دفاعی حکمت عملی کے نقصانات

23 اگست 2014
مصباح کے دفاعی انداز کے اثرات ہمارے جارحانہ انداز رکھنے والے بیٹسمینوں پر بھی پڑے ہیں -- اے ایف پی فوٹو
مصباح کے دفاعی انداز کے اثرات ہمارے جارحانہ انداز رکھنے والے بیٹسمینوں پر بھی پڑے ہیں -- اے ایف پی فوٹو

چند روز پہلے انگلینڈ اور سری لنکا نے مہمان ٹیموں، یعنی ہندوستان اور پاکستان کو ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار کیا- ان شکستوں پر دونوں ہی ملکوں میں کرکٹ کے شائقین، ماہرین اور سابق کرکٹرز کی جانب سے اپنی اپنی ٹیموں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے-

ہندوستان کی شکست پر جہاں بہت سے سابق عظیم کھلاڑیوں نے ٹیم کے اراکین کو آڑے ہاتھوں لیا ہے تو چند شائقین نے تو ہندوستانی کھلاڑیوں کے معاوضے (جو کہ چند حلقوں کے نزدیک بہت زیادہ ہیں) میں کٹوتی کرنے کا بھی مطالبہ کیا ہے- یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہندوستانی کھلاڑی دنیائے کرکٹ میں سب سے امیر و کبیر سمجھے جاتے ہیں اور خاص طور پر آئی پی ایل کے بعد سے تو ان کی دولت میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے-

دوسری جانب پاکستان کی شکست پر بھی جاوید میانداد، ظہیر عباس، عبدالقادر اور محسن حسن خان سمیت بہت سے دیگر سابق کھلاڑیوں نے افسوس کا اظہار کیا ہے اور ٹیم کے کھلاڑیوں سے زیادہ بہتر پرفارمنس کا بھی مطالبہ کیا ہے-

دونوں ٹیموں کی شکست میں جہاں بلے بازوں کی ناقص کارکردگی سمیت چند دیگر عوامل بھی کار فرما تھے، وہیں دونوں ٹیموں کے کپتانوں کی دفاعی حکمت نے بھی ان ٹیموں کی شکست میں اہم کردار ادا کیا-

ایک جانب ہندوستان کے عظیم ترین کپتانوں میں سے ایک ایم ایس دھونی ہیں جو کہ اپنی ٹیم کو بہت سی فتوحات دلا چکے ہیں جن میں ٹی 20 ورلڈ کپ اور ون ڈے ورلڈ کپ کی فتوحات کے علاوہ اپنی ٹیم کو ٹیسٹ رینکنگ میں پہلی پوزیشن دلانا بھی شامل ہے- تاہم ناقدین کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ عرصے میں دھونی خاصی حد تک ایک لگے بندھے انداز سے کپتانی کرنے والے کپتان بن چکے ہیں- چند ہندوستانی کرکٹ ماہرین کے مطابق، دھونی ان کامیابیوں کے بعد، بہت حد تک خود سر ہو چکے ہیں اور وہ اپنے انداز کپتانی میں کسی بھی قسم کی تبدیلی لانے کو تیار نہیں-

یہ دلیل خاصی بھرپور معلوم ہوتی ہے کیونکہ اگر دیکھا جائے تو دھونی نے اپنی کپتانی کے ابتدائی دنوں میں جس جارحانہ انداز سے دنیاۓ کرکٹ میں اپنی دھاک بٹھائی تھی اب وہ انداز دیکھنے میں نہیں آ رہا- حالیہ دورہ انگلینڈ کے دوران، دھونی کی ٹیم نے لارڈز کے تاریخی میدان پر دوسرے ٹیسٹ میں ایک شاندار کامیابی حاصل کر لی تھی جس کا سہرا بجا طور پر ان کے طویل قامت فاسٹ بولر اشانت شرما کے سر جاتا ہے جنہوں نے اپنی تیز اور شارٹ پچ بولنگ سے انگلینڈ کی مظبوط بیٹنگ لائن اپ کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے تھے-

اس ٹیسٹ میں فتح کے بعد، امید کی جا رہی تھی کہ انڈیا کی ٹیم کا حوصلہ مزید بلند ہو گا اور وہ انگلینڈ کی ٹیم کو، جو کہ اس سے شکست کے علاوہ حال ہی میں سری لنکا سے بھی شکشت کا صدمہ جھیل رہی تھی، بالکل ہی پچھاڑ کر رکھ دے گی اور پہلی بار انگلینڈ میں سیریز جیتنے کا کارنامہ سر انجام دے گی- تاہم، آگے ہوا یہ کہ اشانت شرما زخمی ہو کر سائیڈ لائن ہو گئے اور انڈیا کے کپتان دھونی نے جارحانہ حکمت اپنانے کے بجائے یہ کوشش شروع کر دی کہ کسی طرح اگلے ٹیسٹ کو ڈرا کروا دیا جائے-

ان کے دفاعی انداز کا اندازہ اگلے میچوں میں ان کی ٹیم سلیکشن اور فیلڈنگ کے دوران ان کی فیلڈ پلیسنگز سے بخوبی لگایا جا سکتا تھا- انہوں نے اپنے پسندیدہ کھلاڑی رویندر جدیجہ کو مسلسل ٹیم میں شامل رکھا گو کہ وہ اپنی اسپن بولنگ سے انگلینڈ کے کھلاڑیوں پر کوئی تاثر چھوڑنے میں ناکام رہے تھے- انہوں نے اگلے میچوں میں وکٹیں حاصل کرنے کے لئے بولنگ کرنے کے بجائے مسلسل منفی بولنگ کرائی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگلینڈ کی ٹیم نے نہ صرف خود کو سنبھال لیا بلکہ اپنی پرفارمنس کو بہتر بناتے ہوئے اگلے تینوں میچوں میں ہندوستان کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا-

دوسری جانب پاکستان کی ٹیم کو بھی اپنے کپتان، مصباح الحق کی دفاعی حکمت عملی کا خمیازہ بھگتنا پڑا- ورنہ دیکھا جائے تو دونوں میچوں کی کے ابتدائی تین چار دنوں تک مقابلہ برابر کا ہوا تھا اور اگر پاکستان نے جارحانہ انداز سے اپنی پیش قدمی جاری رکھی ہوتی تو ان میچوں کا نتیجہ پاکستان کے حق میں بھی نکل سکتا تھا-

مصباح، جو اپنی سست رفتار بیٹنگ کی وجہ سے دنیائے کرکٹ میں "مسٹر ٹک ٹک" کے نام سے مشہور ہیں، اپنے دفاعی انداز اور حکمت عملی کو ٹیم پر بھی اپلائی کر دیا ہے حالانکہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان یو اے ای میں ہونے والی آخری ٹیسٹ سیریز کے آخری میچ میں جارحانہ حکمت عملی کے ثمرات کا مزہ، پاکستان کی جیت کی صورت میں چکھ چکے تھے- اس میچ میں جہاں پاکستان کی جارحانہ حکمت نے اپنا کردار ادا کیا تھا وہیں سری لنکا کے کپتان انجیلو میتھیوز کے دفاعی انداز کا بھی بہت بڑا ہاتھ تھا-

مصباح کے دفاعی انداز کے اثرات ہمارے جارحانہ انداز رکھنے والے بیٹسمینوں پر بھی پڑے ہیں ورنہ کیا وجہ ہو سکتی ہے کہ احمد شہزاد جیسے جارحانہ انداز سے کھیلنے والے کھلاڑی نے پہلے ٹیسٹ کی دوسری اننگز میں اظہر علی کے ساتھ سیٹ ہو جانے کے باوجود انتہائی سست رفتاری سے بیٹنگ کی؟ اس سست رفتاری کا نتیجہ یہ نکلا کہ جب یکے بعد دیگرے چند وکٹیں گریں تو اسکور بورڈ پر کوئی خطر خواہ اسکور نہ تھا اور آنے والے بیٹسمینوں پر بھی بے تحاشا دباؤ پڑا جسے وہ جھیل نہیں پائے اور ریت کی دیوار کی طرح ڈھے گئے اور پاکستان کو شکست ہوئی-

ایک دوسرے کے پڑوسی ان دونوں کپتانوں کو اپنے سے چھوٹے اور نسبتاً نئے کپتانوں سری لنکا کے انجیلو میتھیوز اور ساؤتھ افریقہ کے ہاشم آملہ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے جنہوں نے پچھلے میچوں میں اپنے جارحانہ انداز کپتانی سے ایسے میچوں میں کامیابی اپنی ٹیموں کے نام کی جو کہ ایک موقع پر ان کی گرفت سے نکلتے محسوس ہو رہے تھے- سری لنکا کے خلاف ٹیسٹ میچ میں آملہ نے جس طرح خلاف توقع تیزی سے رنز بنا کر اپنی اننگز ڈکلئیر کی تھی اس نے تمام کرکٹ ماہرین کو حیرت میں ڈال دیا تھا تاہم سب نے دیکھا کہ جارحانہ حکمت عملی کا مظہر ان کا یہ فیصلہ کتنا ٹھیک تھا کہ اس فیصلے کی وجہ سے ہی ان کی ٹیم کو کامیابی نصیب ہوئی-

اب دونوں ہی ٹیمیں اپنے دوروں میں ون ڈے مقابلوں میں میزبان ٹیموں کا مقابلہ کرنے کو تیار ہیں اور دونوں ہی کی کوشش یہ ہو گی کہ ون ڈے میچوں میں کامیابی حاصل کر کے ٹیسٹ سیریز کی شکست کا بدلہ چکا سکیں تاہم اگر ان کپتانوں کے بیٹسمینوں کی کارکردگی کا گراف بہتر نہ ہوا اور دونوں نے ون ڈے میچوں میں بھی اپنی دفاعی حکمت عملی اپنانے کے بجائے جارحانہ انداز نہیں اپنایا تو ون ڈے سیریز کا نتیجہ ٹیسٹ سیریز سے زیادہ مختلف ہونے کی توقع بہت کم ہی کی جا سکتی ہے-

تبصرے (0) بند ہیں