عظیم مقاصد، پر راستہ؟

29 اگست 2014
سوال یہ نہیں ہے کہ عمران خان اور نواز شریف میں سے کون بہتر ہے، بلکہ یہ ہے کہ کسی گروپ کے پاس دوسروں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کا کیا حق ہے۔ — فوٹو رائٹرز
سوال یہ نہیں ہے کہ عمران خان اور نواز شریف میں سے کون بہتر ہے، بلکہ یہ ہے کہ کسی گروپ کے پاس دوسروں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کا کیا حق ہے۔ — فوٹو رائٹرز

حالیہ سیاسی بحران پر مختلف عمروں، بیک گراؤنڈ، اور طبقوں، سے تعلّق رکھنے والے لوگ بے پناہ سیاسی تجزیے کر رہے ہیں۔ لیکن لوگ حقیقی چیز پر کم ہی توجہ دے رہے ہیں۔ لوگ اس بات پر تو بحث کرتے ہیں کہ آیا نواز شریف کرپٹ ہیں، یا یہ کہ آیا عمران خان ہی وہ لیڈر ہیں جو پاکستان کو مشکلات سے نکال سکتے ہیں۔

لیکن یہ سب کچھ غیر متعلقہ ہے۔

سوال یہ نہیں ہے کہ آپ عمران خان کو سپورٹ کر رہے ہیں، یا نواز شریف کو۔ بلکہ یہ ہے کہ کیا کوئی شخص اپنے حامیوں کے ساتھ مل کر منتخب وزیر اعظم کا استعفیٰ اور اسمبلیوں کی تحلیل طلب کر سکتا ہے؟ جبکہ اس کے پاس صرف کچھ حلقوں میں دھاندلی کے غیر تصدیق شدہ ثبوت موجود ہوں؟

اس کے علاوہ، کیا یہ وزیر اعظم کے لیے ٹھیک ہوگا کہ وہ غیر تصدیق شدہ دعوؤں کی بنا پر استعفیٰ دے کر گھر چلے جائیں؟ کیا یہ صحیح ہوگا کہ وہ ان اسمبلیوں کو تحلیل کر دیں، جن میں دوسری سیاسی جماعتوں کو بھی عوامی مینڈیٹ ملا ہے؟

سوال یہ نہیں ہے کہ عمران خان اور نواز شریف میں سے کون بہتر ہے، بلکہ یہ ہے کہ کسی گروپ کے پاس دوسروں پر اپنی مرضی مسلّط کرنے کا کیا حق ہے۔

عمران خان کا مطالبہ یہ ہے کہ کیونکہ کچھ حلقوں میں مبینہ طور پر دھاندلی ہوئی تھی، اس لیے تمام اسمبلیاں تحلیل کر دی جائیں، وزیر اعظم استعفیٰ دیں، اور الیکشن دوبارہ کرائے جائیں۔ بھلے ہی یہ مطالبات عمران خان کی طرف سے دھاندلی کے مسئلے کو ماضی میں کئی مقامات پر اٹھانے کے بعد سامنے آئے ہیں، لیکن کچھ لوگ ہیں جو ان کی اس اپروچ سے اختلاف رکھتے ہیں۔

پچھلے کچھ دنوں میں یہ بات بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے، کہ اسمبلیوں میں نمائندگی رکھنے والی کوئی بھی جماعت عمران خان کے مطالبات سے متفق نہیں ہے۔ اور ایسا کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں سمیت بیشمار لوگ ان کے حالیہ رویے سے اتفاق نہیں کرتے۔

عمران خان کے مطالبات کی حمایت کرنے والوں کی بنیادی دلیل یہ ہے کہ عمران خان نے اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے تمام قانونی ذرائع سے مدد حاصل کرنی چاہی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان تمام کورٹوں کے دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں، اور اب ان کے پاس اور کوئی آپشن نہیں تھا۔ لیکن اگر عمران خان تمام کوششوں کے باوجود بھی کامیاب نہیں ہوئے تھے، تو اچھا ہوتا کہ وہ صحیح جگہوں پر پریشر بنائے رکھتے، جیسے کہ ایک غیر جانبدار انویسٹیگیشن ایجنسی سے تحقیقات کا مطالبہ، اور جن حلقوں میں دھاندلی ثابت ہوجائے، ان میں دوبارہ انتخابات کا مطالبہ۔

عمران خان کے حامیوں کی جانب سے ایک اور دلیل یہ دی جاتی ہے، کہ جب تک نواز شریف اقتدار میں ہیں، تب تک دھاندلی کی آزادانہ و شفاف تحقیقات ممکن نہیں ہیں۔ یہ دلیل بھی بے بنیاد ہے۔ اگر وہ حکومت میں ہوئے بغیر انتخابات میں دھاندلی کرا سکتے ہیں، تو کیا استعفیٰ دینے کے بعد وہ تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہو سکتے؟

اب صرف انتظار کیا جا سکتا ہے کہ پی ٹی آئی کا اگلا مطالبہ کیا ہوگا، اور دیکھنا پڑے گا کہ کیا پی ٹی آئی اس ملک کے اداروں پر یقین کرنے کو تیار ہو گی یا نہیں، کیونکہ مجھے لگتا ہے کہ سول سوسایٹی اور قومی میڈیا کے پریشر کے وجہ سے انتخابات میں دھاندلی کی شفاف تحقیقات ممکن ہیں۔

ایک اور بات دیکھی جانی چاہیے، کہ عمران خان اور ان کے حامی اکثر یہ کہتے ہیں کہ جیسے ہی عمران کچھ اچھا کرنے لگتے ہیں، تو قانون حرکت میں آنے لگتا ہے، لیکن دوسری جماعتوں کی مبینہ کرپشن کے وقت قانون خاموش رہتا ہے۔

لیکن کیا عمران خان نواز شریف کے استعفے کا مطالبہ کر کے قانون کی پابندی کر رہے ہیں؟ کیونکہ یہ میرا حق ہے کہ میں نے جس حکومت کو ووٹ دیا ہے، وہ قائم رہے۔

پاکستان کے لوگوں سے میری اپیل ہے، کہ وہ اپنی سیاسی وابستگیوں کو ایک طرف رکھ کر ان سوالوں کا تنقیدی جائزہ لیں۔

"کیا صرف کچھ حلقوں میں دھاندلی کے غیر تصدیق شدہ ثبوتوں کی بنا پر تمام اسمبلیوں کی تحلیل کا مطالبہ درست ہے؟"۔ "صرف اسلیے کہ آپ الیکشن کے نتائج سے خوش نہیں، کیا آپ دوسروں کے مینڈیٹ کو تسلیم نہیں کریں گے؟"۔

عمران خان کی نیت ضرور درست ہو سکتی ہے، لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ وہ کہاں جا رہے ہیں، اور اس طوفان کے نتیجے میں کیسی ان چاہی افرا تفری پھیل سکتی ہے، اس کو مد نظر رکھ کے کہا جا سکتا ہے کہ اچھے مقاصد کے لیے ایسے راستے اختیار نہیں کیے جانے چاہییں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں قانون کے طالب علم ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

Muhammad Shahbaz Aug 29, 2014 05:51pm
ایک تعلیم یافتہ اور با شعور انسان کا یہی موقف ہونا چاہیے ۔ لیکن اگر اجازت دی جائے تو کیا یہ پوچھا جا سکتا ہے کہ ایک سال قانونی دروازے کھٹکھٹانے کے بعد اور ہزارہا بیان دینے کے بعد آخر وہ کون سا جاددوائی طریقہ ہے جس سے پریشر برقرار رکھا جا سکتا تھا۔ کیا آپ نہیں جاتنے کہ حکومت نے چار حلقے کھولنے کے مطالبے کا کس طرح سے مذاق اڑایا ۔ وہ حکومت جو چودہ لوگوں کے قتل کی ایف آئی آر تک درج نہیں ہونے دیتی اور اگر اجازت دیتی ہے تو اس وقت جب اس کے پاس کوئی راستہ نہیں رہتا کیا اس سے یہ توقع کرنا عبث نہیں کہ وہ بیانات یا اس طرح کی دوسری ہومیو پیتھک سرگرمیوں سے پریشر میں رہے گی ۔ میں جمہوریت کے حق میں ہوں ۔ لیکن جمہوریت فلاح کے لئے ہوتی ہے ۔ یہ نقلی جمہوریت ہے اور ایسی نقل جسے "نقل بمطابق اصل " بھی نہیں کہا جا سکتا۔
آشیان علی Aug 29, 2014 07:34pm
اگر 800 ووٹ کو 7800 کرنا درست ہے. اگر دھاندلی کر کے الیکشن جیتنا درست ہے. اگر دھاندلی زدہ الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم بننا درست ہے. اگر 100 لوگوں کے منہ میں گولی مارنا درست ہے. تو چند ہزار لوگوں کو لے کر وزیر اعظم سئ استیفی طلب کرنا بلکل درست ہے. انتخابات کے بعد الیکشن ٹریبیونلز کی طرف سے جتنے حلقوں میں دھانلی ثابت ہوئی ان میں 90% مسلم لیگ نون کے کامیاب ہونے والے امیدوار تھے. اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر سارے انتخابات انجینئیرڈ تھے تو اس کا 90% فائدہ مسلم لیگ نون کو ہی ہوا ہے. بھائی صاحب قانونی وزیر اعظم کو قانون اور آئین کے مطابق ہی ہٹانا درست ہے مگر غیر قانونی اور انجینئرڈ الیکشن کے نتیجے میں وزیر اعظم بننے والے کو ہٹانے کے لیے غیر قانونی راستہ اپنانا غلط نہیں ہے .