اگر بغاوت معمول بن گئی تو خانہ جنگی کا خدشہ ہے: سپریم کورٹ

28 اگست 2014
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کے دوران واضح کیا  کہ آئندہ نسلوں کے لیے آئین کو محفوظ بنانا چاہیٔے۔ —. فائل فوٹو
چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے سماعت کے دوران واضح کیا کہ آئندہ نسلوں کے لیے آئین کو محفوظ بنانا چاہیٔے۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے خدشات ظاہر کیے ہیں کہ اگر احتجاج کے ذریعے حکومت کا تختہ اُلٹنے کا رُجحان معمول بن جاتا ہے تو پھر ملک میں خانہ جنگی اور افراتفری کی ملک پر حکمرانی ہوگی۔

چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کے ایک رکن جسٹس انور ظہیر جمالی نے کہا ’’اگر ہجوم کو متحرک کرکے حکومت کو ہٹانے کا رجحان جڑ پکڑ گیا تو ملک میں خانہ جنگی اور افراتفری پھیل جائے گی۔‘‘

سپریم کورٹ کا یہ پانچ رکنی بینچ دارالحکومت میں جاری دھرنوں کے نتیجے میں غیرآئینی اقدامات کو روکنے کے لیے دائر کی گئی ایک جیسی کئی درخواستوں کی سماعت کررہا ہے۔

جسٹس انور ظہیر جمالی نے یہ واضح بھی کیا کہ سپریم کورٹ کے ججز اپنی ذات کے لیے کوئی خصوصی استحقاق کا مطالبہ نہیں کررہے ہیں، بلکہ عام شہریوں، سپریم کورٹ کے عملے کے ساتھ ساتھ روزانہ عدالت میں آنے والے وکلاء کے حقوق کا تحفظ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ عدالت کو متاثرین کی شکایات ملی تھیں، ان میں سے بہت سے یونیفارم میں تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سیکیورٹی کارکنوں کی جانب سے انہیں اپنی شناخت کروانے کے لیے کہا گیا۔ ان سیکیورٹی کارکنوں نے شاہراہِ دستور کو بند کررکھا ہے۔

اس موقع پر جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مداخلت کرتے ہوئے کہا ’’یہ مقدمہ صرف ایک خاص سڑک کے بارے میں نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ آئین اور اس کو لاحق خطرات کا معاملہ ہے۔

جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ذومعنی انداز میں مارشل کے امکان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا یہ ایک آرتھوپیڈک سرجن سے ملتا جلتا معاملہ ہے، جو دماغ کی سرجری کرنا چاہتا ہے، جبکہ وہ اس سے پہلے چار مرتبہ ناکام رہا ہے۔

لیکن درخواست گزار اس بات پر بضد رہے کہ سپریم کورٹ کو انہیں روکنا چاہیٔے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ایک جذباتی اپیل کرتے ہوئے کہا کہ آئندہ نسلوں کے لیے آئین کو لازماً محفوظ بنانا چاہیٔے۔

فاضل جج نے یاد دلایا کہ سپریم کورٹ کے اکتیس جولائی کے فیصلے کے بعد چیزیں تبدیل ہوگئی تھیں، جس میں تین نومبر 2007ء کو ایمرجنسی کے اقدام کو غیر قانونی قرار دے دیاگیا تھا۔

اس فیصلے نے اعلٰی عدالت کے ججوں کے لیے ضابطہ اخلاق کی ایک نئی لائن متعارف کرائی ہے، جس کے تحت یہ شرط عائد ہوتی ہے کہ کوئی جج کسی بھی ایسے سرکاری عہدے دار کی حمایت نہیں کرسکتا، جو غیرآئینی طریقے سے اختیارات حاصل کرنے کی کوشش کرے گا۔

فاضل جج نے سال 2000ء کے دوران چلنے والے بش بمقابلہ گور کے معروف امریکی مقدمے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی گندگی کو عدالت میں نہیں دھونا چاہیٔے۔

انہوں نے یہ عزم ظاہر کیا کہ عدلیہ کی آزادی پر کبھی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

بدھ کے روز پی ٹی آئی کی جانب سے حامد خان پیش ہوئے اور عدالت سے کہا کہ وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے اس تعطل کو ختم کرنے کے لیے ازخود نوٹس لے۔

انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں مبینہ دھاندلی کی تحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن کی تشکیل کے سلسلے میں دی گئی درخواست کا حوالہ دیا۔

لیکن جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مشورہ دیا کہ انہیں ازخود نوٹس کی کارروائی کے لیے کہنے کے بجائےایک درخواست دائر کرنی چاہیٔے۔

پاکستان عوامی تحریک کے وکیل علی ظفر نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ عدالت کی خواہشات کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیں گے، لیکن اسلام آباد کے شہریوں کی حقیقی پریشانی اہم سڑکوں کو کنٹینر کے ذریعے بلاک کیا جانا ہے۔

پی اے ٹی کے وکیل نے عدالت کو یقین دہانی کرائے کی گاڑیوں کی آزادانہ نقل وحرکت کو روکا نہیں جائے گا، اور شاہراہِ دستور کی ایک جانب کو خالی کرکے پارلیمنٹ ہاؤس اور سپریم کورٹ تک آنے جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پی اے ٹی کے جواب سے ایسا لگتا ہے کہ پارٹی قیادت کا اپنے کارکنوں پر مکمل کنٹرول نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں