لندن: برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے دعویٰ کیا ہے کہ عراق و شام میں سرگرم جنگجو تنظیم ریاست اسلامیہ (آئی ایس) نے امریکی صحافی جیمز فولی کو اغوا کرنے کے بعد اسے چھوڑنے کے لیے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔

ٹیلیگراف کی ایک رپورٹ کے مطابق آئی ایس نے جیمز فولی کے بدلے عافیہ صدیقی کا تبادلہ بھی اپنے مطالبات کی فہرست میں شامل کیا تھا جو کہ اس وقت ٹیکساس کی ایک جیل میں قید کاٹ رہی ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ عافیہ صدیقی کو القاعدہ سے منسلک سمجھتی ہے تاہم پاکستان اور افغانستان میں ان کی رہائی کا مطالبہ کئی بار سامنے آچکا ہے۔

برطانوی اخبار کا کہنا ہے کہ آئی ایس نے اس مطالبے کے ذریعے پاکستان اور افغانستان میں اپنی حمایت کو بڑھانے کی کوشش کی ہے کیونکہ اس صورتحال میں یہ تنظیم پاکستان اور افغانستان کے مذہبی حلقوں کی حمایت حاصل کر سکتی ہے اور طالبان بھی اس کی حمایت کر سکتے ہیں۔

رپورٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ عافیہ صدیقی کو 2008 میں افغان صوبے غزنی میں گرفتار کیا گیا تھا اور ان سے مبینہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کی دستاویزات اور دیگر چیزیں برآمد ہوئی تھیں، جن سے عندیہ ملتا تھا کہ وہ امریکی فوجیوں پر حملوں کی منصوبہ بندی کررہی ہیں۔

جب عافیہ سے امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں، جس کے بعد انہیں امریکہ بھیج دیا گیا جہاں پر انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ آئی ایس کی جانب سے جاری مطالبات کی فہرست میں عافیہ صدیقی کا نام شامل کرنا اسٹرٹیجک اور شاطرانہ چال ہے جسے افغانیوں اور پاکستانیوں کو عراق اور شام میں اپنے ساتھ شامل ہونے کے لیے دعوت کے لیے تیار کرنے کی ایک کوشش کہا جاسکتا ہے، جبکہ اس کے ذریعے وہ لوگوں کو مغرب کے زیرِ اثر مسلم ممالک میں لوگوں کو اپنی حکومتوں کی مذمّت پر مجبور کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

مصباح Aug 23, 2014 02:55pm
آج تک واضح نہیں ہو سکا کہ آخر عافیہ صدیقی کا القائدہ سے تعلق کیا تھا! ان کی بہن نے جو بیانات دئے وہ پورا سچ تو یقینا" نہیں ہے. دیگر زراٰئع سے پڑھا کہ وہ طالب علمی کے زمانے سے القائدہ کی امریکہ میں سرگرم رکن تھیں. اور اسی وجہ سے اپنے شوہر سے طلاق لے کر القائدہ کے سربراہ کے بھائ سے شادی کی. پاکستانی میڈیا کو سب تحفظات چھوڑ کر مکمل حقائق ہمارے سامنے لانے چاہیے.