جمہوریت کے تسلسل کی ضرورت

29 اگست 2014
لکھاری واشنگٹن ڈی سی میں مقیم اور خارجہ پالیسی کے ماہر ہیں۔
لکھاری واشنگٹن ڈی سی میں مقیم اور خارجہ پالیسی کے ماہر ہیں۔

پچھلے پندرہ دنوں میں ہونے والے واقعات کے بعد اب ہم اچھی طرح یہ اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ پاکستان جمہوریت کو مضبوط کرنے میں کتنا کامیاب ہوا ہے۔ 2008 سے لے کر اب تک جمہوریت کے پھلنے پھولنے پر ہم خوش تھے، اور اسی خوشی میں ہم نے یہ بھلا دیا کہ پاکستان میں اب بھی سیاسی مقابلوں کے کوئی قواعد و ضوابط موجود نہیں ہیں۔

پولش-امریکی ماہرسیاسیات ایڈم پرزیورسکی جمہوری استحکام (Democratic Consolidation) کی تعریف میں اسے ایسی حالت قرار دیتے ہیں، جب تمام حلقے جمہوریت کو تسلیم کر لیں۔ ہمارے سیاق و سباق میں دیکھیں، تو جمہوری استحکام کا مطلب یہ ہوگا، کہ سیاسی جماعتیں یہ سمجھ لیں کہ انھیں ایک دوسرے کا مقابلہ صرف جمہوری دائرے میں رہتے ہوئے، کچھ قواعد و ضوابط کے تحت ہی کرنا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے یہ قواعد و ضوابط سمجھنا، انھیں منصفانہ تسلیم کرنا، اور ان پر عمل کرنا سب کے لیے ضروری ہے۔

لیکن اسلام آباد میں جو کچھ بھی ہورہا ہے، اس میں ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔

دھرنے کے بارے میں ایک تھیوری یہ ہے، کہ یہ پورا ڈرامہ فوج نے ترتیب دیا تھا۔ عمران خان (اور قادری) کو جی ایچ کیو نے استعمال کیا، تاکہ نواز شریف جو ملٹری سے خارجہ پالیسی کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں، کے کے ارادوں کو نیچا دکھایا جا سکے۔ اگر یہ صحیح ہے، تو کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا ہے، کیونکہ فوج اب بھی حکومتوں کو اپنی مرضی سے سپورٹ بھی کر سکتی ہے، اور انھیں چیلنج بھی کر سکتی ہے۔

دوسری توجیہ عمران خان کے حامیوں کی ہے، جو یہ کہتے ہیں کہ عمران خان انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی پر حکومت کے غیر سنجیدہ رویے سے تنگ آ چکے تھے، اور مجبوراً انھیں لانگ مارچ کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ اور یہ اسی لیے کیا گیا، تاکہ لانگ مارچ کے نتیجے میں ججز بحالی کی مثال کو دوبارہ دہرایا جا سکے۔

اگر وہ چاہ رہے تھے کہ حالات ویسا ہی موڑ لیں، تو انھیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ نواز شریف کو (ججز بحالی میں) کامیابی ان کی ریلیوں کی وجہ سے نہیں بلکہ ملٹری کی وجہ سےملی، جس نے فیصلہ کیا کہ کھیل کیسے ختم ہوگا۔ ایک بار پھر، یہ مکمّل طور پر سویلین اور مستحکم جمہوریت کا خاصہ نہیں ہے۔

دوسری جانب اگر عمران خان نے یہ سوچا تھا کہ وہ حکومت کو گھٹنوں پر لے آنے جتنی عوامی حمایت رکھتے ہیں، تو یہ بہت عجلت میں لگایا گیا اندازہ تھا، کیونکہ ان کے پاس اتنی حمایت نہیں تھی، کہ وہ حکومت کے اخلاقی جواز پر اعتراض اٹھا سکیں۔ لیکن پھر بھی عمران خان پیچھے نہیں ہٹے۔ سیاسی مبصرین یہ سمجھنے میں ناکام رہے، کہ آخر عمران خان با عزت طریقے سے پیچھے ہٹنے کے سارے راستے کیوں ختم کرتے جا رہے ہیں۔

عمران خان کے ذہن میں یہ تھا، کہ وہ نقصان اٹھانے والی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ان کے پارٹی کے ایک اسملبی ممبر نے مجھے بتایا تھا، کہ وہ اس بات پر راسخ ہیں کہ پی پی پی اور پی ایم ایل ن کے ہوتے ہوئے وہ کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔

عمران خان نے سوچا تھا، کہ پورا سسٹم کریش ہوئے بغیر اس کو پوری طرح بدلنا ممکن ہوگا۔ اگر کریش کے بعد اسے دوبارہ کھڑا کرنا پڑتا، تو عمران خان کے نزدیک وہ بھی "سٹیٹس کو" کی ان تسلیوں میں وقت ضائع کرنے سے بہتر تھا، جو حکومت مارچ سے پہلے دے رہی تھی۔ اس لیے وہ داؤ پر زیادہ سے زیادہ چیزیں لگاتے رہے، بھلے ہی وہ یہ بات جانتے تھے کہ مسئلہ جتنا لمبا ہوگا، اتنا ہی فوجی مداخلت کے امکانات بڑھ جائیں گے۔

حکومت جی ایچ کیو سے ملنے والے اشاروں کے بارے میں فکرمند تھی۔ جب سے اس نے اسلام آباد میں آرٹیکل 245 کے تحت فوج طلب کی تھی، تب سے ہی وہ یہ یقینی کر لینا چاہتی تھی، کہ فوج اس کی پشت پناہی کرے گی۔ یا کم از کم مظاہروں کی پشت پناہی نہیں کرے گی، بھلے ہی افواہوں کے مطابق، اس کے بدلے فوج کو پالیسی سازی میں کچھ حصّہ دینا پڑے۔ حکومت کے رویے کا جائزہ لیں، تو آپ کو حکومتی رد عمل، اور حکومت کے خیال میں فوج کے ممکنہ رد عمل میں گہری مماثلت نظر آئے گی۔

سبھی کو معلوم تھا کہ فوج ثالث کا کردار ادا کرے گی، اور فوج نے اسے استعمال کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اس پورے مرحلے میں آئی ایس پی آر کی جانب سے مسئلے کو بات چیت کے ذریعے سلجھانے پر زور دیا جاتا رہا۔ اس کے بعد کس قدر عجلت میں مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا، اس سے معاملات کے اوپر جی ایچ کیو کی گرفت کا اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے۔

آخر میں اگر ہم میڈیا کو رائے عامہ جاننے کا ذریعہ قرار دیں، تو یہ بات واضح ہے کہ ہم لوگ ملک میں جمہوریت کے تسلسل پر مختلف موقف رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کی جانب سے سسٹم کے خلاف بیانات پر کیسے مطمئن نظر آ رہے ہیں، اس میں کسی حیرانی کی بات نہیں ہے۔ زیادہ پریشانی کی بات یہ ہے، کہ کھیل کے ضوابط کو آئینی طریقے سے بہتر بنانے کی 2008 سے جاری کوششیں کچھ خاص رنگ نہیں لائی ہیں، کیونکہ جو لوگ تبدیلی لا سکتے ہیں، ان کے سٹیٹس کو میں گہرے مفادات ہیں۔

یہ وہ چیز ہے، جس پر سویلین اور ملٹری قائدین کو سوچنا چاہیے، لوگ سسٹم کی ڈیلیور کرنے کی قابلیت سے مایوس ہو چکے ہیں۔ اور جب تک یہ ایسا رہے گا، تب تک اس کے تسلسل پر سوالات اٹھتے رہیں گے۔

مجھ جیسے پر امید لوگوں کو دیکھنا چاہیے کہ پچھلے 6 سال جمہوری استحکام کے لیے کیسے رہے ہیں۔ ہم پرزیورسکی کی بیان کردہ تعریف کے نزدیک بھی نہیں ہیں۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری واشنگٹن ڈی سی میں مقیم اور خارجہ پالیسی کے ماہر ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 26 اگست 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں