرار دے کر وطن واپس بلوا لیا گیا۔ لیکن آل راؤنڈر پاک-انگلینڈ کرکٹ تعلقات میں نفرت کا بیج بو چکے تھے اور اس کے بعد سے آج تک دونوں ممالک کے درمیان کوئی سیریز تنازع سے خالی نہیں رہی۔

بہرحال، بوتھم کے بیان کے خلاف پاکستان میں مظاہرے بھی ہوئے، ان کے رویے پر تنقید بھی کی گئی۔ اخبارات کے اداریے اور دیگر صفحات میں بھی ان کی بھرپور مذمت کی گئی۔ بوتھم کا یہ بیان پاکستان کی قومی نفسیات سے اس بری طرح چپک گیا تھا کہ 8 سال بعد ورلڈ کپ 1992ء کے فائنل میں جب وسیم اکرم نے این بوتھم کو آؤٹ کیا تو انہیں واپس جاتے ہوئے عامر سہیل نے جملہ کہا کہ "اب کون بیٹنگ کرنے آئے گا؟ تمہاری ساس؟"

پھر عرصہ بعد انگلینڈ کی کرکٹ ٹیم 2000ء میں پاکستان کے دورہ پر آئی تو این بوتھم اسکائی اسپورٹس کے کمنٹری پینل کے رکن کی حیثیت سے پاکستان آنے والوں میں شامل تھے۔ اس موقع پر برطانیہ کے ایک معروف اخبار 'ڈیلی مرر' کو انوکھا خیال آیا کہ کیوں نا بوتھم کے 1984ء کے بیان کو حقیقت کا روپ دیا جائے اور ان کی ساس جین والر کو واقعی پاکستان بھیجا جائے؟ اخبار نے سفر کے تمام اخراجات اپنے ذمے لیے اور بوتھم کی ساس کو رضامند کیا کہ وہ اپنے داماد کے ساتھ پاکستان جائیں اور وہاں سے جو بھی تاثرات پائیں انہیں اخبار کے لیے پیش کردیں۔

یہ کمال کا خیال تھا، اور جس کے بھی ذہن میں آیا تھا اس نے پاکستان کے حوالے سے کئی لوگوں کے نظریے کو بدل کر رکھ دیا کیونکہ 68 سالہ جین والر کو پاکستان بہت پسند آیا، اتنا زیادہ کہ بقول ان کے مجھے پاکستان سے محبت ہوگئی ہے۔ لاہور میں قیام کے دوران انہیں قدیم شہر اور اس کی تاریخی عمارات بہت پسند آئیں، مہمان نوازی اور پاکستانیوں کے دوستانہ رویے نے انہیں بہت متاثر کیا اور سونے پہ سہاگہ ان کا یہ بیان کہ "میں دنیا کی ہر ساس سے کہتی ہوں کہ وہ پاکستان ضرور آئے۔ یقین کریں، آپ کو اس ملک سے محبت ہوجائے گی۔"

جنوب مشرقی ایشیا کے کئی ممالک کے علاوہ آسٹریلیا اور کینیڈا دیکھنے والی جین والر کو لاہور کا فائیو اسٹار ہوٹل بہت بھایا کیونکہ انہیں ہرگز توقع نہ تھی کہ پاکستان میں اتنا اچھا ہوٹل بھی ہوسکتا ہے۔ "یہاں غربت بہت زیادہ ہے لیکن اگر آپ کچھ مختلف دیکھنا چاہتے ہیں تو پاکستان بہترین مقام ہے۔ سخت غربت کے باوجود لاہور بہت محفوظ شہر ہے۔ ایک سفید فام خاتون ہونے کے باوجود میں لاہور کے غریب ترین علاقوں میں گھومی پھری لیکن مجھے کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ میں تو دنیا بھر کی ساسوں سے کہوں گی کہ آپ ضرور پاکستان آئیں، آپ کو اس ملک سے محبت ہوجائے گی۔"

گھر کے بھیدی کا یہ بیان این بوتھم کے لیے تازیانہ تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر معذرت کی اور کہا کہ میں آج بھی اس بیان پر شرمندہ ہوں اور درحقیقت وہ ایک مذاق تھا، جسے بہت زیادہ سنجیدہ لے لیا گیا تھا۔

آج اگر کوئی پاکستان کے بارے میں ایسے کلمات ادا کرے تو کیا آپ کو یقین آئے گا؟ شاید ہم میں سے اکثر کا جواب نفی میں ہو۔ کیونکہ ہم نے بحیثیت قوم اپنے پیروں پر خود کلہاڑی ماری ہے۔ ورنہ 14 سال کا عرصہ قوموں کی زندگی میں چند سیکنڈوں کی حیثیت رکھتا ہے لیکن ہم صرف ڈیڑھ دہائی میں اس مقام پر آ پہنچے ہیں کہ تمام تر حب الوطنی کے باوجود 2000ء کی یادوں پر بھی ٹھنڈی آہیں بھر رہے ہیں۔

اچھے مستقبل کی تمناؤں کے ساتھ آئیے دعا بھی کرتے ہیں اور کوشش بھی کہ پاکستان ایک مرتبہ پھر امن کا گہوارہ بنے اور کرکٹ عالمی سطح پر اس کے امیج کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرے۔

تبصرے (6) بند ہیں

Amir Aug 22, 2014 05:24pm
fantastic G
عمار ضیا Aug 22, 2014 10:39pm
دلچسپ اور معلوماتی تحریر۔ کاش آخری جملے حقیقت کا روپ دھار لیں۔
ابو موسیٰ Aug 23, 2014 01:07am
ان حالات میں یہ بلاگ تازہ ہوا کا جونکا ہے، امید ہے کہ جلد ہی قذافی میں بین الاقومی کرکٹ پھر سے دیکھنے کو ملے گی.
نائلہ احمد Aug 23, 2014 04:06am
کاش آج بھی پاکستان آنے والے غیر ملکی ایسی ہی رائے لے کر واپس جاسکیں ، لیکن بدقسمتی سے ابھی ایسا نظر نہیں آتا. آذادی مارچ اور دھرنے سے اسلام آباد میں موجود غیر ملکی کتنے ہراساں ہوں گے ، اس کا اندازہ باسآنی لگایا جاسکتا ہے. کاش خدا عمران خان اور حکومت کو مذید حماقتیں کرنے سے باز رکھے،
dilshad Aug 23, 2014 03:25pm
please update this article on english page
منظر وحید Aug 24, 2014 06:07pm
بہت ہی عمدہ، معلوماتی اور دلچسپ