مانسہرہ: مبینہ ریپ کی شکار لڑکی نے جمعہ کے روز ایک پولیس اہلکار پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ اس کو اور اس کے خاندان کو معاملہ عدالت سے باہر طے نہ کرنے پر جان سے مارنے دھمکیاں دے رہا ہے۔

پندرہ برس کی اس لڑکی نے صحافیوں کو بتایا کہ جبوڑی میں اسکول سے گھر جاتے ہوئے ایک شخص نے اس کا ریپ کیا تھا، جس کے بعد اس نے انصاف کے حصول کے لیے شنکیاری پولیس سے رابطہ کیا، لیکن پولیس کے انوسٹی گیشن آفیسر نے بھی مانسہرہ کے ریسٹ ہاؤس میں لے جا کر اس کا ریپ کردیا۔

اپنے وکیل سعید احمد مشہدی اور والدین کے ہمراہ اس لڑکی نے کہا کہ وہ شخص جس نے جبوڑی میں اس کا ریپ کیا تھا، اس نے اس کی وڈیو بھی بنالی تھی اور اس کو دھمکی دی تھی کہ اگر اس کے خلاف کوئی بات کی تو یہ وڈیو پبلک میں پھیلادے گا۔

متاثرہ لڑکی نے کہا ’’میرے گھروالوں نے پہلے خاموش رہنے کا فیصلہ کیا لیکن بعد میں ریپ کرنے والے ملزم کے خلاف ایک مقدمے کی ایف آئی آر درج کروانے کے لیے پولیس سے رابطہ کیا۔ انوسٹی گیشن آفیسر نے مجھے اور میرے والد کو طبّی جانچ کے لیے مانسہرہ بلوایا، لیکن ہسپتال لے جانے کے بجائے وہ ہمیں ایک ریسٹ ہاؤس لے گیا اور میرے والدین کو باہر بھیج کر اس نے بھی میرا ریپ کیا۔‘‘

لڑکی نے بتایا کہ اس کی شکایت پر ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر مانسہرہ خرم رشید نے اس پولیس اہلکار کو معطل کرکے حوالات میں ڈال دیا۔

اس نے کہا ’’اب یہ پولیس اہلکار مجھے اور میرے گھروالوں کو عدالت سے باہر معاملہ طے نہ کرنے پر جان سے مارنے کی دھمکیاں دے رہا ہے۔‘‘

وکیل سعید احمد مشہدی نے کہا کہ ان کی مؤکلہ بہت غریب ہے اور اس مقدمے کی پیروی کرنے سے قاصر ہے، لہٰذا ڈی پی او کو چاہیٔے کہ جنسی زیادتی کرنے والے بااثر افراد کی سزاکو یقینی بناکر اس کو انصاف فراہم کریں۔

انہوں نے کہا کہ ان کی مؤکلہ سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر کراچی منتقل ہوسکتی ہے، اور اگر ایسا ہوا تو اس مقدمے پر بُرا اثر پڑے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں