سچل سرمست: ہفت زبان شاعر

22 اگست 2014

سندھ کی سوہنی دھرتی میں جانے کیا دلکشی ہے کہ انگنت صوفیوں اور شاعروں نے ناصرف یہاں جنم لیا بلکہ متعدد بزرگ تو ایسے تھے جو صدیوں پہلے یہاں کھنچے چلے آئے اور پھر یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ سچل سرمست بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے ناصرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔ تصاویر: شامین خان

سچل سرمست نے اپنی شاعری میں اپنی خاندانی اور اس وقت کی مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو مسلم کا فرق مٹا دیا۔
سچل سرمست نے اپنی شاعری میں اپنی خاندانی اور اس وقت کی مذہبی روایات کو توڑ کر اپنی محفلوں میں ہندو مسلم کا فرق مٹا دیا۔
سچل سرمست کی پیدائش 1739 میں سابق ریاست خیر پور کے چھوٹے گاؤں درازا میں ایک مذہبی خاندان میں ہوئی، ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا،
سچل سرمست کی پیدائش 1739 میں سابق ریاست خیر پور کے چھوٹے گاؤں درازا میں ایک مذہبی خاندان میں ہوئی، ان کی صاف گوئی کو دیکھ کر لوگ انہیں سچل یعنی سچ بولنے والا کہنے لگے۔ بعد میں ان کی شاعری کے شعلے دیکھ کر انہیں سرمست بھی کہا گیا،
سچل سرمست ابھی کم عمر ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چچا نے ان کی پرورش کی اور وہی ان کے معلم بھی رہے۔ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم چچا ہی سے حاصل کی۔ گھر میں صوفیانہ ماحول تھا اسی میں ان کی پرورش ہوئی اور یہی ساری زندگی ان کے رگ و پے میں بسا رہا۔
سچل سرمست ابھی کم عمر ہی تھے کہ والدین کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ چچا نے ان کی پرورش کی اور وہی ان کے معلم بھی رہے۔ قرآن حفظ کرنے کے ساتھ ساتھ عربی، فارسی اور تصوف کی تعلیم چچا ہی سے حاصل کی۔ گھر میں صوفیانہ ماحول تھا اسی میں ان کی پرورش ہوئی اور یہی ساری زندگی ان کے رگ و پے میں بسا رہا۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زندگیوں میں ستر برس کا فاصلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ سچل ستر برس بعد جب صوفیانہ شاعری میں آئے تو ان کی وجدانیت بھی منفرد تھی،ان کے ساتھ صوفی ازم کی موسیقی نے بھی سرمستی کا سفر کیا اور شاہ بھٹائی کے نسبتاً دھیمے لہجے والے فقیروں سے سچل کے فقیروں کا انداز بیان منفرد اور بے باک تھا۔
شاہ عبد الطیف بھٹائی اور سچل سرمست کی زندگیوں میں ستر برس کا فاصلہ ہے، یہی وجہ ہے کہ سچل ستر برس بعد جب صوفیانہ شاعری میں آئے تو ان کی وجدانیت بھی منفرد تھی،ان کے ساتھ صوفی ازم کی موسیقی نے بھی سرمستی کا سفر کیا اور شاہ بھٹائی کے نسبتاً دھیمے لہجے والے فقیروں سے سچل کے فقیروں کا انداز بیان منفرد اور بے باک تھا۔
انہوں نے بنیادی عربی فارسی کی تعلیم اپنے خاندان کے بزرگ اپنے چچا مرشد اور سسر خواجہ عبدالحق سے حاصل کی اور ان کا کلام سندھی، اردو، فارسی، سرائیکی اور عربی میں موجود ہے۔
انہوں نے بنیادی عربی فارسی کی تعلیم اپنے خاندان کے بزرگ اپنے چچا مرشد اور سسر خواجہ عبدالحق سے حاصل کی اور ان کا کلام سندھی، اردو، فارسی، سرائیکی اور عربی میں موجود ہے۔
انہیں اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو سندھ میں ایک منفرد مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ کسی بھی محفل میں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو آج بھی سہارا سچل کا لیا جاتا ہے۔
انہیں اور ان کا کلام سنانے والے فقیروں کو سندھ میں ایک منفرد مقام اس لیے بھی حاصل ہے کہ کسی بھی محفل میں جب بھی مذہبی انتہا پسندی کو للکارا جاتا ہے تو آج بھی سہارا سچل کا لیا جاتا ہے۔
سچل سندھی زبان کے مشہور شاعر گزرے ہیں جو عرف عام میں ہفت زبان شاعر کہلاتے ہیں کیوں کہ آپ کا کلام سات زبانوں میں ملتا ہے۔
سچل سندھی زبان کے مشہور شاعر گزرے ہیں جو عرف عام میں ہفت زبان شاعر کہلاتے ہیں کیوں کہ آپ کا کلام سات زبانوں میں ملتا ہے۔
عادتاً خاموش طبع اور نیک طبیعت تھے، شریک حیات جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ پھر ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ اس لئے زیادہ تر تنہا اور ویرانوں میں دن گزارتے تھے۔
عادتاً خاموش طبع اور نیک طبیعت تھے، شریک حیات جوانی میں ہی انتقال کرگئی تھیں۔ پھر ان کی کوئی اولاد بھی نہیں تھی۔ اس لئے زیادہ تر تنہا اور ویرانوں میں دن گزارتے تھے۔
سچل سرمست بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے ناصرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔
سچل سرمست بھی ایسے ہی صوفی بزرگ شاعر ہیں جنہوں نے ناصرف سندھ کی سرزمین پر قدم رکھا بلکہ آخری سانس بھی اسی سرزمین پر لی۔
سچل سرمست کے عرس میں صرف سندھ کے علاقائی باشندے ہی شرکت نہیں کرتے بلکہ پاکستان کے باقی علاقوں کے علاوہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
سچل سرمست کے عرس میں صرف سندھ کے علاقائی باشندے ہی شرکت نہیں کرتے بلکہ پاکستان کے باقی علاقوں کے علاوہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے عقیدت مند بھی ہزاروں کی تعداد میں شرکت کرتے ہیں۔
سچل سرمست نے درازا شریف ضلع خیرپور میں ہی 1826 میں وفات پائی۔ ان کی درگاہ پر ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے، جبکہ عرس کے دنوں میں یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔
سچل سرمست نے درازا شریف ضلع خیرپور میں ہی 1826 میں وفات پائی۔ ان کی درگاہ پر ہر وقت زائرین کا ہجوم رہتا ہے، جبکہ عرس کے دنوں میں یہ تعداد لاکھوں تک جا پہنچتی ہے۔