اسلام آباد: پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت سپریم کورٹ نے کل تک پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے شاہراہ دستور کو خالی کروانے کا حکم جاری کردیا ہے۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لاجر بینچ نے جب ممکنہ ماورائے آئین اقدامات اور شاہراہِ دستور کو خالی کروانے سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت شروع کی تو اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ پاکستان عوامی تحریک شاہراہِ دستور کو خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔

عدالتی حکم کے باجود شاہراہِ دستور خالی نہ کروانے پر عدالت نے برہمی کا اظہار کیا۔

عدالت نے سماعت کو کل تک کے لیے ملتوی کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کے علاوہ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے وکلاء سے کہا ہے کہ وہ کل خود جاکر ذاتی طور پر معائنہ کریں کہ آیا سڑک کو آمدورفت کے لیے کھول دیا گیا ہے یا نہیں۔

اس سے قبل آج صبح جب سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ وہ کچھ وجوہات کی بناء پر اس معاملے میں مداخلت نہیں کرسکتے۔

پاکستان عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ آج صبح تک سڑک کا ایک حصہ کھول دیا گیا تھا، جس پر بینچ میں شامل جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ایک یا دو تین راستوں کا معاملہ نہیں اور صبح بھی سڑک دونوں اطراف سے بند تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ آئین کی پاسداری زبان سے کرنا ایک چیز ہے اور اس پر عمل کرنا ایک علیحدہ عمل ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر کوئی قابو سے باہر ہوا ہے تو بتائیں کہ آئین پر عمل ہونا چاہیٔے یا نہیں۔

اپنے رہمارکس کے دوران جسٹس جواد ایس خواجہ کا کہنا تھا کہ احتجاج کا طریقہ کار طے ہونا چاہیٔے۔

پاکستان عوامی تحریک کے وکیل نے عدالت میں ایک رپورٹ پڑھ کر سنائی جس میں کہا گیا تھا کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن میں 14 افراد کی ہلاکت کے خلاف پی اے ٹی کے کارکنان احتجاج کررہے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ چند لوگوں کی تکلیف ان لوگوں کے صدمے کے برابر نہیں ہوسکتی جن کے عزیز سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہوئے۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا تھا کہ پاکستان عوامی تحریک رکاوٹیں ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

راضیہ سید Aug 27, 2014 02:37pm
یہ کیسا احتجاج ہے کہ دارالحکومت کے اہم حصے میں چند ہزار لوگوں کی وجہ سے مشکلات پیدا کی جا رہی ہیں ؟ اور ان لوگوں کا کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا جو یہاں ریڈ زون میں واقع دفاتر میں کام کرتے ہیں ، یہاں آنے جانے والے لوگوں کی ضروریات کا کوئی احساس نہیں ، گندگی ، بدبو سے میڈیا ورکرز کا کام کرنا بھی محال ہوا ہوا ہے لیکن اس پر بھی کوئ توجہ نہیں دی جا رہی ہے ، اہم بات یہ بھی ہے کہ حکومت کی جانب سے اتنی نرمی کیوں برتی جا رہی ہے ؟ تھریک انصاف والے سارا دن اپنے رشتہ داروں کے گھر سوئے رہتے ہیں اور رات کو محفل موسیقی میں شریک ہونے آجاتے ہیں ، اسی طرح طاہر القادی کی جماعت کے لوگوں نے سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ لاجز کو ہی دھوبی گھاٹ بنا رکھا ہے ، کیا اس ملک میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں کہ وہ ان چند ہزار افراد کو روک سکیں ، انھیں کنٹرول کر سکیں ،اور عام آدمی جس کے حقوق ان چند ہزار کی وجہ سے متاثر ہو رہے ہیں انھٰں ان کے حقوق دیئے جائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