ایک ایسے وقت میں جب عمران خان اور طاہر القادری کی جانب سے اٹھایا گیا سیاسی طوفان اسلام آباد میں جاری ہے، تو پاکستانی پارلیمنٹ کے مشہور و معروف نام پرائم منسٹر نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں، جس سے ان کے اس یقین کو تقویت مل رہی ہے، کہ ان کی کرسی کو کوئی نہیں چھین سکتا۔ لیکن وزیر اعظم کو بچانا باتیں کرنے سے کہیں زیادہ مشکل ہے۔

نواز شریف کے مطابق اگر ان کو طاقت کے زور پر نکالا گیا، تو پاکستان کو سنبھالنا مشکل ہوجائے گا۔ لیکن نواز شریف اس ناقابل اعتبار سیاست میں باقی رہیں یا نہ رہیں، طاقت کے نظام میں ان کا باقی رہنا شاید مشکل ہو گیا ہے۔

حکومت اور اپوزیشن، دونوں ہی جانب کے پارلیمنٹیرین نواز شریف کی حمایت کر رہے ہیں، تاکہ کوئی بھی ہجوم طاقت کے زور پر چیف ایگزیکٹو کو نکال باہر نہ کر سکے، اس لیے ایسی مثال قائم ہونے سے روکنا ضروری ہے۔ بات یہ ہے کہ یہ پوری کہانی مستقبل میں دوبارہ دہرائے جانے سے روکنے کے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔

اگر پاکستانی سیاست کی ہنگامہ خیز اور پر آشوب سیاست کو مد نظر رکھا جائے، تو اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ان کے خدشات جائز ہیں۔ حالات کی گرمی میں بہت سارے لوگ یہ بھول جاتے ہیں، کہ وزیر اعظم نہ صرف چیف ایگزیکٹو ہیں، بلکہ حکمران جماعت کے قائد بھی ہیں۔

17 جون کو لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں طاہر القادری کے 14 کارکنوں کے قتل کے بعد، پنجاب حکومت جس کی سربراہی شہباز شریف کر رہے ہیں، نے قتل کے مقدمے مقامی حکومتی شخصیات کے خلاف درج کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ حقیقت یہ ہے، کہ واقعے کی تفتیش اور ایکشن لینے کی ذمہ داری پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کی تھی۔

اگر اسلام آباد میں یہ طوفان نہ اٹھایا جاتا، تو آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ 14 ہلاکتیں بھی تاریخ کے ڈسٹ بن میں پھینک دی جاتیں، جیسا کہ پاکستان میں اکثر کیسز کے ساتھ ہوتا ہے۔ وزیر اعظم کے بھائی ایکشن سے بچے رہے، اور خود انہوں نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کیے رکھی، لیکن معاملے کو برخاست نہیں کیا جا سکتا۔

اب جب کہ حکمران ایک سیاسی ریسکیو مشن کے لیے دوستوں اور دشمنوں کے پاس جا رہے ہیں، تب مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم کو بچایا جائے، اور اس کے ساتھ ہی اس حکومت کو بچایا جائے، جس پر ماڈل ٹاؤن واقعے میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ بلکہ یہ ایک ایسے پارٹی لیڈر کے مستقبل کے بارے میں ہے، جس نے 17 جون کے مسئلے کو سلجھانے کے لیے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

اس کے علاوہ، اپنی مدت حکومت کے شروعاتی دور میں پاکستان کو درپیش کچھ شدید ترین چیلنجز سے نمٹنے میں نواز شریف کی ناکامی کا دفاع نہیں کیا جا سکتا۔ رمضان کے آخری 10 دنوں میں ان کی سعودی عرب روانگی، اور واپس آتے ہی پانچ دن کے لیے رائیونڈ چلے جانا، اس سب سے یہ تاثر ملا، کہ وزیر اعظم صاحب ملکی مسائل سے کچھ لا تعلّق سے ہیں۔

طالبان جنگجوؤں کے ساتھ جاری خونی جنگ، اور اس میں ضائع ہوئی لاتعداد جانوں کے علاوہ ریکارڈ یہ دکھاتا ہے، کہ اسلام آباد میں موجود حکومت پاکستان کو ایک مکمّل جنگ میں سامنے سے لیڈ کرنے کی بہت کم صلاحیت رکھتی ہے۔

اس سارے بحران کے دوران اپنی عوامی حمایت کا مظاہرہ کرنے میں پی ایم ایل ن کی ناکامی بھی اس کی عوام کی جڑوں تک رسائی کے حوالے سے کئی سوالات کو جنم دے رہی ہے۔

حکومت نے اپنے پہلے سال میں ایک کے بعد ایک انفراسٹرکچر پروجیکٹس لانچ کیے ہیں۔ اگر یہ سلسلہ ایسے ہی جاری رہا، تو وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے مطابق پاکستان میں بہت جلد نئے موٹروے، چمک دھمک والے بس پروجیکٹ، اور تیز رفتار ٹرینیں دیکھنے کو ملیں گی۔ لیکن بجلی کا شدید ترین بحران اب بھی صنعتوں کو نقصان پہنچا رہا ہے، جبکہ عوام کی زندگی اجیرن ہو کر رہ گئی ہے۔ لیکن اس مسئلے کا کوئی دیرپا حل ابھی نظر نہیں آ رہا۔

اس وقت سیاسی بحران کے نتیجے کی پیشگوئی کرنا مشکل ہے۔ پارلیمنٹ میں نواز شریف کے اتحادیوں کے لیے جمہوریت بچانا اور وزیر اعظم کو بچانا ایک ہی بات ہے، اور حالات کو دیکھتے ہوئے یہ ایک قابل فہم بات ہے۔ لیکن دوسرے نقطہ نظر سے، اس بحران سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے، تو پی ایم ایل ن کی حکومت کے بارے میں طویل مدتی رائے مختلف ہو سکتی ہے۔

یہ حیرانی کی بات نہیں کہ عمران خان اور طاہر القادری دونوں، جو ایک ہفتے سے زیادہ وقت سے اسلام آباد میں ہزاروں حامیوں کے ہمراہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے پڑاؤ ڈالے ہوئے ہیں، اپنے مجمع کو اسلام آباد کی شدید گرمیوں میں بھی ثابت قدم رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔ یہ صرف نواز شریف کے بحیثیت وزیر اعظم مستقبل کے بارے میں نہیں، بلکہ ایک ایسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں بھی، جو ماڈل ٹاؤن واقعے کے بعد تنازعے میں پھنس چکی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 24 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Dr.Salim Haidrani Aug 27, 2014 03:07pm
The Protest and Protest demands continue against the elected government but the solution is not the Military Government in Pakistan as two Protest leaders see the outcome in days. Nawaz Sharif and the Chief Minister of Punjab try to see the situation through common sense because killing innocent civilians and then not accepting it will not solve the problem. However, Gael Garcia Bernal, actor and director from Mexico once said about democracy:" we think that democracy can change a lot of things., but we are being fooled, because democracy is not the election. We have been taught that democracy is having elections. And it is not. Democracy is when ruling class do not harm the interests of the common person". Has the Rulling party PML (N) has harmed anyone in the Punjab and Islamabad?