دھرنے بمقابلہ جمہوریت

28 اگست 2014
— فوٹو اے پی
— فوٹو اے پی

مئی 2013 میں کرپشن، رشوت خوری، اور موروثی سیاست سے تنگ آ کر دوسرے پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا۔

میں طالبان اور دہشتگردی کے خلاف جنگ پر ان کے موقف کی ناقد تھی، اور مجھے لگتا تھا کہ ان کے پاس کوئی واضح نظریہ موجود نہیں۔ لیکن مجھے لگا کہ ان کا صاف کردار، اور کرپشن سے پاک سیاست پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی سیاست سے بہت مختلف ہو گی۔

میں اتنی سادہ لوح نہیں تھی کہ یہ سوچتی کہ عمران خان واضح اکثریت سے جیت جائیں گے۔ اس کی وجہ یہ تھی، کہ انہوں نے اپنی سیاسی مہم کو مڈل اور اپر کلاسز تک ہی محدود رکھا تھا، اس کی تصدیق گیلپ پاکستان نے بھی کی ہے۔

یہ بھی نا ممکن سا لگ رہا تھا، کہ سندھ اور پنجاب پر پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی مضبوط گرفت ایک ہی الیکشن میں ختم ہوجائے گی۔ الیکشن سے پہلے کے مختلف سروے میں یہ بات بھی واضح ہوگئی تھی۔

لیکن پھر بھی مجھے امید تھی کہ عمران خان اتنی مضبوط پوزیشن حاصل کر لیں گے، کہ ایک قومی اتحادی حکومت کا حصّہ بن سکیں۔

پر ایسا نہیں ہوا۔

میں مایوس تو تھی، پر مجھے حیرانگی نہیں تھی، اور "جاہل عوام" کے بارے میں کچھ کمنٹس دینے کے بعد میں نے اس پر سوچنا چھوڑ دیا، کیونکہ جمہوریت اسی کا نام ہے۔

ایک بندہ، ایک ووٹ، اس سسٹم میں ہر بندے کی رائے برابر کی اہمیت رکھتی ہے۔ جمہوریت میں ہمیں اس امکان کو رد نہیں کرنا چاہیے، کہ وہ سیاست دان جو عوامی رائے میں لیڈرشپ کے قابل نہیں، وہ بھی منتخب ہوجائیں۔ اور اگر ایسا ہوجائے، تو ہمیں جمہوریت کی خاطر عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا چاہیے۔

یہی وہ بات ہے، جو میرے خیال میں پی ٹی آئی کے حامیوں کو ہضم نہیں ہوتی، جو عمران خان پر اٹھنے والی ہر تنقید کو کرپٹ سیاستدانوں کی حمایت سے تعبیر کرتے ہیں۔

مسئلہ تب بگڑا، جب پاکستان مسلم لیگ (ن) نے انتخابی اصلاحات، الیکشن میں بے ضابطگیوں کی تحقیقات، اور ماڈل ٹاؤن واقعے کی تحقیقات وقت پر نہیں کرائیں، جس کی وجہ سے طاہر القادری جیسے غیر جمہوری موقع پرست شخص کو مذاکرات کی میز تک آنے کا موقع ملا۔

لیکن آزادی مارچ اور پی ٹی آئی کا وزیر اعظم کے استعفیٰ کا ایک نکاتی مطالبہ اب عوامی حمایت میں کمی کا باعث بن رہا ہے۔

فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن)، یورپین یونین کے انتخابی مبصرین، اور نیشنل ڈیموکریٹک انسٹیٹیوٹ جیسے آزاد اور خودمختار اداروں نے اب تک اس دعوے کی تصدیق نہیں کی ہے، کہ پی ایم ایل (ن) کی فتح وسیع پیمانے پر دھاندلی کے نتیجے میں ہوئی۔

بلا شبہ 2013 کے عام انتخابات میں بے ضابطگیاں تھیں، لیکن انتخابی قوانین کی خلاف ورزی کا سیدھا سیدھا مطلب "جیتنے کے لیے وسیع پیمانے پر دھاندلی" نہیں لیا جا سکتا۔

عدالتی فیصلوں، اور غیر جانبدار ماہرین کی جانب سے ثبوتوں کی عدم موجودگی میں استعفے کا مطالبہ بے بنیاد ہے۔ عوامی جدو جہد کے ذریعے منتخب حکومت کے خاتمے کا مطالبہ کر کے پی ٹی آئی ایک خطرناک مثال قائم کر رہی ہے۔

ایک اور اشو جو بار بار اور بے موقع اٹھایا جا رہا ہے، وہ نواز شریف کی کرپشن کے بارے میں ہے۔

اس بات کو واضح طور پر سمجھ لینا چاہیے، کہ اپنی سیاسی قوّت کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنا انتخابی دھاندلیوں سے ایک الگ مسئلہ ہے۔

پی ٹی آئی کو اس بات کا فیصلہ کرنا ہوگا، کہ وہ نواز شریف کا استعفیٰ کیوں چاہتی ہے۔

اس لیے کہ ان کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہیں، یا اس لیے کہ وہ کرپٹ ہیں؟

دونوں الزامات کی عدلیہ اور آزاد ذرائع کے ذریعے تحقیقات ہونی چاہییں۔ سڑکوں پر جمع ہوئے بیس ہزار لوگ، (پی ٹی آئی کے مطابق پانچ لاکھ)، جج یا جیوری نہیں ہیں، اور نا ہی سزا دینے کا اختیار رکھتے ہیں۔

ایک دلیل یہ ہو سکتی ہے، کہ عدلیہ سمیت پورا سسٹم ہی کرپٹ ہے، اور تب تک ٹھیک نہیں ہو سکتا، جب تک کہ پرانے لوگ طاقت میں ہیں۔ اس دلیل کے پیچھے کچھ منطق ہو سکتی ہے۔

لیکن پھر آپ جمہوریت کی بات بھی نہ کریں۔

اس سے زیادہ دیانتدارانہ دلیل یہ ہوگی، کہ آپ سیدھی طرح کہہ دیں کہ پاکستان جیسے کرپٹ ملک میں جمہوریت نہیں چل سکتی۔ لیکن اگر جمہوریت ہو گی، تو عوام ایسے لوگوں کو ضرور منتخب کرتے رہیں گے، جن کو سسٹم درست کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں۔ ہمیں کرپشن ختم کرنے اور "خیالی" نیا پاکستان بنانے کے لیے عمران خان جیسے ایماندار لیڈر کی ضرورت ہے۔

حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے حامی یہ چاہتے ہیں، کہ ان کا ہیرو عمران خان ماوراۓ نظام اقدامات کے ذریعے نظام کو درست کر دے، اور ساتھ ہی ساتھ جمہوریت کو بھی نقصان نہ پہنچنے دے۔

یہ بالکل ایسا ہی ہے، کہ ایک ملٹری ڈکٹیٹر کرپشن کے الزامات پر ایک منتخب حکومت کو گھر بھیج دے، اور وعدہ کرے کے حالات موزوں ہونے پر جمہوریت کو بحال کر دیا جائے گا۔ کیا ہم اس سوچ سے پہلے سے واقف نہیں ہیں؟

آپ اس خیال کی حمایت کر سکتے ہیں، اور دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ایک رحمدل اور ایماندار ڈکٹیٹر ایک کرپٹ منتخب لیڈر سے بہتر ہے۔ لیکن پھر آپ کو ایمانداری سے یہ قبول کرنا پڑے گا، کہ اسے جمہوریت کا نام نہیں دیا جا سکتا۔

اس بات کا فیصلہ ہونا چاہیے، کہ آیا ایک ایماندار اور کرپشن سے پاک لیڈر کو لانے کے لیے جمہوریت اور جمہوری نظام کو ڈی ریل کیا جا سکتا ہے۔

آزادی مارچ کے طویل مدتی نتائج کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ پریشر کی سیاست نے پہلے ہی سول ملٹری تعلقات کو 20 سال پہلے کی پوزیشن پر بھیج دیا ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد پہلی دفعہ سویلین قیادت خارجہ پالیسی کے اوپر کچھ کنٹرول حاصل کرنے لگی تھی۔ آزادی مارچ سے یہ کنٹرول حکومت سے اب واپس فوج کو مل گیا ہے۔

اگر عمران خان کو اپنی خواہش کے مطابق استعفیٰ، مڈ ٹرم الیکشن، اور تصوراتی طور پر واضح فتح مل بھی جائے، تب بھی جمہوری اداروں کو کافی نقصان پہنچ چکا ہوگا، جو ویسے وقت کے ساتھ کرپٹ لیڈروں کو باہر کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ہمارے مسئلے بہت زیادہ، اور گہرے ہیں، اتنے کہ انہیں حل کرنا ایک اکیلے مسیحا کے بس کی بات نہیں۔

پی ٹی آئی کی حالیہ حرکتوں کا شکریہ، جنہوں نے سٹریٹ پاور کے ذریعے سیاسی مفاد حاصل کرنے کی مثال قائم کر دی ہے۔ اور اب منتخب لیڈروں (بشمول عمران خان) کو کچھ وقت کے لیے خبردار رہنا پڑے گا، جبکہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تابعداری بھی کرنی پڑے گی۔

بہت سے لوگوں کے لیے یہ بہت زیادہ قیمت ہے۔

ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا، کہ بھلے ہی عمران خان صاف کردار کے مالک ہوں، پر اس وقت جمہوری طریقے سے ان کا حکومت میں آنا ممکن نہیں ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری کولمبیا یونیورسٹی سے اینتھروپولوجی میں ماسٹرز کر رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں