انڈیا: مسلم مدرسوں میں ہندو ٹیچرز

27 اگست 2014
میرٹھ کے مدرسۂ حدیث الحق میں نیتن طالبات کو سائنس پڑھا رہے ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ بی بی سی ہندی
میرٹھ کے مدرسۂ حدیث الحق میں نیتن طالبات کو سائنس پڑھا رہے ہیں۔ —. فوٹو بشکریہ بی بی سی ہندی

نئی دہلی: ہندوستانی ریاست اترپردیش کے شہر سہارنپور کے رہنے والے آر ایس ایس کے کارکن مہندر سنگھ کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کے اکثر کارکن مسلم مدرسوں کے بارے میں اچھے تصورات نہیں رکھتے۔

اور یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔

البتہ نئی بات یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال سے مہندر سنگھ اپنے ہی گاؤں کے ایک مسلم مدرسے میں پڑھا رہے ہیں۔ یہی نہیں، ان کے گاؤں کے قریب رہنے والی پنکی بھی اسی مدرسے میں پڑھاتی ہیں۔

ہندو اساتذہ اور مدرسے میں؟ سننے میں تو نہایت عجیب بات لگتی ہے کیونکہ مسلمانوں کے مذہبی مدرسوں پر بنیاد پرستی کو فروغ دینے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔

لیکن خاصی چھان بین سے پتہ چلا ہے مسلم مدرسوں میں بھی، ہندوستانی معاشرے کی مانند بہت کچھ تبدیل ہورہا ہے اور ان مدرسوں میں پڑھانے والے ہندو اساتذہ کی بھی تعداد میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

ایک سال سے زیادہ عرصے کے دوران اپنے تجربات کے بارے میں بیان کرتے ہوئے مہندر سنگھ کا کہنا ہے کہ انہوں نےمسلم مذہبی مدرسے میں کبھی کسی کو بنیاد پرستی کا سبق پڑھاتے ہوئے نہیں دیکھا ۔

وہ کہتے ہیں، ’’ہم اپنے مدرسے میں ہندوستان کا قومی ترانہ وندے ماترم بھی گاتے ہیں اور بھارت ماتا کی جےجے کار بھی کرتے ہیں۔ مذہبی مدرسوں میں بھارتی ثقافت کی تعلیم کی جانب بھی طالب علموں کے رجحان میں اضافہ دیکھا جارہا ہے۔‘‘

مہندر سنگھ کا کہنا ہے کہ چند ماہ پہلے آر ایس ایس یونین کے اجلاس میں ان سے مسلم مذہبی مدرسے میں ان کی ٹیچنگ کے حوالے سے سوالات بھی پوچھے گئے تھے۔

مہندر سنگھ کہتے ہیں ’’میں نے وہاں سب کو بتایا کہ ہندوؤں کی جانب سے چلائے جانے والے بہت سے ایسے اسکولوں سے میں واقف ہوں جہاں ہندوستان کا قومی ترانہ یا قومی گیت تک نہیں گایا جاتا۔ میں نے یونین کے لوگوں کو بتایا کہ مسلمانوں کے مذہبی مدرسوں میں صورتحال وہ نہیں ہے، جیسی کہ مشہور کردی گئی ہے۔‘‘

قریبی گاؤں میں رہنے والی پنکی بھی مدرسے میں پڑھاتی ہیں، وہ ایک کاشتکار خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مدرسے میں پڑھاتے ہوئے انہیں اب چھ مہینے ہو گئے ہیں اور اس دوران نہ تو ان کے گھر میں کسی نے اس کی مخالفت کی نہ برادری والوں نے۔

میرٹھ کے سراوا گاؤں کے ایک مدرسے میں پڑھانے والی لڑکی کی جانب سے مذہب کی تبدیلی کے لیے زبردستی کرنے کے الزام لگائے جانے کے بعد مغربی اتر پردیش میں مسلم مذہبی مدرسوں کے کردار کے حوالے سے ایک مرتبہ پھر بحث چھڑ گئی ہے۔

ان الزامات کے بعد کچھ مسلم تنظیموں نے مدرسوں میں ہندو اساتذہ کی تقرری نہ کرنے کا مطالبہ شروع کر دیا ہے۔

مگر اترپردیش جدید مدرسہ استاد یونین نے ایسے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ مدرسوں میں ہندو اساتذہ کا تدریس کرنا ایک مستحسن عمل ہے اور انہیں مزید مراعات ملنی چاہیٔے تاکہ مسلمان طالب علم معاشرے کے معاملات کو قریب سے سمجھ سکیں۔

میرٹھ کے لليانا گاؤں کے مدرسۂ حدیث الحق میں سائنس پڑھانے والے نیتن کا کہنا ہے کہ انہیں جو عزت اپنے ساتھی اساتذہ اور طلبا سے ملتی ہے، اس کی وجہ سے اب وہ اس مسلم مدرسے کے علاوہ کسی اور تعلیمی ادارے میں پڑھانا نہیں چاہتے ہیں۔

نیتن پچھلے چار سالوں سے اس مدرسے میں پڑھا رہے ہیں، پہلے وہ ایک نجی سکول میں پڑھاتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، ’’شروع شروع میں تو مجھے عجیب سا لگا، مگر اب مسلمانوں کے مذہبی مدرسے میں پڑھانا اچھا لگ رہا ہے۔‘‘

ان کا کہنا ہے کہ مدرسوں کے بارے میں جو عام تاثر بن گیا ہے، وہ غلط ہے کیونکہ تعلیم کو سیاست سے نہیں منسلک کرنا چاہیٔے۔

مدرسہ حدیث الحق قرآن میں ہندی پڑھانے والے ونود کمار کو لگتا ہے کہ تمام مدارس کو ایک ہی نکتۂ نظر سے نہیں دیکھنا چاہیٔے۔

وہ کہتے ہیں ’’چند ایک مدرسوں میں ممکن ہے ایسا ہوسکتا ہے، مگر مسلمانوں کے تمام مذہبی مدرسے ایسے نہیں ہیں۔ ہم یہاں اتنے سالوں سے پڑھا رہے ہیں، ہمیں تو کچھ بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا ہے۔ دوسری تعلیمی اداروں کی طرح یہ مدرسہ بھی تعلیم کا مرکز ہے اور انہیں بھی اسی طرح دیکھا جانا چاہئے جیسا آپ دوسرے تعلیمی اداروں کو دیکھتے ہیں۔‘‘

لليانا گاؤں کے مدرسے کے صدرمدرس شکیل احمد کہتے ہیں کہ ان کے مدرسے میں پڑھانے والوں میں پچیس فیصد اساتذہ ہندو ہیں جو نہایت اہم موضوعات پڑھاتے ہیں، مثلاً ریاضی، سائنس، ہندی اور کمپیوٹر۔

ان کا کہنا تھا کہ اس مدرسے میں ہندو اساتذہ کی تدریس کا سلسلہ گزشتہ دس سالوں سے جاری ہے۔

مدرسوں کے بارے میں عام طور پر یہ خیال رہا ہے کہ یہاں پڑھانے والے استاد باریش، اور ٹوپی پہنے ہوئے مولوی صاحب ہی ہوں گے۔ مگر اب یہاں تلک لگا کر پڑھانے والے بھی نظر آ رہے ہیں۔ ہندوستان میں مدرسوں کا دہائیوں پرانا روایتی انداز اب کچھ کچھ تبدیل ہو رہا ہے۔

بشکریہ: بی بی سی ہندی

تبصرے (0) بند ہیں