'ریڈ زون سے ٹی وی کیمرے ہٹادیں، انقلاب ختم ہوجائے گا'

اپ ڈیٹ 21 اگست 2014
ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کی ریڈزون کی جانب پیش قدمی کی براہ راست نشریات کے لیے کوریج کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی
ٹی وی چینلز کے کیمرہ مین ڈاکٹر طاہرالقادری کے انقلاب مارچ کی ریڈزون کی جانب پیش قدمی کی براہ راست نشریات کے لیے کوریج کررہے ہیں۔ —. فوٹو اے پی

کراچی: پاکستان میں ایک غالب ادارے سے کئی اداروں کو اختیارات منتقل ہوئے ہیں، اور پاکستان اب شہری اکثریت کے ملک میں تبدیل ہوچکا ہے، جہاں اشیائے صرف کی فراہمی اب ایک نجی عمل ہے۔

ان خیالات کا اظہار بدھ کے روز ماہرِ سیاسیات و اقتصادیات ڈاکٹر اکبر زیدی نے کیا، انہیں کراچی یونیورسٹی کے فیکلٹی آف آرٹس نے ’’پاکستانی ریاست کی بدلتی ہوئی نوعیت‘‘ کے زیرِ عنوان ایک لیکچر پیش کرنے کے لیے مدعو کیا تھا۔

ڈاکٹر اکبر زیدی نے اپنے لیکچر میں ادارہ جاتی اور معاشرتی تبدیلیوں کے دو وسیع موضوعات کا احاطہ کیا ۔

انہوں نے 1950ء میں بعض اداروں کی برتری پر بحث سے اپنی گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت ایک ادارے کے استثنا کے ساتھ ایک ڈرامائی تبدیلی دیکھی گئی، جو آج بھی ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔

’’1957ء سے اب تک، پاکستانی ریاست مرکزیت میں بند ہوگئی تھی اور اس کے تین اہم عوامل تھے۔ ماہرِ بشریات اور سماجی سائنسدان حمزہ علوی کے مطابق ستّر اور اسّی کی دہائیوں کےدوران فوج، جاگیرداروں کا طبقہ اور بیوروکریسی نے پاکستان کی فیصلہ سازی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ اب یہ تبدیلی آئی ہے کہ جاگیردار طاقتور عامل نہیں رہے۔‘‘

انہوں نے اپنے بیان کی مضبوطی کے لیے موجودہ سیاسی اور غیر سیاسی عوامل کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’عمران خان، طاہر القادری، نواز شریف اور الطاف حسین کی مثال لے لیجیے، وہ جاگیردار نہیں ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ فوج سب سے زیادہ طاقتور ادارے کردار آج بھی ادا کررہی ہے۔’’1957 سے 2007ء تک فوج نے ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔‘‘ لیکن اس کے بعد دیگر طاقتور عوامل جیسے عدلیہ، پارلیمنٹ اور میڈیا بھی اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔

عدلیہ پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر اکبر زیدی نے کہا کہ اگرچہ پاکستان کے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری انتہائی متنازعہ شخصیت تھے، تاہم ان کے ماتحت عدلیہ ایک طاقتور ادارے کے طور پر اُبھری تھی۔

انہوں نے کہا ’’اس سے پہلے عدلیہ شاید ہی کبھی آزاد رہی ہو، اس نے ہمیشہ فوج کے اقدامات کی توثیق کی تھی۔‘‘

میڈیا کی جانب آتے ہوئے ڈاکٹر زیدی نے کہا کہ 2007ء میں ڈھیر سارے ٹی وی چینلز کھلنے کی وجہ سے یہ بھی ایک تقابلی طاقت کے طور پر اُبھر کر سامنے آیا۔

انہوں نے اسلام آباد میں عمران خان کے آزادی مارچ اور طاہر القادری کے انقلاب مارچ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ میڈیا آج بھی ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔

’’ایک ٹاک شو میں کسی نے ایک معقول نکتہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ٹی وی کیمروں کو ریڈ زون سے ہٹا دیا جائے تو وہاں کوئی انقلاب باقی نہیں رہے گا۔ ان دنوں ہر کوئی اپنے ٹی وی سیٹ کے ساتھ چپکا ہوا ہے، یہاں تک کہ ہم نے یہ بھی فراموش کردیا ہے کہ باقی دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم یہ بھی بھول گئے ہیں کہ ملک کے باقی حصوں میں کیا ہورہا ہے۔‘‘

انہوں نے پارلیمنٹ کو بطور ایک اور تقابلی عامل کا اختصار کے ساتھ احاطہ کیا۔ انہوں نے محسوس کیا کہ پارلیمنٹ کا کردار اس وقت مایوس کن رہا، جب وہ کہیں زیادہ تحکمانہ انداز اختیار کرسکتی تھی، لیکن دونوں ایوانوں میں دفاعی بجٹ پر بحث، اسامہ بن لادن کے خاتمے پر وضاحت کے لیے سابق آئی ایس آئی کی طلبی اور مہران بینک اسکینڈل میں انٹیلی جنس حکام سے پوچھ گچھ نہایت اہم پیش رفت تھیں۔


’صرف ایک فیصد پاکستانی ٹیکس ادا کرتے ہیں‘


ڈاکٹر اکبر زیدی کراچی یونیورسٹی میں اپنا لیکچر پیش کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار
ڈاکٹر اکبر زیدی کراچی یونیورسٹی میں اپنا لیکچر پیش کررہے ہیں۔ —. فوٹو وہائٹ اسٹار

پاکستانی ریاست میں معاشرتی تبدیلیاں، ڈاکٹر زیدی کے لیکچر کا دوسرا موضوع تھا، انہوں نے کہا کہ عوامی خدمت کے اہم اداروں کی نجکاری کردی گئی تھی۔

نجکاری کی ایک مثال کے طور پر تعلیم کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ تیس سال پہلے کراچی میں ایک نجی یونیورسٹی ہوا کرتی تھی، وہ آغاخان یونیورسٹی تھی، اور ایک سرکاری تعلیمی ادارے میں کراچی یونیورسٹی تھی۔

’’دیہی سندھ میں اپنے تحقیقی کام کے دوران میری ملاقات لوگوں سے ہوئی، انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو پرائیویٹ اسکولوں میں بھیجنے کو ترجیح دیتے ہیں، اس لیے کہ سرکاری اسکولوں میں اساتذہ غائب رہتے ہیں۔‘‘

تحفظ اور بجلی کا حصول بھی نجکاری کی مزید مثالیں ہیں۔ انہوں نے سوال کیا ’’ریاست کا کیا کردار رہ جاتا ہے کہ اگر وہ اپنے عوام کو سیکیورٹی اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات فراہم نہیں کرسکتی۔‘‘

عمران خان کی سول نافرمانی کی تحریک اور ٹیکسوں کی عدم ادائیگی کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ریاست ٹیکس جمع کرنے کے محاذپر بھی کچھ کرنے کے قابل نہیں رہ گئی ہے۔

ڈاکٹر زیدی نے کہا ’’آبادی کا صرف ایک فیصد حصہ ٹیکس ادا کرتا ہے۔ ہم دنیا بھر میں جی ڈی پی کی شرح کے حساب سے سب سے کم ٹیکس ادا کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔‘‘

انہوں نے غیر رسمی مینوفیکچرنگ کے شعبے میں ایک اور سماجی تبدیلی کی نشاندہی کی۔

’’ایسا لگتا ہے کہ نیسلے اور دیگر تیزی سے ترقی کرنے والی مصنوعات نے مینوفیکچرنگ کے شعبے پر غلبہ حاصل کرلیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ چھوٹے شعبے پاکستان کی تقریباً ستر فیصد آبادی کو روزگار فراہم کررہے ہیں۔‘‘

ڈاکٹر زیدی نے تشدد کی ریاست پر اجارہ داری کا تذکرہ بھی کیا، گویا ریاست کو عسکریت پسندوں اور مافیا گروپس کے سپرد کردیا گیا ہے، جسے انہوں نے ایک اہم سماجی تبدیلی قرار دیا۔


شہری اکثریت کا ملک


دیہی علاقوں کی شہری علاقوں میں تبدیلی کے بارے میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پنجاب اور سندھ میں اپنے تحقیقی کام کے دوران انہوں نے چھوٹے قصبوں میں سڑکوں کا انفراسٹرکچر اور وہاں کے لوگوں کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کی جدید صورت تک رسائی حاصل کرتے دیکھا۔

’’اب دور دراز علاقوں کا تصور تبدیل ہوگیا ہے۔ ایک تحقیقی مطالعے کے مطابق پنجاب کے اسّی فیصد لوگ مرکزی سڑک سے صرف دو میل کے فاصلے پر رہائش پذیر ہیں۔ اور 73 فیصد لوگوں کے پاس موبائل فونز ہیں۔ کنزیومر ازم چھوٹے قصبوں میں بڑے پیمانے پر موجود ہے۔ لہٰذا پاکستان اب ایک شہری اکثریت کا ملک ہے۔ یہ شماریاتِ آبادی کے علم کی رو سے نہایت اہم رجحان ہے۔‘‘


آخری ضرب کون لگائے گا؟


ڈاکٹر زیدی کے مطابق حامد میر پر حملہ نہایت اہم تھا، اس لیے کہ پہلی مرتبہ ایک بڑے میڈیا ہاؤس نے اس مبینہ حملے کے پیچھے اسپائی ایجنسی پر الزام عائد کیا۔

’’ایسا اس ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں ہوا۔‘‘

انہوں نے کہا کہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ فوج نے پہلے میڈیا،عدلیہ اور پارلیمنٹ کو کچھ کنٹرول دیا تھا، اب خود کو دوبارہ اپنی جگہ پر بحال کرلیا ہے۔ یہ بحث دوبارہ تبدیل ہورہی ہے، لیکن فوج اپنی پہلے جیسی مداخلت کرنے والی پوزیشن پر واپس نہیں جاسکتی۔

ڈاکٹر زیدی نے کہا ’’سیاستدانوں سے لے کر میڈیا تک، ہر ایک یہی کہہ رہا ہے کہ فوجی بغاوت کا کوئی امکان موجود نہیں ہے۔اگر کوئی ان دنوں ٹی وی دیکھ رہا ہے تو یہ کہہ سکتا ہے کہ عمران خان اور طاہر القادری، دونوں ہی نے بارہا وضاحت کی ہے کہ وہ حکومتی تبدیلی کے لیے فوجی کی جانب نہیں دیکھ رہے ہیں۔ فوج اب بھی ایک طاقتور وجود ہے، لیکن دیگر عوامل کے ظاہر ہونے سے اس کے اختیار میں کمی واقع ہوئی ہے۔ یہ صرف جیو کو بند کرسکتی ہے، کہ وہ ایسا کرسکتی ہے۔ میں اس کو ایک پیش رفت قرار دیتا ہوں۔‘‘

تاہم حاضرین میں سے ایک خاتون طالبعلم نے ان کے نکتہ نظر کو چیلنج کرتے ہوئے سوال کیا کہ اس ملک میں حقیقی معنوں میں آخری ضرب کون لگائے گا۔

خاتون طالبعلم نے کہا ’’یہ کیانی تھے، جنہوں نے چیف جسٹس اور عدلیہ کو بحال کروایا تھا، اور یہاں تک کہ فوج اب بھی ملک میں ہونے والی تمام اہم سیاسی پیش رفت کے پس پردہ موجود ہے۔‘‘

تبصرے (1) بند ہیں

محبوب حسین عالمگیر Aug 22, 2014 01:30am
پاکستان وہ عظیم خطہ ہے جس پر اللہ کی بہت سی عنایات رہی ہیں. اور اس خطے میں بسنے والے انسان ایسے بدقسمت ہیں جو اپنے ہی محسنوں کا گلہ کاٹ دیتے ہیں. اپنی تباہی پر جشن اور دوسروں کی غلام ہونے پر اتراتے ہیں. آج ہم ایسے بیوقوفوں کے ٹولے کے ہاتھوں یرغمال بنے ہوئے ہیں. جن کو عوام اُن کے معاملات، مسائل اور درد سے کوئ واسطہ نہیں. کوئی جاتی امراء کا غلام، کوئی بنی گالا کا دیوانہ کوئی آیات کے پردے میں اور غریبوں کے لاشوں پر سیاست کی دال بیچ رہا ہے. نواز شریف نے اپنے آپ کو ثابت کر دیا کہ عقل و دانش کا اُس سے دور دور کا واسطہ ہی نہیں. اور قادری صاحب کو کوئی یہ بتائے کہ آپ کی باتیں بہت اچھی ہیں مگر ان کا تعلق عالمِ رویا سے ہے. ہمیں حقیقت پسند لوگوں کی ضرورت ہے. رہے عمران خان تو اُنہوں نے آج ایک فقرہ کہ کر اپنے آپ کو ان سب سے جُدا ثابت کر دیا کہ وہ مرد کا بچہ ہے جس نے امریکہ کے خلاف اُس کے شایانِ شان جملہ بول کر اُس کو بتا دیا کہ سبھی پائے اور بونگ کھانے والے بُٹ دماغ پاکستانی نہیں ہوتے.