تجزیوں کا بخار

26 اگست 2014
ایک لڑکا عمران خان کے پبلسٹی ٹرک کے پاس اخبار فروخت کر رہا ہے۔ — فوٹو اے ایف پی
ایک لڑکا عمران خان کے پبلسٹی ٹرک کے پاس اخبار فروخت کر رہا ہے۔ — فوٹو اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے میں شریک ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی
پاکستان تحریک انصاف کی خواتین کارکنان پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنے میں شریک ہیں۔ — فوٹو اے ایف پی

آزادی اور انقلاب مارچ نے میڈیا کو ہائی جیک کر لیا ہے۔

لیکن صرف میڈیا کو نہیں، انہوں نے ہماری زندگیوں کے سکون کو بھی ہائی جیک کر لیا ہے۔

گھریلو خواتین سے پوچھیں کہ مارچ سے لمحہ بہ لمحہ با خبر رہنے کے خواہشمند مرد حضرات سے ٹی وی کا ریموٹ لینا کتنا مشکل ہوگیا ہے۔

ملکی سیاسی صورتحال کے بارے میں نا ختم ہونے والے تجزیوں نے قوم کو مفلوج کر دیا ہے۔ لوگ ٹی وی سے دور جانے کو تیار نہیں۔ آج کل انٹرٹینمنٹ تو صرف یہی رہ گئی ہے۔ سانس لو، کھاؤ، اور 24 گھنٹے ساتوں دن ٹی وی پر سیاسی تجزیے سنو۔

نتیجتاً عوام ہر منٹ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کے لیے حیران کن حد تک حسّاس ہو چکے ہیں۔

پر اس آگاہی کی بھی ایک قیمت ہے۔

ہم نے صرف انٹرٹینمنٹ نہیں کھوئی، بلکہ ایسا لگتا ہے کہ کامن سینس بھی ہم سے دور جا چکا ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا تجزیوں کے دلدادہ ہیں، اور اگر آپ یہ الجھا دینے والی بحث سن رہے ہیں، تو اپنے کامن سینس سے ہاتھ دھونے کے لیے تیار رہیں۔

میرا خیال ہے، کہ پاکستان میں کوئی خبر اتنا تہلکہ نہیں مچاتی، جتنا کہ اس پر ہونے والا تجزیہ۔

لاتعداد خبریں روزانہ بریک کی جاتی ہیں، پر جب تک کسی خبر کا تجزیہ نہ پیش کیا جائے، تب تک لوگ ٹی وی کو خالی خالی نظروں سے گھورتے ہوئے کسی تجزیہ کار کا انتظار کرتے رہتے ہیں، تاکہ وہ آئے، ان کی معلومات میں اضافہ کرے، اور انھیں الجھن سے نجات دلائے۔

اور اس کے بعد سچائی سے مکمّل طور پر با خبر ہوجانے کے دعوے بلند ہوتے ہیں، اور پھر ہر اس شخص پر ملامت کی جاتی ہے، جس نے سچائی کسی اور تجزیہ کار سے حاصل کی ہوتی ہے۔

عمران خان کی سول نافرمانی کی کال کو ہی دیکھیں۔

جب عمران خان نے یہ اعلان کیا، تو ان کے حامیوں اور مخالفوں کی اکثریت کو علم نہیں تھا کہ اس قدم کے کیا نتائج ہو سکتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی میڈیا کے گروؤں نے اس اعلان کا تیا پانچہ کیا، تو سوشل میڈیا پر لاکھوں افراد کے خوشی اور مایوسی سے بھرے سٹیٹس آنے شروع ہوگئے۔ لیکن دو چار گرما گرم باتیں کرنے والے تجزیہ کاروں کے ٹی وی پر آنے کے بعد یہ لہر واپس چلی گئی۔

پھر سول نافرمانی کے حق میں صرف کچھ ہی منطقی نکات سامنے آئے، جن میں سے ایک یہ بھی تھا کہ عمران خان کی سول نافرمانی حقیقی نافرمانی نہیں، بلکہ صرف حکومت پر پریشر بڑھنے کے لیے ہے، تو فوراً ہی پی ٹی آئی چیئرمین کی کھوئی ہی آن لائن سپورٹ واپس آگئی، اور پھر سوشل میڈیا پر سٹیٹس اپ ڈیٹ ہونے لگ گئے، کہ کس طرح عوام نے سول نافرمانی کی اہمیت کو ٹھیک طریقے سے نہیں سمجھا ہے۔

عوام میں سیاسی آگاہی کی حالت یہ ہے، صوفے پر پڑے رہنے والے لوگوں کی سمجھ کا حال یہ ہے۔ گھر کے تمام افراد کو اتنے گروپس میں تقسیم کیا جا سکتا ہے، جتنے کہ تجزیہ کار موجود ہیں۔

ہر اینکر کے ساتھ ایک نیا مکتبہ فکر کھل جاتا ہے جس میں شمولیت اختیار کرنے کو لوگ بیتاب ہوجاتے ہیں۔ یہ پہلا فیز ہے، جس میں ہم خیال لوگوں کو ساتھ لیا جاتا ہے۔

اس کے بعد گھروں میں موجود نوخیز دانشوروں کو کئی مختلف کام کرنے کے لیے تیار کیا جاتا ہے۔ ان کاموں میں شامل ہے:

1- مخالف مکتبہ فکر کے دانشوروں کے ساتھ بحث کرنا۔ اس کے لیے کچھ زبانی اور جسمانی قابلیتوں کا ہونا ضروری ہے۔

2- آن لائن تقریریں کرنا، تاکہ لا علم رہ گئے لوگوں کی مدد کی جا سکے، یا اپنی نئی معلومات پر فخر کیا جا سکے۔

3- انٹی بایوٹک ریزسٹنس۔ یہ دانشوری کے اس سفر میں تیسرا اور آخری مرحلہ ہے۔ ہر فورم پر مخالفوں سے ان کی آرا معلوم کی جاتی ہیں، اور ان کا ہر ممکن مقابلہ کیا جاتا ہے۔ اس مرحلے میں حب الوطنی کے ٹیسٹ ضروری ہوتے ہیں، اور جذبۂ حب الوطنی ذرا سا بھی کم ہے تو ہار یقینی ہے۔ اس طرح سے غداروں اور حب الوطنوں کی پہچان کی جا سکتی ہے۔

اس مینوئل کی موجودگی میں نا صرف ہماری قوم ہر سیاسی بحث جیتنے کی قابلیت رکھتی ہے، بلکہ محب وطن اور غیر محب وطن پاکستانیوں میں تمیز بھی کر سکتی ہے۔

کیا ہم شکایت کر سکتے ہیں؟ جبکہ ہم نے خود انہی جیسوں کو ووٹ دیا ہے؟

مجھے لگتا ہے کہ ہمارے ملک میں اب تفریح کا مطلب صرف سیاستدانوں کی ادلہ بدلی، لانگ مارچ، اور سخت گیر دھرنے ہی رہ گئے ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں ریسرچ کے شعبے سے وابستہ ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Humera Aug 26, 2014 02:49pm
bilkul theek likha hai ap ne news channels ne zehani mareez banadia hai logon ko