پشاور: شمالی وزیرستان سے نقل مکانی پر مجبور ہونے والے افراد اپنے مرحوم عزیزوں کی میتوں تدفین کی جگہ کی تلاش میں پریشان ہیں، اس لیے کہ صوبائی حکومت اور مقامی انتظامیہ نے قبرستان کے لیے کوئی انہیں مخصوص جگہ فراہم نہیں کی ہے۔

کچھ لوگ اپنے عزیزوں کی میتوں کی اپنے آبائی قبرستانوں میں تدفین کے لیے کرم ایجنسی اور افغانستان کے ذریعے ایک طویل راستہ اختیار کررہے ہیں۔

متاثرہ افراد کا کہنا ہے کہ 18 جون سے شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے انتظامیہ اپنے عزیزوں کی میتوں کو اس علاقے میں لے جانے کی اجازت دے رہی تھی۔

دتّہ خیل کے علاقے کے ایک قبائلی بزرگ ملک غلام خان وزیر کہتے ہیں ’’بے گھر افراد مقامی لوگوں سے التجا کررہے ہیں کہ وہ ان کے عزیزوں کی میتوں کو اپنے قبرستانوں میں دفن کرنے کی اجازت دے دیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ ٹرانسپورٹرز یک میت کی خوست، افغانستان کے ذریعے بنوں سے شمالی وزیرستان منتقلی کے چالیس سے پچاس ہزار طلب کررہے ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے افراد کی ایک کمیٹی جو حکومت کے ساتھ مربوط ہے، کے ایک رکن غلام وزیر کا کہنا ہے کہ اب تک پچانوے افراد کی وفات ہوئی تھی، اور ان کی میتوں کو بنوں، لکی مروت اور ڈیرہ اسماعیل خان کے مقامی قبرستانوں میں دفن کیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ کرفیوں اور تصادم کی وجہ سے ان لوگوں یہ میتیں اس علاقے میں لے جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

غلام وزیر کہتے ہیں کہ ’’کچھ صورتوں میں مقامی لوگ بے گھر افراد کی میتوں کو اپنے قبرستانوں میں دفن کرنے سے انکار کردیا تھا۔‘‘

شمالی وزیرستان کے شورش زدہ علاقے سے پانچ لاکھ سے زیادہ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوئے تھے، اور انہوں نے خیبر پختونخوا کے مختلف ضلعوں میں پناہ لی تھی، ان کی اکثریت بنوں میں مقیم ہے۔

یادد رہے کہ 2009ء کے دوران جنوبی وزیرستان، خیبر ایجنسی اور دیگر قبائلی علاقوں سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو اسی طرح کے مخمصے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

محسود قبائل کے چھتیس ہزار بے گھر خاندانو ں کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے خلاف فوجی آپریشن کی وجہ سے 2009ء میں اپنے علاقے سے باہر نکالا گیا تھا، انہوں نے اپنی میتوں کی تدفین کے ڈیرہ اسماعیل خان کے قریب زمین خرید لی تھی۔

خیبر ایجنسی کے سب ڈویژن باڑہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو اسی طرح کے مسئلے کا سامنا کررہے ہیں۔

جلوزئی کیمپ نوشہرہ میں 2009ء سے مقیم حاجی گل بٹ خان کہتے ہیں کہ بے گھر افراد اپنے وفات پانے والے عزیزوں کی میتوں کو افغان پناہ گزینوں کے تین متروک قبرستانوں میں تدفین کررہے ہیں، جنہوں نے وہاں تقریباً تین دہائیوں تک قیام کیا تھا۔

بہت سی صورتوں میں شمالی وزیرستان کے بے گھر افراد اپنے فوت شدگان کی میتوں کو عارضی طور پر خیبر پختونخوا کے میزبان علاقوں میں اس عہد کے ساتھ تدفین کر رہے ہیں کہ جب وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹیں گے تو ان میتوں کو بھی واپس لے جائیں گے۔

یہاں کے لوگ باہر سے آنے والے لوگوں کو اپنے قبرستانوں میں زمین کے تنازعات سے بچنے کے لیے ان کی میتوں کو دفن کرنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔

اسی طرح کی صورتحال کا مشاہدہ اس وقت بھی کیا گیا تھا، جب بونیر اور سوات کے لوگوں نے بھی اپنے علاقے میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی کی وجہ سے نقل مکانی کرنی پڑی تھی۔

دیگر ملحقہ دیہاتوں کے لوگوں نے ان بے گھر افراد کے لیے اپنے دروازے کھول دیے تھے، لیکن اس صورتحال میں بھی انہوں نے ان بے گھر افراد کی میتوں کو اپنے قبرستانوں میں تدفین کی اجازت نہیں دی تھی۔

میرانشاہ سے تعلق رکھنے والے نذیر دین وزیر کہتے ہیں کہ بہت سے لوگوں نے عارضی طور پر اپنے عزیزوں کی میتوں کی تدفین بنوں اور لکی مروت میں کردی تھی، اس لیے کہ سیکیورٹی فورسز نے انہیں ان میتوں کو اپنے علاقوں میں واپس لے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔

قبائلی عمائدین نے نقل مکانی کے بعد سرحدی علاقوں کے وفاقی وزیر مملکت عبدالقادر بلوچ اور وزیرِ اعلٰی پرویز خٹک سے درخواست کی تھی کہ نقلِ مکانی کرنے والوں کو قبرستان کے لیے زمین فراہم کی جائے۔

نقل مکانی کرنے والوں کی کمیٹی کے ایک اور رکن خلیل وزیر نے بتایا ’’وفاقی وزیر اور وزیرِ اعلٰی نے قبرستان کے لیے زمین الاٹ کرنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ قبائلی عمائدین نے بنوں کے کمشنر سید محسن شاہ سے اس مقصد کے لیے دس کینال کی زمین الاٹ کرنے کی درخواست کی تھی، لیکن وہ بھی بے کار رہی۔

ایک اہلکار کا کہنا ہے کہ چیف سیکریٹری نے بھی بنوں کے کمشنر کو ہدایت کی تھی کہ شمالی وزیرستان سے ملحق بنّوں کے سرحدی علاقے میں قبرستان کے لیے زمین فراہم کی جائے، لیکن ان ہدایات پر عمل نہیں کیا گیا۔


غذائی اشیاء کے معیار کے بارے میں بے گھر افراد کی شکایت


۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

خیبر ایجنسی سے نقل مکانی کرنے والے افراد نے جمعرات کو جلوزئی کے کیمپ سے تقسیم کیے جانے والے راشن کے بارے شکایت کی کہ وہ انتہائی غیرمعیاری تھا اور وہاں پینے کے پانی کی قلت کی وجہ سے لوگوں کو سنگین مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔

جمعرات کو پشاور پریس کلب کے سامنے ایک احتجاجی کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے بے گھر افراد کے نمائندوں نے کہا کہ حکومت نے انہیں یکسر نظرانداز کردیا ہے اور ان کو فراہم کی جانے والی سہولیات انتہائی ناقص ہیں۔

اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے حاجی محمد اقبال نے کہا ’’بیت الخلاء اور پانی کی سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں، اور یہ لوگ اس طرح کے سنگین مسائل کا سامنا کررہے ہیں۔‘‘

انہوں نے کہا کہ صفائی کا کوئی انتظام نہیں ہے اور صورتحال بد سے بدتر ہوتی جارہی ہے، جس کے نتیجے میں مختلف بیماریوں کی شکایات بڑھ گئی ہیں۔

حاجی محمد اقبال کا کہنا تھا ’’ہم نے احتجاجی مظاہرے کیے، پریس کانفرنسیں اور متعلقہ حکام کے ساتھ ملاقاتیں کیں،لیکن انہوں نے ہماری پریشانیوں کا کوئی نوٹس نہیں لیا۔‘‘

انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ خیبر ایجنسی کے لوگوں پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔

مراد خان، صوبیدار شاہجہان اور گلاب خان نے بھی اس موقع پر خطاب کیا۔

تبصرے (0) بند ہیں