ڈرامے کی آخری قسط

اپ ڈیٹ 23 اگست 2014
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔
لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔

سیاسی سوپ اوپیرا جو آج کل دارالحکومت میں کھیلا جارہا ہے، روزبروز زیادہ ہنگامہ خیز ہوتا جارہا ہے- ' انقلابوں' کے موسم میں بالکل اسکرپٹ کے مطابق یہ کہانی آہستہ آہستہ کھلتی جارہی ہے- یہ اسلام آباد میں مارچ کے ساتھ شروع ہوئی- اب ہم اس کا دوسرا حصہ دیکھ رہے ہیں: ' ریڈ زون ' پر دھاوا- اس کے بعد کیا؟ قانون کی مکمل شکست وریخت، نتیجتاً ایک ثالث کی ضرورت ہوگی، لیکن اس کے اختتام کے بارے میں کوئی بے یقینی نہیں ہے، اور یہ دوسرا حصہ کافی تشویشناک ہونے جارہا ہے-

اگر بھیانک نہیں، تو عجیب وغریب ضرور ہے- عمران خان طاقت کے گڑھ پر دھاوا بولنے اور فرسودہ نظام کو مٹانے آئے تھے، لیکن لگتا ہے کہ اس سودے میں خودان کا اپنا اور پارٹی کا سیاسی مستقبل نشانہ بن گیا- وہ اس کشتی میں چھید کررہے ہیں جو ان کو بھی ڈبو سکتی ہے- ان کا سول نافرمانی کا نعرہ جس کے بعد اسمبلیوں سے استعفے کا فیصلہ ایک اعلیٰ درجہ کا کھیل ہے جس میں بڑی چیزیں داؤ پر ہیں، جو وہ شاید کبھی نہیں جیت سکتے۔

ایسا لگتا ہے کہ عمران خان خود اوران کی پارٹی ایک بند گلی میں پھنس گئی ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے- حیرت اس بات پر ہے کہ بظاہر اس جنون کے پیچھے کیا عقلی دلیل ہوسکتی ہے- ایک بڑی سیاسی پارٹی کا رہنما اپنے فیصلوں میں اتنا لاپرواہ کیسے ہو سکتا ہے--- وہ فیصلے جو نہ صرف پورے نظام کیلئے خطرہ ہیں بلکہ سیاسی طور پر انہیں اور ان کی پارٹی کو تنہا کر سکتے ہیں؟

وہ ممکن ہے کہ کسی سوچے سمجھے منصوبہ اور تیار اسکرپٹ پر عمل کررہے ہوں، لیکن صورت حال ان کے ہاتھوں سے نکلتی ہوئی لگتی ہے- کیا اس کہانی میں کوئی نیا موڑ آسکتا ہے؟ اس کا کسی کو یقین نہیں ہے- ہمیں اس سیاسی ڈرامے کے خاتمے کا انتظار کرنا ہوگا جس نے دارالحکومت کو جکڑا ہوا ہے- اور اب تیزی سے بدلتی ہوئی صورت حال میں شاید اس میں زیادہ دیر بھی نہیں لگنی چاہئے-

ٹی وی اسکرین اور24/7 کے ہسٹیریا سے دور، پاکستان تحریک انصاف کے دھرنے کے زمینی حالات بالکل مختلف تھے- یہ دور دور تک اس' انسانی سمندر' کاعشر عشیر بھی نہیں تھا جس کا پارٹی کے لیڈروں نے اور کچھ ٹی وی کے مبصرین نے دعویٰ کیا تھا- اگلے پانچ دنوں تک، یہ ایک پارٹ ٹائم دھرنے میں بدل جاتا تھا جب احتجاج کرنے والے لوگ شام کو دوبارہ جمع ہوتے تھے--- تقریبا اس وقت جب ٹی وی کے پرائم ٹائم کا وقت ہوتا تھا--- اپنے لیڈروں کی نہ ختم ہونے والی لن ترانیاں، پس منظر میں گانوں اور موسیقی کا شوروغل ---- ماحول انقلابی جوش سے زیادہ میلے ٹھیلے کا تھا-

رہنماؤں اور سامعین کے درمیان اس سے زیادہ لاتعلقی کا مظاہرہ ممکن نہیں ہے- جہاں لیڈر حضرات دھرنے کے بعد رات گئے اپنی آرام گاہوں میں آرام کرنے کیلئے چلے جاتے تھے اور وہ لوگ جو دوسرے شہروں سے آئے تھے وہ بارش میں رات گذارنے کیلئے رہ جاتے تھے- اس جدوجہد کیلئے جس میں تبدیلی کا وعدہ کیا گیا تھا یہ انتشار اور بدنظمی کی ایک کیفیت تھی-

چند منٹ کے فاصلے پر سڑک کے اس پار ایک بالکل مختلف صورت حال تھی جہاں قادری صاحب ایک الگ دھرنا سجائے ہوئے تھے، ساری رات کی نگرانی چوکسی کے ساتھ جہاں لیڈر اپنے لوگوں کے ساتھ بالکل جڑا ہوا اور لوگوں کا اس سے بہت زیادہ بڑا مجمع اس سے بہت زیادہ منظم اوربڑے نظم و ضبط کے ساتھ موجود تھا-

جو چیز سب سے زیادہ متاثر کن تھی وہ خواتین کی بڑی تعداد میں شمولیت تھی اور ان لوگوں کی جو یقیناً نظریاتی طور پربہت زیادہ پرجوش تھے- قادری صاحب کی حمایت کرنے والے زیادہ تر نچلے مڈل کلاس کے پڑھے لکھے افراد ہیں- یہ مذہبی اور سیاسی حامیوں کا ایک ملا جلا طبقہ ہے- ان کے بے حد سوالیہ پس منظر کے لحاظ سے ایسی عقیدت مندی اور حمایت یقیناً حیرت انگیز ہے-

ایک جذبات بھڑکانے والا زبردست مقرر، قادری نے عمران خان کو اپنے جذباتی اور بھڑکیلے انداز سے پیچھے چھوڑ دیا ہے- وہ اپنے آپ کوایک انقلابی کہتے ہیں جو'' مارکس اور لینن کا پیرو ہے لیکن اسلامی جھلک کے ساتھ"- ان کا انقلابی منشور ایک ' خیالی معاشرہ ' کا تصور پیش کرتا ہے جہاں ہر شخص برابر ہوگا- ان کے برخلاف، جو چیز کپتان بھول گئے ہیں وہ یہ ہے کہ سیاست کرکٹ کا کھیل نہیں ہے- قادری صاحب کا تعلق انتخابی سیاست سے نہیں ہے لہٰذا ان کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہے، اب اس چپقلش کا نتیجہ خواہ کچھ بھی ہو-

لیکن سب سے زیادہ معنی خیز بات اس منظر سے وزیراعظم کی مکمل غیرحاضری ہے، جس میں وہ ولین کے طور پر سمجھے جارہے ہیں- وہ 14 اگست کی یوم آزادی کی تقریبات کے بعد سے نظر نہیں آئے جس میں ان کے بیزار چہرے کا تاثر محسوس کیا جاسکتا تھا- وہ کبھی کبھی خبروں میں اپنے بھائی کے ساتھ نظر آتے ہیں مگر جلدی میں- اورعمران خان/ قادری کے چیلنج کی وجہ سے زیادہ غیر فعال نظر آتے ہیں- حکومت کے خلاف مارچ میں فوج کی حمایت کے شبہہ کی وجہ سے ان کا جمود بڑھ گیا ہے-

ان کا الزامات کی تحقیقات کیلئے سپریم کورٹ کا کمیشن بنانے کا فیصلہ نہ صرف یہ کہ بہت تاخیر سے آیا، بلکہ کچھ قانونی مسائل اور آئینی موشگافیوں کی وجہ سے اس کا نافذ ہونا مشکل ہے- عمران خان اور قادری صاحب دونوں نے مذاکرات کیلئے سارے راستے بند کردیے ہیں-

جوں جوں نظام کو لاحق خطرات حقیقت میں بدل رہے ہیں نئی سیاسی وابستگی ظہور پذیر ہورہی ہے- تمام سیاسی جماعتوں نے نئی صف بندیاں شروع کردی ہیں- یہاں تک کہ جماعت اسلامی نے بھی جو پی ٹی آئی کی واحد سیاسی اتحادی ہے، وہ بھی اس کی اسمبلیوں کو چھوڑنے اور سول نافرمانی کے نعرے کی حمایت نہیں کررہی۔

لگتا ہے پی ٹی آئی کی مہلک سیاست نے نواز شریف کو اپنی صفوں کو دوبارہ ترتیب دینے کی مہلت مہیا کردی ہے- پارلیمنٹ کی حمایت اب بھی ان کی سب سے بڑی طاقت ہے بشرطیکہ وہ اپنی گہری نیند سے جاگ جائیں- لیکن جیسے جیسے وہ مشکلات کی دلدل میں پھنستے جاتے ہیں شاید اب بہت دیر ہو چکی ہو اور ان کے پاس اب بہت زیادہ مواقع نہیں بچے ہوں، اور دوسری سیاسی طاقتوں کی مدد بھی شاید کافی نہ ہو- طاقت کا توازن پہلے ہی راولپنڈی کے پلڑے میں جاچکا ہے-

ایک مرتبہ پھرپاکستانی سیاست نے ایک انوکھا موڑلے لیا ہے بالکل اس وقت جب جمہوری ضابطوں کے قدم جما لینے کے بارے میں امیدیں بار آور ہونے لگی تھیں- اب اس آخری میلوڈرامہ کا جو بھی انجام ہو- اس نے پاکستانیوں کی آخری ہلکی سی امید کوبھی ریزہ ریزہ کردیا ہے- یہ اعتماد، جو شہریوں اورہمارے بارے میں عالمی تصور کیلئے بے حد اہمیت کا حامل تھا، اسے کپتان صاحب نے توڑدیا ہے اور پاکستان کی پہلے سے خون سے بھری سیاست پر گہرے زخموں کے نشان چھوڑے ہیں-

اس تنازعے نے جو خلا پیدا کیا ہے وہ ان گھڑ سواروں سے بھرے گا جو پہلے سے تیار کھڑے ہیں- شریف صاحب تو اپنی رعونت، نالائقی اور سب سے زیادہ اہم فوج سے اپنے اختلافات کی قیمت ادا کررہے ہیں- فوجی بوٹوں کی گونج اورتیز ہوتی جارہی ہے، اور ملک عدم استحکام اورغیر یقینی کی دلدل میں دھنستا جا رہا ہے-

انگلش میں پڑھیں۔

ترجمہ: علی مظفر جعفری


لکھاری مصنف اور صحافی ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @hidhussain کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 20 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

ali Aug 24, 2014 01:55pm
Imran khan ki shadi kra dou -- dharna khatam ho jay ga.