سیاست میں شک کی گنجائش

23 اگست 2014
شکوک کے ساتھ ساتھ ان افواہوں کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری اصل میں ہماری  اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں۔
شکوک کے ساتھ ساتھ ان افواہوں کو بھی تقویت مل رہی ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری اصل میں ہماری اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں۔

گزشتہ دو ہفتوں سے مسلسل پاکستانی عوام کو ایک بار پھر ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلا کر دیا گیا ہے۔ دارالحکومت اسلام آباد میں پارلیمنٹ ہاؤس کے گراؤنڈ کو میدان کارزار بنا دیا گیا ہے۔ عمران خان کی تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہرالقادری کی عوامی تحریک نے اپنے اپنے کارکنوں کو وہاں جمع کردیا ہے اور ان کےشور کے زور پر حکومت پاکستان اور ریاست کے دوسرے اداروں سے وہ کام کروانے پر مصر ہیں جو بظاہر ناممکنات میں دکھائی دیتا ہے۔

ان دونوں رہنماؤں کی گفتگو ہر دن گزرنے کے ساتھ ساتھ تلخ ہوتی جاتی ہے اور خدشہ ہے کہ سیاسی عدم برداشت کا یہ رویہ کہیں وہ نہ کردے جس سے پورے ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہونے کا اہتمام ہو۔

انفرادی یا پھر قومی امن کے لیے سب سے بڑا خطرہ خود کو سب سے 'پویتر' سمجھنا اور اپنے خیالات کو سب سے معتبر گرداننا ہوتا ہے۔ ہماری اصل بدقسمتی ہمارے سیاسی رہنما نہیں بلکہ وہ رویّے ہیں جن کو گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران پاکستان میں پروان چڑھایا گیا ہے۔ یہ ایک ایسا رویّہ ہے جس کی رو سے َصرف ’’ہم صحیح‘‘ ہیں اور باقی ساری دُنیا غلط کا سفاکانہ نظریہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ قومی مغالطہ انفرادی سطح پر بھی ہر جگہ کارفرما ہے۔ اس رویّے نے ہمارے اندر طالبان جیسی مخلوق پیدا کردی ہے جو اپنے سوا کسی کو بھی حق پر نہیں سمجھتے۔ یہی رویّہ ہماری سیاست میں بھی در آیا ہے۔

عمران خان کا دعویٰ ہے کہ گزشتے سال کے انتخابات سرتا پا دھاندلی پر مبنی تھے۔ وہ اس دعوے پر اس قدر آگے جا چکے ہیں کہ کئی بار قانونی اور آئینی حدود بھی پار کردی ہیں۔ اپنے اس دعوے کے ثبوت میں وہ کوئی مستند دستاویز پیش نہیں کرسکے ہیں اور مسلسل ان لوگوں پر برستے ہیں جو عمران خان کی بات کی توثیق اسی طرح نہیں کرتے جس طرح وہ چاہتے ہیں۔

آئے روز عمران خان کا لہجہ تلخ سے تلخ تر ہوتا جاتا ہے۔ وہ اب شریف برادران کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی جماعتوں پر بھی برسنے لگے ہیں۔ صرف یہ نہیں بلکہ امریکہ اور بھارت کو بھی للکارنے لگے ہیں۔ اگر کوئی آپ کے غضب سے بچا ہے تو وہ افواج پاکستان ہیں۔ اس سے کئی شکوک کے ساتھ ساتھ ان افواہوں کو بھی تقویت ملتی ہے کہ عمران خان اور طاہرالقادری اصل میں ہماری بدنام زمانہ اسٹیبلشمنٹ کے مہرے ہیں جن کو نواز شیریف پر دباؤ بڑھانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔

امریکہ کو للکارنے کے ساتھ ساتھ عمران خان صاحب نے اپنے پیروکاروں کو سول نافرمانی پر بھی اکسایا ہے۔ صرف یہ نہیں بلکہ اس ضدّی شہزادے نے تو یہ اعلان بھی کر رکھا ہے کہ وہ حکومت میں آنے کے بعد دوسرے ملکوں کے پاکستان پر قرضے واپس نہیں کریں گے۔

عمران خان کی باتوں اور لہجے سے عیاں ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈر کس قدر ناپختہ اور دنیا سے نابلد ہیں۔ اس قبیل میں عمران خان اکیلے نہیں ہیں بلکہ نواز شریف کا ماضی بھی کوئی شاندار نہیں رہا ہے۔ انہوں نے بھی عدالت عظمیٰ پر چڑھائی کی تھی اور آپ نے بھی ایک فوجی ڈکٹیٹر کی گود میں سیاسی پرورش پائی ہے۔ نواز شریف بھی ایک متکبّرانہ غفلت کے شکار رہے ہیں۔

لیکن موجودہ بحران میں اور حالیہ تاریخ کے تناظر میں دیکھا جائے تو نواز شریف عمران خان سے معتبر پوزیشن پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ اس میں نواز شریف کا ظرف بھی شامل ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ موجودہ بحران میں ملک کے معتبر ترین ادارے پارلیمنٹ اور عدلیہ نواز شریف کے ساتھ کھڑے ہیں۔

اس پر بحث کی گنجائش ہے کہ مذکورہ ادارے خود کتنے معتبر ہیں۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ ہمارے پاس رہے سہے ادارے تو یہی رہ گئے ہیں اور اگر ان کو بھی نہ مانا جائے تو متبادل کیا ہے۔ یہ ہمیں کوئی نہیں بتاتا۔

عمران خان اور اس کے کارکن ہمیں باور کراتے ہیں کہ وہ اور ان کے ساتھی ہی وہ لوگ ہیں جو ان اداروں کی تشکیل نو کرسکتے ہیں۔ مگر کیا کریں خان صاحب کی ہر بات ’’میں‘‘ سے شروع ہوتی ہے اور ’’میں‘‘ پر ہی ختم ہوتی ہے۔ وہ اتنی شدید نرگسیت کے شکار ہوچکے ہیں کہ ان کو اپنے علاوہ کوئی بھی شخص ’ شخص‘ نظر نہیں آرہا۔ عمران خان کے پس منظر پر اگر نظر ڈالا جائے تو ہمیں کہیں بھی دقیق مطالعہ، تفکّر یا تدبّر نظر نہیں آتا۔ کرکٹ کے استعاروں میں ایک متشدّد سیاسی گفتگو کرنا خان صاحب کی علامت بن چکاہے۔

’’تبدیلی‘‘ اور ’’انقلاب‘‘ کے یہ دعویدار ہمیں نہیں بتاتے کہ ان کی تبدیلی کیسی ہوگی اور اس کی بنیاد کیا ہوگی۔

آئین کو تبدیل کرنے کی باتیں ہورہی ہیں، ایک نئے ’’سوشل کنٹریکٹ ‘‘کی باتیں ہورہی ہیں لیکن ہمیں نہیں بتایا جارہا کہ یہ معاہدہ کس طرح کا ہوگا اور اس پر کب سے اور کن کن لوگوں نے تفکر شروع کیا ہے؛ ہمیں یہ نہیں بتایا جارہا کہ موجودہ آئین جو پاکستان میں صرف مسلمانوں کا طرفدار ہے اور جس کی کئی شقیں بین الاقوامی روایات اور اقدار کی نفی کر رہی ہیں، کو تبدیل کیا جارہا ہے کہ نہیں۔

ایک نئے سوشل کنٹریکٹ کے لئے سالوں کا تفکر، تدبر اور ریاضت چاہیے۔ کیا عمران خان اور طاہرالقادری نے کبھی ایسا کیا ہے؟

محض تبدیلی اور انقلاب کے مبہم نعروں سے چند نوجوان لڑکوں، لڑکیوں اور مریدوں کو بےوقوف تو بنایا جاسکتا ہے مگر عوام کو متحرک ہر گز نہیں کیا جاسکتا۔

ہماری تاریخ گواہ ہے کہ نوزائیدہ ریاست پاکستان میں 25 سال جگھڑے اس پر ہوتے رہے کہ پاکستان کا آئین صرف ’’مسلمان‘‘ ہو یا پھر ’’تکثیری‘‘۔ ملک کا آدھے سے زیادہ گنوانے کے بعد ہی کسی دستور پر اتفاق ہوا جو جیسا بھی ہے قبول کر لینا چاہیے اور اس کو تبدیل کرنے کی کوشش اسی کے اندر رہ کر کی جائے۔ ہم بحثیت قوم کسی دوسرے سوشل کنٹریکٹ کے نہ تو متحمل ہوسکتے ہیں اور نہ ہی ہم میں یہ اہلیت ہے۔

بیسویں صدی کے ایک بڑے مفکر برٹرنڈ رسل نے کہا تھا کہ ’’سیاسی تشکیک‘‘ دنیا کے امن کا ضامن ہوسکتا ہے۔ یہ تشکیک فرد کو انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر انتہا پسندی سے بچاتی ہے۔ ہمارے معاشرے میں ہر ایک اپنی بات کو حرف آخر سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر فرد نے دوسروں کو اپنے طور پر سدھارنے کا بیڑا اٹھایا ہے۔ یہیں سے امن و آشتی ختم ہوجاتی ہے۔ سیاسی طور پر بھی ہمارے یہ لیڈران اپنے اپنے فکری زاویے کو چھوڑنے پر تیار نہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایک سیاسی جماعت فرقے کی روپ دھارتی ہے۔ پاکستان میں اب فرقے اور سیاسی پارٹی میں کوئی فرق نہیں رہا۔

اس کا جدید نمونہ طاہرالقادری کے فرقے کا سیاست میں آنا ہے۔ اس طرح اگر کوئی موجودہ سیاسی بحران میں عمران خان کی رائے سے اختلاف کرے تو خان صاحب کے پیرو کار غداری کے فتووں کے ساتھ ساتھ غلیظ گالیوں پر بھی اتر آتے ہیں اور ایک میٹرک پاس ملک کے کسی دانشور یا کہنہ مشق صحافی کی ماں بہن ایک کرنے پر تل جاتا ہے۔ اس کی بڑی وجہ عمران خان صاحب کا اپنا روّیہ ہے۔ اس سے کوئی صحافی اگر اختلاف کرے تو خان صاحب نہ صرف اس کے بارے میں نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں بلکہ اس کو غدار کہنا شروع کردیتے ہیں۔ مثال کے طور پرعمران خان صاحب کی طرف سے سینئر صحافی طلعت حسین کے بارے میں نازیبا الفاظ ملاحضہ کریں۔

اپنے پر شک کی گنجائش نہ چھوڑنا انتہا پسندی کی طرف لے جاتا ہے۔ عمران خان کا بے لچک مطالبہ کہ وزیر اعظم استعفیٰ دیدیں اگر غیر آئینی نہیں تو ’’سیاسی انتہا پسندی‘‘ ضرور ہے جہاں بیچ بچاؤ کرنے والوں کے پاس کوئی آپشن ہی نہیں رہ جاتا۔

الیکشن سے پہلے ایسا لگتا تھا کہ عمران خان کی نیت اچھی ہے۔ شاید اب بھی ہو اگر چہ ان کے چہرے کا گھمنڈ اور مکارانا مسکراہٹ اب کسی نفسیاتی کشمکش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ ایسے لوگوں میں گھرے ہیں جن کا کام صرف خوشامد کرنا ہوتا ہے۔

تبصرے (2) بند ہیں

shakeel khan Aug 26, 2014 02:18pm
In the whole Article he criticize Imran Khan and its attitude. Fair enough, because they don't want to come out of the status quo, which is benefiting them most. Then the writer ask about Social Contract. I think writer needs to read Mr.Qadri 10 Points Agenda first before writing in scrap.
Salman Aug 26, 2014 11:15pm
Ik sab sirf apny ap ko farishta samjtay hay Jo in say agry nahi karta wo gad dar or wajib Qattal hay in ki nazro May Allah in ko hadayet day Amen