حاجی صاحب نے خطاب کیا، اور عوام کو یقین دلایا کہ ایک کرپٹ حکمران کو گدی سے اتارنے کے لیے ان کی کوششوں کے بدلے الله انھیں دونوں جہاں میں نوازے گا۔

ناراضی صاحب نے خطاب کیا، اور عوام کو دسویں مرتبہ بتایا، کہ امپائر انگلی اٹھانے والا ہے، کون سی انگلی؟ یہ نہیں بتایا۔

اپنے روزانہ کے تقریروں، وعدوں، اور نعروں کے ڈوز کے بعد عوام دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے۔ جنہوں نے گھر واپس جانا تھا، وہ گراؤنڈ سے باہر نکلنا شروع ہوگئے۔ جنہوں نے "تقریر ہاؤس" کے باہر رات گزارنی تھی، وہ منتشر ہو گئے۔

تھوڑی ہی دیر بعد لائٹیں بند ہوگئیں۔ دونوں قائدین کے موبائل گھروں کے دروازے سختی سے بند کر دیئے گئے۔ فوڈ سٹال بھی بند ہوگئے، جبکہ گانے بجانے والے اور ڈانسر وغیرہ سب اپنے گھروں کو روانہ ہوگئے۔ حاجی صاحب کے قوال بھی کہیں غائب ہوگئے۔

گاڑیاں آئیں، اور کچھ آرگنائزرز کو لے گئیں۔ گارڈز یہ دیکھنے کے بعد کہ قائدین کنٹینروں میں محفوظ ہیں، ادھر ادھر ہوگئے۔

حاجی صاحب اور ناراضی صاحب کے لیے بنائے گئے اسٹیج بھی ویران ہوگئے۔

دلپذیر، جو ایک ہفتے سے زیادہ وقت سے یہ تماشا دیکھ رہا تھا، اپنے دوستوں کے پاس گیا اور کہا، "دوستو! اب ہمارا کھیل شروع ہوتا ہے"۔

دوستوں میں مسکراہٹوں کا تبادلہ ہوا، اور پھر وہ دلپذیر کو ڈی چوک کے بیچوں بیچ لے گئے، جہاں ایک بڑا گروپ پہلے ہی دلپذیر کا انتظار کر رہا تھا۔

"دلپذیر صاحب! ہم آج رات کیا سننے والے ہیں؟" ایک نوجوان نے اسے گرما گرم دودھ پتی کا کپ پیش کرتے ہوئے پوچھا۔

"آج بہت شدید بارش ہوئی تھی نا؟"، اس نے چائے کا کپ قبول کرتے ہوئے پوچھا۔

"ہاں، ہوئی تھی" ۔۔ مجمع میں سے کچھ لوگوں نے جواب دیا۔

"کیا آپ لوگ اب بھی یہاں ہیں؟"، میں آپ کو سلیوٹ کرتا ہوں۔

"آپ جانتے ہیں ہمارے پاس اور کوئی چوائس نہیں ہے۔ وہ ہمارے پیر ہیں، ہمیں ان کا حکم ماننا ہے"۔ حاجی صاحب کے ایک مرید نے جواب دیا۔

دلپذیر ناراضی صاحب کے حامیوں کی جانب مڑا، اور پوچھا۔

"اور آپ لوگ؟"

"ہم لوگوں میں سے اکثر لوگ امن کے شہر سے تعلّق رکھتے ہیں، تو ہم تقریریں ختم ہونے کے بعد گھر چلے جاتے ہیں۔ جب آپ اپنی کہانی ختم کریں گے، تو ہم گھر چلے جائیں گے"۔ ایک حامی نے جواب دیا۔

"ہاں، ہاں، جلدی کہانی سناؤ، ہمارا وقت ضائع نہ کرو"، مجمعے سے آوازیں بلند ہوئیں۔

"آج رات ہم کیا سنیں گے؟ الف لیلیٰ، امیر حمزہ، یا پریوں کی کہانی؟"، ایک لڑکے نے سوال کیا۔

"ان میں سے کچھ بھی نہیں"۔ دلپذیر نے جواب دیا۔ اسے سیاست سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، لیکن اسے کہانیاں سنانا پسند تھا۔ وہ مظاہرے شروع ہونے کے بعد روز رات کو ڈی چوک پر آتا، کیونکہ اسے سننے والے مل جاتے تھے۔

پہلی رات وہ صرف تماشا دیکھنے آیا تھا، اور جلدی گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ لیکن جب اس کے دوستوں نے رات رکنے کا فیصلہ کیا، تو وہ بھی ان کے ساتھ رک گیا۔ آسمان صاف تھا، ستارے چمک رہے تھے۔ پاس کے پہاڑ اندھیرے میں لپٹے ہوئے پراسرار سے لگ رہے تھے۔

دلپذیر کو ایسا لگا، جیسے وہ الف لیلیٰ کے دنوں میں واپس آگیا ہے۔ تو جب ایک دوست، جو جانتا تھا کہ دلپذیر کو مطالعے اور کہانیاں سنانے کا شوق ہے، نے دلپذیر سے کہانی کی فرمائش کی، تو اس نے خوشی خوشی فرمائش پوری کی۔

جیسے جیسے وہ بولتا گیا، ویسے ویسے آس پاس سے سننے والے اس کے پاس آتے گئے، اور اس طرح روز رات تقریروں کے بعد کہانیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔

"تو آج رات کیا سناؤ گے؟"، مجمع میں سے ایک آواز بلند ہوئی۔

"ملا نصر الدین کی کہانیاں"، دلپذیر نے جواب دیا۔

"زبردست، وہ تو ہم نے پہلے سن رکھی ہیں، وہ مزاحیہ ہیں"۔ کہانیوں کے ایک شائق نے کہا۔

"جلدی سے کہانی شروع کرو بھائی"۔ کسی اور نے آواز لگائی۔

دلپذیر نے کہانی شروع کی۔

ایک دفعہ ایک امیر تاجر نے نصر الدین کو کھانے پر مدعو کیا۔ شام کو نصر الدین اس کے گھر گئے، اور دروازے پر دستک دی۔

تاجر کے بیٹے نے دروازہ کھولا، اور ملا نصر الدین کو بتایا کہ اس کے والد گھر پر نہیں ہیں۔

لیکن ملا نصر الدین میزبان کو پہلے ہی گھر میں کھڑکی کے پاس بیٹھا ہوا دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے اس کے بیٹے سے کہا، "بیٹا اپنے ابّو کو کہنا کہ اگلی دفعہ باہر جائیں تو اپنا سر کھڑکی میں چھوڑ کر نا جائیں"۔

مجمع ہنس پڑا، اور جب ہنسی تھمی، تو دلپذیر نے ان سے پوچھا کہ کیا اب بھی ناراضی صاحب اور حاجی صاحب کنٹینر میں موجود ہیں، یا اپنے اپنے سر کھڑکیوں میں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔

اس سے پہلے کہ مجمع کچھ رد عمل دیتا، دلپذیر نے ایک اور کہانی شروع کی۔

ایک دن ملا نصر الدین نے گدھا خریدا۔ اس کی رسی تھامے وہ اپنے گھر جارہے تھے، کہ دو ٹھگوں نے انھیں دیکھ لیا، اور ان کو بیوقوف بنانے کا فیصلہ کیا۔ ان میں سے ایک پیچھے سے آیا، رسی ڈھیلی کر کے گدھا کھولا، اور اپنی گردن میں رسی باندھ لی۔ دوسرے نے جا کر گدھا بازار میں بیچ دیا۔

جب ملا نصر الدین گھر واپس پہنچے، تو انہوں نے گدھے کی جگہ اس لڑکے کو دیکھا۔

"تم کون ہو؟" انہوں نے پوچھا۔

چور نے جواب دیا۔ "یہ ایک حیرت انگیز کہانی ہے۔ آپ یقین نہیں کریں گے لیکن یہ سچی کہانی ہے"۔

"میں ایک بہت شرارتی لڑکا تھا۔ میں ہمیشہ بدتمیزی کرتا تھا، اور اپنی ماں کو تکلیف پہنچاتا تھا۔ ایک دن وہ بہت زیادہ دکھی ہوگئیں، اور کہا کہ تجھ سے تو اچھا تھا کہ میرے پاس ایک گدھا ہوتا۔ اسی وقت میں گدھا بن گیا"۔

"لیکن پھر انھیں اس سے بہت تکلیف ہوئی، اور وہ ایک دانشمند آدمی کے پاس گئیں۔ اس شخص نے میری ماں سے کہا کہ جس دن کوئی نیک شخص مجھے خریدے گا، میں واپس انسان بن جاؤں گا۔ اس لیے جب آپ نے آج مجھے خریدا، تو مجھ پر سے بددعا ختم ہوگئی"۔

ملا نصر الدین سمجھ گئے کہ ان کے ساتھ دھوکہ ہوگیا ہے، اور انھیں افسوس ہوا کہ انہوں نے پہلے مڑ کر کیوں نہیں دیکھا کہ جس کو وہ کھینچ رہے ہیں وہ گدھا نہیں انسان ہے۔

انہوں نے چور سے کہا کہ میں تمہیں جانے دوں گا، پر پھر کبھی اپنی ماں کو تنگ مت کرنا۔

اگلے دن وہ دوسرا گدھا لینے بازار گئے، تو انہوں نے وہاں اسی گدھے کو بندھا ہوا دیکھا، جسے انہوں نے گزشتہ زور خریدا تھا۔ ملا گدھے کے پاس گئے اور کہا، "کیا تم نے دوبارہ اپنی ماں کی نافرمانی کی ہے؟"۔

دلپذیر نے کہانی ختم کی اور مجمعے سے کہا

کیا آپ لوگوں نے جا کر دیکھا کہ رسی کے ساتھ گدھا بندھا ہوا ہے یا نہیں؟

اس سے پہلے کے کوئی جواب دیتا، دلپذیر نے تیسری کہانی شروع کی۔

ملا نصر الدین گنجے ہورہے تھے، انہوں نے سوچا کہ وہ آدھے گنج پن کے بجائے مکمّل گنجے زیادہ اچھے لگیں گے۔ تو وہ نائی کے پاس گئے۔

نائی باہر گیا ہوا تھا، اور اپنے پیچھے ایک زیر تربیت شاگرد کو چھوڑ گیا ہوا تھا۔ کانپتے ہاتھوں میں ایک تیز دھار بلیڈ نے ملا کو پریشان کر دیا، لیکن شاگرد نے اصرار کیا کہ اس پر یقین کیا جائے، اور اسے حجامت کرنے دی جائے۔ ملا نے اس کی بات مان لی۔

جب وہ اپنا بلیڈ تیز کر رہا تھا، تو ملا نصر الدین نے ایک زوردار چیخ سنی۔ انہوں نے اس سے کہا کہ وہ باہر جا کر دیکھ کے آئے، کہ آواز کس چیز کی ہے۔

لڑکا باہر گیا اور واپس آ کر بتایا کہ ایک لوہار بیل کو نعلین لگا رہا ہے۔

ملا نے کہا، "خدا کا شکر ہے، میں سمجھا کہ کوئی زیر تربیت شاگرد کسی کی حجامت بنا رہا ہے"، اتنا کہ کر وہ دکان سے باہر نکل آئے۔

"اس لیے، آپ کے لیڈر رہیں یا چلے جائیں، یا رسی سے گدھا بندھا ہو یا نہیں، لیکن برائے مہربانی کسی نا تجربہ کار شخص کو اپنی حجامت مت بنانے دیجئے گا"۔ اتنا کہ کر دلپذیر نے کہانی ختم کی، اور سونے چلا گیا۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری واشنگٹن ڈی سی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

shahid Aug 28, 2014 06:38pm
it is not good to support the Bdshahat. Your are writing in Dawn and may very well know what is the real democracy.
Habib Kazmi Aug 29, 2014 01:15pm
Jamhooryat woh tarze hukoomat he k jis men. Logon ko gina jata he tola nahen jata. "Alama Iqbal"