ایک انقلاب کے قائد ایک مولانا صاحب ہیں، جبکہ دوسرے انقلاب کی قیادت ایک کرکٹر کر رہے ہیں۔ اب دونوں بیٹھے ہوئے ہیں، اور حکومت کے ساتھ سر لڑا رہے ہیں۔

ٹی وی پر دونوں دھرنوں کو دیکھنا ایک محنت طلب کام ہے۔

سب سے پہلے تو یہ، کہ ایک جیسے مطالبات اور ایجنڈوں میں فرق کرنا بہت مشکل ہے۔

یہ مٹھی بھر پاکستانیوں کے لیے آسان ہوگا، جن میں اکثریت ٹی وی اینکرز کی ہو گی، جو طاہر القادری اور عمران خان دونوں کے مطالبات توجہ سے سنتے ہیں۔ لیکن ہم جیسے دوسرے لوگوں کے لیے جن کی یادداشت کمزور ہے، انہیں ان دونوں جماعتوں کے شکووں کو الگ الگ رکھنے میں تھوڑی مشکل پیش آرہی ہے۔ انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ پاکستان تحریک انصاف کا ہے، جبکہ معصوم کارکنوں کے قتل عام کا اشو پاکستان عوامی تحریک کا ہے۔

دونوں جماعتوں کے کچھ سنجیدہ، اور مضبوط خدشات ہیں، لیکن مارچ کو دیکھتے رہنے سے ان دوسرے مسائل پر سے توجہ ہٹ رہی ہے، جو زیادہ شرمناک ہیں اور جن پر کم ہی بات کی جاتی ہے۔

افواہ ہے کہ پاکستانیوں کی ایک بڑی اکثریت مارچ کی مسلسل اور پر فریب کوریج دیکھنے کے چکّر میں اپنی معمول کی زندگی، جس میں کام، ٹیکسٹ میسجنگ، اور اپنے باسز اور سسرالیوں کی شکایات کرنے جیسے کام شامل ہیں، معطل کر چکی ہے۔

وہ دس دن سے ٹی وی کے سامنے بیٹھے، سکرین پر نظریں جمائے بڑی تبدیلی کی آمد کا انتظار کر رہے ہیں۔

سنا گیا ہے کہ کچھ لوگ تو اچانک کھانے کے دوران ٹی وی پر قومی ترانہ نشر ہوتے ہی کھڑے ہوجاتے ہیں، یا پھر کسی موقع پر انتہائی خوشی و مسرّت کے ساتھ تالیاں بجانے لگتے ہیں، جس سے ان کے گھر والے پریشان ہوجاتے ہیں۔

اس میں حیرت کی بات نہیں ہے، کہ جیسے جیسے انقلاب کا سفر اپنے تیسرے ہفتے میں داخل ہو رہا ہے، ویسے ویسے باہمی رشتے مشکلات سے دوچار ہو رہے ہیں، شوہر بیویوں پر، بچے والدین پر، بہنیں بھائیوں پر، اب غصے کا اظہار کرتے نظر آرہے ہیں۔

مارچ کے شرکاء کے پاس تو بھلے ہی باتھ روم کی سہولت موجود نہیں ہے، لیکن گھر پر مارچ دیکھنے والے کچھ قدم چل کر باتھ روم جانے سے بھی گریزاں ہیں، کہ کہیں ان کے ٹی وی کے سامنے سے ہٹتے ہی انقلاب نہ آجائے۔

یہ ہچکچاہٹ قدرتی ہے۔ آخر تبدیلی کے لیے اتنے دنوں، گھنٹوں، اور منٹوں تک انتظار کیا ہے، کالز اٹینڈ نہیں کیں، ای میلز کے جواب نہیں دیے، صرف اس لیے کہ کہیں انقلاب کی گھڑی چھوٹ نہ جائے۔

کچھ اور صورتحال جو اس مارچ سے پیدا ہوئی ہیں، وہ کھانے پینے سے متعلق ہیں۔ ایک دوست نے تو مارچ دیکھنے کے لیے کھانا بلکل چھوڑ ہی دیا ہے، جس سے شاید اسے اپنا وزن کئی پونڈ کم کرنے میں مدد ملے۔

ایک اور دوست نے مارچ کی فیشن کلیکشن بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کپڑے اتنی اچھی کوالٹی کے ہوں گے، کہ اگلے دھرنے کی پوری مدّت تک کام دے جائیں گے، جبکہ ان کے رنگ بھی با آسانی تبدیل کیے جا سکیں گے، تاکہ کسی دوسری جماعت کے دھرنے میں کام آجائیں۔

مقررین کی تقریروں کا مواد، ان کے شکوے، سب سنجیدہ ہیں۔ مارے جانے والے کارکنوں کا، یا انتخابات میں دھاندلی کا مسئلہ کوئی مذاق نہیں ہے۔ لیکن ان مسائل کو جب ٹی وی پر اٹھایا جاتا ہے، تو بیچ بیچ میں شیمپو، موبائل فون، اور باقی سب چیزوں کے اشتہارات بار بار دکھائے جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ پورا معاملہ ختم ہونے کے بعد جب زندگی معمول پر لوٹے گی، تو یہی کچھ تو خریدنا ہے۔

اب جب کے ٹی وی چینلز، اور تھکے ہارے اینکر پرسنز دو مارچوں کے درمیان جھول رہے ہیں، تو سکرینز کے سامنے بیٹھے ناظرین کے ذہنوں میں کنفیوژن جنم لے رہی ہے۔

کیا زندگی معطل رہنی چاہیے؟ یا اسے جاری رہنا چاہیے؟

کیا یہ واقعی جشن منانے کا وقت ہے جیسے عمران خان کہتے ہیں؟

کیا کرپشن کچھ ہی دن میں ختم ہو جائے گی جیسا کہ طاہر القادری وعدہ کر رہے ہیں؟

مارچ کو دیکھنے، سننے، حیرت زدہ، اور مشکلیں جھیلنے والے لاکھوں ناظرین کے ذہنوں میں بس سوالات ہی ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری: رافعہ زکریا

تبصرے (4) بند ہیں

آشیان علی Aug 25, 2014 09:34pm
ایک انقلاب کے لیڈر مولنا + سماجی ورکر+ سیاست دان جبکہ دوسرے کے رٹائرڈ کرکٹر موجودہ سیاست دان ہیں. سب سے اہم بات ٹی وی کوریج ہے ان انقلابون کی. اب وہ ٹائم آنے والا ہے پاکستان میں لوگ نیوز چینلز دیکھنا چھوڑ رہے ہیں. کارٹون ، ڈراما، میوزک اور مووی چینلز کی طرف بھی ٹیون کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے. مین خود بھی ٹام ایند جیری کو شوق سے دیکھتا ہوں. کچھ خدا کا خوف بھی نہیں ہے اتنی کوریج تو ظلم کے زمرے میں آتی ہے. ایسا ہی چلتا رہا تو تھکے ہارے اینکر پاگل ہو جائیں گے آکر پانی میں مدھانی کب تک کوئی چلا سکتا ہے .
saleem alam Aug 25, 2014 11:36pm
I think educated and sincere people already got fedup with the whole drama as leaders from both sides incl govt are using it for their own interests. None of them care about people,s loss.
Shariq Jamal Khan Aug 26, 2014 12:52pm
رافعہ اچھی تحریر پُر مزاح حقیقت کے قریب۔۔۔لیکن اگر سنجیدگی سے دیکھیں تو مطالبات تو درست ہیں لیکن منوانے کی لئے کی جانے والی حرکتیں اسلامی ریاست کے معنی سے متصادم ہیں۔۔۔ناچ گانا یا قوالیاں یا پھر ڈیڈٰلائن پر ڈیڈلائن نے انقلاب بپا کرنے والی کی قلعی پھاڑ(کھول) ہے۔ تلوں میں کتنا تیل ہے یہ بھی کپتان کی چیف جسٹس کولکھے گئے معذرت نامہ سے عیاں ہوگئی ہے۔۔۔لیکن جو بھی ہے نوجوانوں کو نئی راہیں ضرور مل رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انجوائے کرنے کی
Arshad Iqbal Aug 26, 2014 03:25pm
not for only enjoyment ... at least all parties will be much careful next time as this is no more PPP and PMLN darama remaining .... wo atay hain sub darama rachatay hain or kahi na kahi deal ker k nikal jatay hain ... aik determined leader hay jo acha kerna chahta hay hamaray Pakistan k liye .... Nawaz shareef ne socha ho ga k wo us ki terha dharna day ga or deal ker k chala jye ga jese us ki or PPP ki hoti thi .... but he is determined ... not ready for any deals, waiting for justice .... see how much time this justice will take .... ALLAH PAKISTAN PER APNA KARAM KARAY ... by the way the column was interesting :)