واشنگٹن: ایک نئے سروے سے ظاہر ہوا ہے کہ 64 فیصد پاکستانی ڈی چوک کے احتجاجی دھرنوں سے پہلے وزیراعظم نواز شریف کے بارے میں مثبت رائے رکھتے تھے، جبکہ عمران خان کی حمایت 17 پوائنٹس کی کمی آئی تھی۔

پیو ریسرچ سینٹر کی جانب سے کیے گئے سروے کے نتائج میں بتایا گیا ہے کہ پچھلے سال انتخابات میں کامیابی کے بعد چند ہفتوں پہلے تک تقریباً 66 فیصد پاکستانیوں کی رائے وزیراعظم کے حق تھی۔

اس سروے کے لیے ریسرچرز نے بارہ سو تین بالغ پاکستانیوں کے پندرہ اپریل سے سات مئی 2014ء تک انٹرویوز کیے تھے۔ اس نمونے سے پاکستان کی تقریباً 82 فیصد بالغ آبادی کا احاطہ کیا گیا تھا۔

تقریباً ایک تہائی یعنی 32 فیصد نے نوازشریف کے حق میں رائے نہیں دی۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان دھرنے سے پہلے 53 فیصد مثبت اور 24 فیصد منفی درجہ بندی کے ساتھ پاکستان کے دوسرے سب سے زیادہ مقبول رہنما تھے۔

لیکن ان کی مقبولیت میں گزشتہ دوسالوں کے دوران سترہ فیصد تک کمی آئی تھی۔

علاوہ ازیں ملک کی مسلح افواج پاکستان کی سیاست میں ہمیشہ سے ایک اہم کھلاڑی رہی ہے، نے 87 فیصد تک بلند حیران کن درجہ بندی حاصل کی۔

کہا جاتا ہے کہ قوم پر فوج کا اچھا تاثر ہے، اس سے پہلے کے سروے میں بھی فوج کو بلند درجہ بندی حاصل تھی، جو 2013ء میں 79 فیصد تھی۔

اس عرصے میں ملک جس سمت کی جانب بڑھ رہا ہے زیادہ تر پاکستانی اس سے خوش نہیں ہیں، تاہم حالیہ برسوں کے دوران عوامی رویّہ کہیں زیادہ مثبت ہوا ہے۔ حالانکہ پاکستان میں چیزیں جس طرح آگے جارہی ہیں، اس سے صرف پچیس فیصد افراد ہی مطمئن ہیں، تاہم یہ نمایاں بہتری ہے، اس لیے کہ 2013ء میں صرف 8 فیصد لوگ ایسا محسوس کرتے تھے۔

ایسے لوگ جو کہتے ہیں کہ پاکستان میں معیشت اچھی حالت میں ہے، ان کی تعداد پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی ہوگئی ہے، یعنی یہ تعداد پچھلے ساتھ 17 فیصد تھی اور اب 37 فیصد ہوگئی ہے۔

اور 36 فیصد لوگوں کو امید ہے کہ ملکی معیشت اگلے بارہ مہینوں میں بہتر ہوجائے گی۔

انتہا پسند گروہ:

حالانکہ اب بھی پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ان کے ملک کو بڑی تعداد میں چیلنجز کا سامنا ہے، تاہم وہ عوامی قرضوں، افغانستان کی صورتحال، سنّی اور شیعہ میں کشیدگی اور بدعنوانی کو بہت بڑے پریشان کن مسائل کے طور پر کم ہی بیان کرتے ہیں۔

اس سروے سے یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ صرف 8 فیصد عوام طالبان کے بارے میں مثبت رائے رکھتی ہے، اور محض 12 فیصد کا کہنا ہے کہ وہ القاعدہ کے حق میں رائے رکھتے ہیں ۔

ملک کو درپیش خطرات:

جب دریافت کیا گیا کہ ملک کو سب سے زیادہ خطرات کس سے ہیں، طالبان، القاعدہ یا ہندوستان سے، تو 51 فیصد پاکستانیوں کا کہنا تھا کہ ہندوستان ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔ یہ رائے رکھنے والوں کی تعداد 2013ء میں 38 فیصد تھی۔

چار میں سے ایک فرد نے اس حوالے سے طالبان کا نام لیا اور صرف دو فیصد نے القاعدہ کو ملک کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا۔

ہندوستان:

تقریباً دس میں سے سات افراد (71 فیصد) نے ہندوستان کے لیے حوصلہ شکن نکتہ نظر کا اظہار کیا، جبکہ صرف 13 فیصد نے اس کو مثبت درجہ بندی میں رکھا۔

ریاست ہائے متحدہ امریکا:

صرف چودہ فیصد لوگوں نے امریکا کے حق میں رائے دی، اور محض سات فیصد نے صدر اوباما پر اعتماد کا اظہار کیا۔

پھر بھی امریکا اور اوباما کے لیے پاکستانیوں کی منفی رائے میں پچھلے چند سالوں کے دوران قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔

ڈرون حملے:

انتہاء پسند تنظیموں کے خلاف ڈرون حملے اوباما انتظامیہ کی قومی سلامتی پالیسی کا ایک اہم عنصر ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کو بڑے پیمانے پر ناپسند بھی کیا جاتا ہے۔

تین میں سے دو پاکستانی امریکی ڈرون حملوں کی مخالفت کرتے ہیں، جبکہ محض تین فیصد نے اس کی منظوری دی اور تیس فیصد نے اس پر کسی رائے کا اظہار نہیں کیا۔

دو تہائی پاکستانی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ڈرون حملوں سے اکثر معصوم لوگ ہلاک ہوتے ہیں، اور اکیس فیصد خیال کرتے ہیں کہ ملک کو انتہاء پسند گروں سے محفوظ رکھنے کے لیے یہ ضروری ہیں۔

لڑکیوں کی تعلیم:

پاکستانیوں کی بڑی تعداد لڑکیوں کی تعلیم کی حمایت کرتی ہے۔ دس میں سے آٹھ سے زیادہ (86 فیصد) پاکستانیوں کا کہنا ہے کہ تعلیم لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے یکساں اہم ہے۔

بہت کم لوگ ایسے ہیں جو خیال کرتے ہیں کہ تعلیم لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں کے لیے اہمیت رکھتی ہے، ایسے لوگوں کی تعداد محض سات فیصد ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا خیال ہے کہ لڑکوں سے زیادہ لڑکیوں کے لیے تعلیم ضروری ہے، ان کی تعداد صرف پانچ فیصد ہے۔

سابق صدر آصف علی زرداری جو ستمبر 2013ء میں اس عہدے سے سبکدوش ہوئے تھے، اس وقت ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد 14 فیصد تھی۔ وہ اب بھی غیر مقبول ہیں، اگرچہ ان کے عہدہ چھوڑنے کے بعد سے ان کی حمایت میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ڈی چوک کے احتجاجی دھرنوں سے پہلے تقریباً ایک چوتھائی پاکستانیوں (27 فیصد) کی رائے زرداری کے حق میں تھی، تاہم اس دوران ان کی مصالحانہ کوششوں کی وجہ سے ان کو پسند کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

پھر بھی 69 فیصد ان کے بارے میں منفی رائے رکھتے ہیں۔

جنرل راحیل شریف، سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور صدر ممنون حسین کے بارے میں منفی سے زیادہ مثبت رائے دی گئی، اگرچہ بہت سے لوگوں نے ان کے بارے میں رائے دینے سے انکار کردیا۔

دس میں تقریبا چار افراد (41 فیصد) نے جنرل راحیل شریف کے حق میں رائے دی، جبکہ 12 فیصد نے منفی نکتہ نظر پیش کیا۔

اسی طرح چالیس فیصد نے سابق چیف جسٹس چوہدری کے بارے میں مثبت رائے دی، 19 فیصد نے منفی نکتہ نظر کا اظہار کیا۔

جسٹس چوہدری کی حمایت میں 2010ء سے کمی آتی رہی ہے، جب ان کے حق میں مثبت رائے دینے والوں کی تعداد 61 فیصد تھی۔

صدر ممنون حسین کے حق میں رائے دینے والوں کی تعداد منفی رائے دینے والوں سے زیادہ رہی، لیکن پاکستانیوں کی اکثریت (55 فیصد) نے کاروباری طبقے سے سیاست کے میدان میں قدم رکھنے والے ممنون حسین کے بارے میں کسی قسم کی رائے دینے سے انکار کردیا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Aceleaf Aug 31, 2014 05:41am
نواز کی صلاحیتیں ، تعلیم ، تجربہ، ذہنی رجحان ایک عام سیاستدان کے معیار کا نہیں۔ دولت اور چاپلوسی کا سہارا لیکر وہ تین دفعہ وزیراعظم بن گیا ۔