مودی اور مسئلہ کشمیر

31 اگست 2014
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔
لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

پاکستان اور ہندوستان کے درمیان جاری حالیہ تنازعے کے بارے میں کافی توجیہات پیش کی جا سکتی ہیں۔ ایک کم قابل قبول نظریہ، جسے میں قبول کر سکتا ہوں، وہ شاید عام طور پر مشہور نظریے سے متصادم ہو۔ میں یقین رکھتا ہوں، کہ وزیر اعظم نریندرا مودی کشمیر کے ان مزاحمتی قائدین کو مضبوط کرنا چاہتے ہیں، جنہیں میڈیا میں حریت کانفرنس کے نام سے جانا جاتا ہے۔

حریت قائدین کو مضبوط کرنا، جن میں سے اکثر آپس میں بات بھی نہیں کرتے، وزیر اعظم نریندرا مودی کے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کے اپنے وعدے کی تکمیل کی جانب قدم ہوگا۔ آرٹیکل 370 جموں و کشمیر کو ایک خصوصی خودمختار حیثیت دیتا ہے۔

ٹیلیگراف کولکتہ نے سب سے پہلے بھارتیہ جنتا پارٹی کے "مشن +44" پر توجہ دلائی۔ یہ حوالہ پارٹی کی جانب سے الیکشن میں کیے گئے وعدے، اور اس کے نتیجے میں جموں و کشمیر کی 87 نشستوں والی اسمبلی میں اکثریت سے جیتنے کے بارے میں تھا۔ پارلیمانی انتخابات میں کامیابی کے بعد اب بی جے پی اپنی توجہ سرینگر اسمبلی پر مرکوز کیے ہوئے ہے، جس کے بعد وہ پارلیمنٹ کے ذریعے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرنے کی پوزیشن میں آجائے گی۔

رواں سال مہاراشٹرا میں بھی اسمبلی انتخابات ہوں گے۔ یہ ایک اہم اور بڑی ریاست ہے، جہاں بی جے پی اور اس کی مقامی اتحادی شیو سینا کو کانگریس کو ہرانے کے لیے پاکستان مخالف جذبات کو پروان چڑھانا ہوگا۔ نومبر میں ممبئی حملوں کے 6 سال پورے ہونے کا موقع اچھا ثابت ہوگا۔ کانگریس کے پاس اپنی حالیہ شکل میں بی جے پی کی خالص ہندتوا کا صرف ایک ہلکا سا رنگ ہے۔ اس لیے وہ اپنے کم ہوتے ہوئے ووٹ بینک کو دوبارہ مضبوط کرنے کے لیے تنگ نظر قومپرستی کا پرچار کرنے سے کبھی پیچھے نہیں رہے گی۔

مثال کے طور پر کانگریس کی سینئر لیڈرشپ کے بی جے پی کے پاکستان کے ساتھ مذاکرات روکنے کے فیصلے پر بیانات دیکھیں۔ لگتا ہے کہ کانگریس نے یہ فیصلہ کر لیا ہے، کہ اسے اپنے آپ کو ہر موقعے پر بی جے پی سے زیادہ قوم پرست ثابت کرنا ہے۔

لیکن آنے والے انتخابی معرکے میں کانگریس نے آرٹیکل 370 کو نہ چھیڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کانگریس کے نزدیک یہ آرٹیکل متنازعہ علاقے پر ہندوستان کے حق کا مظہر ہے۔ بی جے پی کے لیے اس کا خاتمہ بنیادی مقصد ہے، بالکل اسی طرح، جیسے اس نے بھارت کو نیوکلیئر پاور بنانے کا وعدہ کیا تھا، جو مئی 1998 کے نیوکلیئر ٹیسٹ کے ساتھ پورا ہوا۔ ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر، اور ملک بھر میں گائے کی قربانی پر پابندی، یہ وہ ایشوز ہیں جن سے پارٹی اپنی انتخابی مہم کو تقویت دیتی رہی ہے۔

حریت قائدین کو مضبوط کرنا بی جے پی کے لیے کس طرح مددگار ثابت ہوگا؟ مودی صاحب کا مشن +44 سے مقصد یہ ہے، کہ وزیر اعلیٰ عمر عبدللہ اور اپوزیشن لیڈر محبوبہ مفتی کی قیادت میں سرگرم کشمیر کی دو جماعتوں کو کمزور کیا جا سکے۔ اب تک تو حریت قائدین "ہندوستانی سرپرستی میں ہونے والے انتخابات" سے دور رہے ہیں، لیکن ایسا کرنے میں انہوں نے خود کو بے فائدہ طور پر ایک کونے تک محدود کر لیا ہے۔

