پی ٹی آئی کی خالی دھمکیاں

اپ ڈیٹ 23 اگست 2014
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

آئیں سول نافرمانی کی کال کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی نے جو دھمکیاں دی ہیں، ان کا جائزہ لیتے ہیں۔ پی ٹی آئی نے کہا ہے، کہ عوام بجلی اور گیس کے بل نہیں دے گی، اور اگر مرکز نے خیبر پختونخواہ کی بجلی کاٹی، تو وہ تربیلا ڈیم سے بجلی کی سپلائی منقطع کر دیں گے۔

میں سوچ رہا ہوں، کہ کیا خیبر پختونخواہ کے وزیر اطلاعات مشتاق غنی، جنہوں نے یہ دھمکی دی ہے، کبھی تربیلا ڈیم گئے بھی ہیں یا نہیں۔ ڈیم کا ایک بہت بڑا بجلی گھر ہے، جس کی جنریشن 3500 میگاواٹ ہے۔ اس کی ڈاؤن سٹریم میں غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پروجیکٹ بھی ہے، جو 1300 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

دونوں بجلی گھروں کا انتظام واپڈا کے پاس ہے، جو کہ ایک وفاقی ادارہ ہے۔ ان بجلی گھروں سے پیدا ہونے والی بجلی کو دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر پشاور سے برہان تک کئی گرڈ اسٹیشنز کو پہنچایا جاتا ہے۔ گرڈ اسٹیشنز اور انکا ٹرانسمیشن کا نظام نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) سنبھالتی ہے، جو ملک کی آٹھ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکو) کو فروخت کر دیتی ہے۔

کسی بھی مقام پر یہ بجلی پی ٹی آئی یا کے پی کے حکومت کے زیر انتظام کسی آفس یا سسٹم سے نہیں گزرتی۔ تو آخر پی ٹی آئی تربیلا ڈیم سے بجلی کی فراہمی کیسے منقطع کر سکتی ہے؟ واپڈا اور این ٹی ڈی سی دونوں وفاقی ادارے ہیں، اور وہ وزارت پانی و بجلی کو رپورٹ کرنے کے پابند ہیں، نہ کہ پی ٹی آئی اور خیبر پختونخواہ کے احکامات ماننے کے۔

وہ اپنی اس دھمکی پر صرف تب عمل کر سکتے ہیں جب وہ تربیلا پاور ہاؤس کے اندر گھس کر اسے شٹ ڈاؤن کر دیں، یا ٹرانسمیشن انفراسٹرکچر کو سبوتاژ کر دیں، یہ ایسی دھمکیاں ہیں جنہیں شاید کوئی بھی سنجیدگی سے نہ لے۔

ایک اور مثال۔ پی ٹی آئی کی قیادت کہ رہی ہے، کہ پارٹی کی جانب سے دی گئی سول نافرمانی کی کال کے بعد خیبر پختونخواہ حکومت اپنے شہریوں سے ٹیکس وصول نہیں کرے گی۔ خیبر پختونخواہ کے بجٹ پر صرف ایک سرسری سی نظر دوڑا لینے سے اندازہ ہوجاتا ہے، کہ ایسا کرنا ممکن نہیں ہے۔

صوبے نے رواں مالی سال کے اخراجات کے لیے 404 ارب روپے مختص کیے ہیں، جبکہ آمدنی کا تخمینہ بھی 404 ارب روپے لگایا ہے۔ کل آمدنی میں سے صوبائی حکومت کی جانب سے وصول کیے جانے والے ٹیکسز صرف 25 ارب روپے ہیں۔ صوبائی حکومت کو سب سے زیادہ ریونیو وفاقی حکومت کی جانب سے وصول کیے گئے ٹیکسز میں سے قومی مالیاتی ایوارڈ (این ایف سی ایوارڈ) کے تحت حصّے کے طور پر ملتا ہے۔

تو اگر خیبر پختونخواہ حکومت ٹیکس وصول کرنے بند کر دے، تو سب سے زیادہ نقصان کسے ہو گا؟ خود صوبائی حکومت کو، اور پھر اسے کچھ بنیادی سوالوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ریونیو کم ہو گا، تو کیا وہ اپنے خرچے بھی اسی حساب سے کم کرے گی؟ اگر ہاں، تو کیا وہ سرکاری ملازمین جن میں ٹیچرز، پولیس، اور سیکرٹریٹ اسٹاف شامل ہیں، کی تنخواہیں بند کرنے کے لیے تیار ہے؟ یا وہ ترقیاتی اخراجات کو کم کریں گے جن سے کچھ انتہائی چھوٹے لیول کے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس پر کام رک جائے گا، اور جب کام دوبارہ شروع ہوگا، تو زیادہ قیمت بھرنی پڑے گی؟

وہ حکومت چلاتے ہوئے بلز کی ادائیگی جاری رکھ سکتے ہیں، پر اس سے وہ اسٹیٹ بینک کے ساتھ اوور ڈرافٹ میں بھی جا سکتے ہیں۔ انھیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ماضی میں اسٹیٹ بینک نے یہ دیکھ کر کہ صوبائی حکومتیں اپنے مالیاتی معاملات صحیح نہیں چلا رہیں، ان کے چیک باؤنس کر دیے تھے۔

پھر وہ بجلی اور گیس کے بلوں کی وصولی روکنے کی دھمکی دیتے ہیں۔ پہلی بات یہ، کہ بل وصول کرنے کا اختیار پشاور الیکٹرک سپلائی کمپنی کے پاس ہے، جو کے وفاقی حکومت کے ماتحت کام کرتی ہے، اور بل کی وصولی روکنے کا حکم صرف وفاقی حکومت ہی جاری کر سکتی ہے۔ اگر بڑی تعداد میں صارفین بلوں کی ادائیگی روک دیں، تو ہم یہ کہ سکتے ہیں کے عوام ان کی سول نافرمانی کی کال کا بھرپور جواب دے رہے ہیں، پر اگر وہ بل بھرنا بند نہ کریں، تو مطلب کہ انھیں ان کے اپنے ہی حلقے میں نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

لیکن زیادہ اہم بات یہ ہے، کہ خیبر پختونخواہ میں بلوں کی وصولی روکنے کے اثرات کیا ہوں گے؟ ڈسٹری بیوشن کمپنی نیشنل گرڈ سے 45۔10 روپے کی اوسط قیمت پر تقریباً 7000 یونٹ خریدتی ہے، اور اسے سب ملا کر اپنے تقریباً 30 لاکھ صارفین کو فروخت کر دیتی ہے۔ قیمتوں میں فرق کو دیکھا جائے، تو اسے 164 ارب روپے سیلز ریونیو میں حاصل ہوتے ہیں، جبکہ 35 ارب روپے کی سبسڈی دی جاتی ہے۔

کیا پی ٹی آئی سے کوئی مجھے یہ بتا سکتا ہے کہ اگر پیسکو بل وصول نہیں کرے گی، تو وہ بجلی کیسے خرید پائے گی۔ کیا کمپنی بجلی ادھار لے گی، یا یہ سب بحران ختم ہوجانے کے بعد صارفین سے تمام بقایا جات وصول کرے گی۔ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ کمپنی نے حال ہی میں پشاور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے برے اثرات جھیلے ہیں، جس کے تحت اسے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ وصول کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کو سپریم کورٹ نے رواں سال اپریل ہی میں کالعدم قرار دیا ہے۔

کمپنی کے مالی معاملات کو پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہے، اور اس پر بس نہیں، خیبر پختونخواہ نے خود ہی 2011 میں رٹ پٹیشن فائل کی تھی۔ اب جبکہ سارا مسئلہ سلجھ گیا تھا، تو وہ خود بلوں کی وصولی روکنے کی اپیلیں کر رہے ہیں۔

جو دھمکیاں دی جا رہی ہیں، اور جو مطالبات پیش کیے جا رہے ہیں، وہ حقیقت سے کافی دور ہیں۔ ایسا کوئی راستہ موجود نہیں ہے، جس سے پارٹی یا خیبر پختونخواہ حکومت اپنی ان دھمکیوں پر عمل کر سکے، اور پھر ان کے نتائج کو برداشت کر سکے۔ پریشانی کی بات یہ ہے، کہ سینئر سیاسی شخصیات، جو صوبائی حکومت چلانے کے لیے ذمہ دار ہیں، وہ ایسی بات کر رہے ہیں۔ یہ اپنے دشمن کو نقصان پہنچانے کے لیے اپنی ناک کاٹنے کے مترادف ہے۔

اس سے بھی زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے، کہ یہ دھمکیاں سنجیدہ نہیں ہیں۔ اس طرح کی سیاست پی ٹی آئی کا اپنے بنائے ہوئے امیج سے مکمّل طور پر مختلف ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ تھا کہ وہ گڈ گورننس لائے گی، اور معیشت کی بہتری کے لیے پروفیشنلزم کا مظاہرہ کرے گی۔ لگتا ہے کہ یہ سب صرف باتیں ہی تھیں۔

ایک ایسی پارٹی کے لیے، جو پہلی بار معیشت کی بہتری کے لیے ویژن ڈاکومنٹ بنانے کا فخر رکھتی ہے، اور جس نے حکومت کی معاشی کارکردگی پر وائٹ پیپر بھی جاری کیا، وہ اب توانائی کے شعبے اور ٹیکس کے بارے میں ایسے رویے کا مظاہرہ کرے، یہ بالکل اپنے اصل رنگ دکھانے جیسا ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔ وہ ٹوئٹر پر @khurramhusain کے نام سے لکھتے ہیں۔

[email protected]

یہ مضمون ڈان اخبار میں 21 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

hammad Aug 24, 2014 12:59pm
Many things unveiled just in simple words. Better PTI could realise them all and reorganise its aims.