حریت قائدین کو پاکستانی حمایت یافتہ دکھا کر، جو کہ مشرّف دور کے مذاکرات کے بعد اور پاکستان میں کشمیر کی طرف جھکاؤ رکھنے والے سخت گیر اسلام پسندوں کے پھلنے پھولنے کے بعد اب عملی طور پر پاکستانی کام کے نہیں رہے، مودی حکومت نے بیروزگار سیاسی قائدین کو ایک سیاسی مقصد دینے کی کوشش کی ہے۔ اپنے بھارت مخالف جذبات کی وجہ سے اس گروپ کو عمر عبدللہ اور محبوبہ مفتی کی بالادستی ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، تاکہ ضرورت کے وقت کے لیے ووٹ بینک توڑا جا سکے۔

27 مئی کو دونوں ممالک کے وزراء اعظم کی ملاقات کے باوجود سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات کو ختم کرنا ہی اکیلا مسئلہ نہیں ہے۔ پچھلے پورے مہینے کے دوران ہونے والے واقعات نے ہی معاملات کو اس نہج تک پہنچایا ہے، کہ اب باقاعدہ میدان سج چکا ہے۔

25 جولائی کو انڈیا اور پاکستان نے دہشتگردی کے دو سیاسی طور پر حساس واقعوں کی تفتیش میں تاخیر پر اپنے شکوک و شبہات کا تبادلہ کیا۔ ایک ممبئی حملوں کا کیس، جس کا انڈیا جلد فیصلہ چاہتا ہے، اور دوسرا سمجھوتہ ایکسپریس دھماکوں کا کیس، جو پاکستان کے نزدیک بہت تاخیر اختیار کر چکا ہے۔ انڈیا کا الزام ہے کہ ممبئی حملوں کے ذمہ دار افراد پاکستان آرمی کے کچھ عناصر سے تعلقات رکھتے ہیں۔ دوسری جانب پاکستان سمجھتا ہے کہ سمجھوتہ ایکسپریس واقعے کے ذمہ دار دہلی کی اسٹیبلشمنٹ کے منظور نظر ہیں۔ دونوں فریق انتظار کر رہے ہیں کہ پہلے کون آنکھ جھپکتا ہے۔

ممبئی حملوں اور سمجھوتہ ایکسپریس کے معاملے اٹھانے کے ایک ہی دن بعد ہندوستان کے وزیر دفاع نے اپنی توجہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر مرکوز کرلی، اور کہا کہ سرحد کی دوسری جانب سے فائرنگ کے معاملے کو سیکرٹری خارجہ مزاکرات میں اٹھایا جائے گا۔ لیکن اسی دن اقوام متحدہ کے ملٹری آبزرور گروپ نے دعویٰ کیا کہ وہ فائر بندی کی مبینہ خلاف ورزی پر چیک رکھنے کے لیے پہلے سے ہی وہاں موجود ہیں۔

کشمیر میں فوجی کمانڈرز سے خطاب میں مودی کے الفاظ، کہ پاکستان جنگ لڑنے کی سکت نہیں رکھتا اسلیے ہندوستان کے خلاف دہشتگردی پھیلا رہا ہے، سے بھی واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ وہ 27 مئی کی ملاقات میں طے پانے والی باتوں سے منحرف ہو رہے ہیں۔

ایسا نہیں تھا کہ انڈیا صرف خود ہی امن مذاکرات پر شبہات اٹھا رہا تھا۔ پاکستان اپنے داخلی سیاسی بحران کے باوجود، یا شاید اسی وجہ سے، اس کام میں انڈیا سے پیچھے نہیں تھا۔

مودی صاحب نے 12 اگست کو بھی سخت ریمارکس دیے، جس سے سفارتکار 3 دن بعد انکی یوم آزادی کی تقریر میں ایسے مزید اشاروں کو ڈھونڈنے لگے، جس میں انہیں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ لیکن دہلی میں پاکستانی سفیر نے بھی کچھ غیر معمولی ریمارکس دیے تھے، جیسے کہ کشمیر کا پاک انڈیا تنازعات میں بنیادی حیثیت رکھنا وغیرہ۔ اگر امن مذاکرات کے ایجنڈے میں مسئلہ کشمیر شامل نہیں ہے، تو اس طرح کے کمنٹس غیر معمولی ہیں۔

بہرحال، کیا پاکستان کا آرٹیکل 370 پر کوئی نقطۂ نظر ہے؟ یا کیا پاکستان اسے کشمیر کے مستقبل کے بنیادی مسئلے سے توجہ ہٹانے کی ہندوستان کی کوشش سمجھتا ہے؟ یا کیا پاکستان مسئلہ کشمیر کو ایسے ہی رہنے دینا چاہتا ہے، تاکہ کشمیر سے زیادہ اہم افغانستان کے مسئلے پر توجہ دے سکے؟

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری دہلی میں ڈان کے نمائندے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں