پانی کی کمی نا صرف پاکستان کے وجود کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، بلکہ یہ ہندوستان میں کشمیریوں کی بقاء پر بھی سوالیہ نشان لگا سکتی ہے۔

پانی کے معاملے میں مختلف مفادات رکھنے والے ہندوستانی جانب کے کشمیری اب 54 سال پرانے سندھ طاس معاہدے (Indus Water Treaty) پر اعتراض کرنے لگے ہیں، جو ان کے نزدیک ان کی خوشحالی کے لیے خطرہ بن گیا ہے۔

جموں و کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کے نزدیک سندھ طاس معاہدہ جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ سب سے بڑا فراڈ ہے۔ عبدللہ کے مطابق ریاست جموں و کشمیر سے گزرنے والے دریاؤں پر پہلا حق وہاں کے رہنے والے لوگوں کا ہے۔

ایسے وقت میں، جب کشمیری ہندوستان اور پاکستان سے اپنے زمینی اور آبی حقوق حاصل کرنے کی جدو جہد کر رہے ہیں، تب دریائے سندھ اور اسکی شاخوں میں بہنے والے پانی کے استعمال اور استحصال کا مسئلہ سیاست میں دب سکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے، کہ اس مسئلے کو پانی کی بہتر مینیجمنٹ اور اس کی بچت کے مقصد کو مد نظر رکھ کر ہی حل کیا جائے، کیونکہ یہ برصغیر کا سب سے نایاب قدرتی وسیلہ ہے۔

ہندوستان کی کشمیری لیڈرشپ کو انڈین نیشنل ہائیڈرو الیکٹرک پاور کارپوریشن (INHPC) کی جانب سے ریاست میں نئے بجلی گھروں کی تعمیر پر خدشات ہیں۔ ہندوستان کے وزیر اعظم کے نام ایک خط میں مقبوضہ کشمیر کے تین چیمبر آف کامرس کے سربراہان نے INHPC کو پانی سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری کرنے پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

اس کے علاوہ کشمیری لیڈر چاہتے ہیں کہ فعال بجلی گھروں کا کنٹرول ریاست کشمیر کو واپس کر دیا جائے، جبکہ مستقبل میں بننے والے تمام بجلی گھروں کا کنٹرول بھی کچھ عرصے تک چلتے رہنے کے بعد ریاست کے حوالے کردیا جائے۔

کشمیری لیڈر یہ بھی چاہتے ہیں، کہ انہیں جموں و کشمیر میں پیدا ہونے والی بجلی میں سے زیادہ سے زیادہ حصہ دیا جائے۔ وہ سندھ طاس معاہدے کی لگائی گئی پابندیوں کے باعث پانی سے بجلی پیدا کرنے کے گنوا دیے گئے مواقع کے بدلے ہندوستانی حکومت سے معاوضے کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔

اس دوران ہندوستان اور پاکستان کے انڈس واٹر کمشنرز کی پانچ روزہ میٹنگ بھی لاہور میں ہوئی ہے جس میں پاکستان کے انڈس واٹر کمشنر مرزا آصف بیگ نے اپنے ہندوستانی ہم منصب کے ووہرا سے ملاقات کی ہے۔

پاکستان نے مبینہ طور پر ہندوستان کی جانب سے اپ سٹریم میں دریائے جہلم، چناب، اورسندھ پر مزید بجلی گھروں کی تعمیر پر اعتراض کیا ہے۔ ان دریاؤں کا پانی سندھ طاس معاہدے کی رو سے پاکستان کا حق ہے۔

خاص طور پر پاکستان نے چناب پر 850 میگا واٹ کے ریٹل، 1000 میگاواٹ کے پکل دل، 120 میگاواٹ کے میار، اور 48 میگا واٹ کے لوور کلنائی بجلی گھروں کی تعمیر پر اعتراض کیا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان نے نیلم اپ سٹریم پر تعمیر ہونے والے کشن گنگا ڈیم پر بھی تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

بی بی سی کے مطابق پاکستان نے ڈیم کے سپل ویز کے حوالے سے ڈیزائین میں تبدیلی کی درخواست کی تھی، جن کی وجہ سے ان ٹیک کی لوکیشن پر اثر پڑ رہا ہے۔ سپل ویز نیچائی پر واقع ہیں، جسکی وجہ سے پانی کا ان ٹیک بڑھتے ہی سپل ویز کھولنے پڑیں گے۔

ستمبر 1960 میں طے پانے والا سندھ طاس معاہدہ اب 54 سال پرانا ہو چکا ہے۔

سندھ طاس معاہدے پر معمول کے تنازعات کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جائے، تو اس معاہدے نے پاکستان اور ہندوستان کو عموماً فائدہ ہی پہنچایا ہے۔ اس کی سب سے بڑی کامیابی یہ ہے، کہ ہندوستان اور پاکستان نے 1960 سے لے کر اب تک کئی روایتی و غیر روایتی جنگیں لڑی ہیں، پر خوش قسمتی سے پانی پر اب تک کوئی جنگ نہیں لڑی گئی ہے۔

معاہدے نے تنازعات کے مؤثر حل، مذاکرات، اور معلومات کے تبادلے کے لیے تمام ضروری ادارے قائم کرنے میں مدد دی ہے۔ جب کمشنر مسئلے کے حل میں ناکام ہو جائیں، تو معاہدے کی رو سے مسئلہ اعلیٰ اسٹیبلشمنٹ کی جانب چلا جاتا ہے۔ جب مسئلے کے باہمی و دو طرفہ حل کے تمام راستے ختم ہو جائیں، تو معاہدہ اس بات کی بھی اجازت دیتا ہے، کہ ایک غیر جانبدار ماہر کی خدمات حاصل کی جائیں، یا پھر ثالثی عدالت (Court of Arbitration) سے رجوع کر لیا جائے۔

سندھ طاس معاہدے پر بڑھتے ہوئے جانبدار بیانات اس معاہدے کے ساتھ نا انصافی ہیں، جس پر وزیر اعظم جواہر لعل نہرو، اور صدر ایوب خان نے کراچی میں نیک نیتی سے دستخط کیے تھے۔ اب یہ بات واضح ہو چکی ہے، کہ اس معاہدے میں کشمیریوں کے مفادات اور بھلائی کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ اسی وجہ سے کشمیر میں اب سندھ طاس معاہدے کو لے کر شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔

پاکستانی میڈیا اور مذاکرات میں شامل افراد کی جانب سے ایک بے بنیاد بات جو ہمیشہ پھیلائی جاتی ہے، وہ یہ کہ ہندوستان کا تین مغربی دریاؤں، چناب، جہلم، اور سندھ، کے پانی پر کوئی حق نہیں ہے۔ یہ دعویٰ غلط ہے۔

سندھ طاس معاہدے نے ہندوستان کو ان دریاؤں کے پانی پر کچھ شرائط کے تحت حق دیا ہے۔ پاکستانی میڈیا اور ماہرین کو انیکسچر سی، انیکسچر ڈی، اور انیکسچر ای کا خاص طور پر مطالعہ کرنا چاہیے، جس کے مطابق ہندوستان کو تینوں مغربی دریاؤں کا پانی زراعت، بجلی کی پیداوار، اور ذخیرہ کرنے کے لیے استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

لیکن اصل مشکل تو تفصیلات میں ہے۔

پاکستان نے ماضی میں ہندوستانی ارادوں کو تھوڑی کامیابی کے ساتھ چیلنج کیا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک سوئس انجینیئر پروفیسر ریمنڈ لیفیٹ کی بگلیہار ڈیم پر پاکستان کے خدشات کی جانچ کے لیے غیر جانبدار ماہر کی حیثیت سے خدمات حاصل کی گئیں۔ ثبوتوں کے مطالعے کے بعد سوئس ماہر نے ڈیم کے ڈیزائن میں معمولی تبدیلی کی سفارشات کیں۔

اس سے بھی زیادہ دلچسپ دسمبر 2013 میں ثالثی عدالت کا فیصلہ ہے، جس کی سربراہی جج سٹیفن ایم شویبل کر رہے تھے، جنہوں نے کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کا مطالعہ کیا تھا۔ کورٹ نے کشن گنگا ڈیم بنانے کے ہندوستان کے حق کو تسلیم کیا۔ فیصلے کی تفصیلات میں اگلے مضمون میں درج کروں گا۔ لیکن اس وقت دو اہم ملاحظات پیش ہیں۔

سب سے پہلے، ثالثی عدالت نے فریقین کی جانب سے پیش کردہ ثبوتوں کی تحقیق کے بعد متفقہ طور پر یہ فیصلہ دیا، کہ ہندوستان کو کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ سے کم از کم 9 کیوبک میٹر فی سیکنڈ کے حساب سے پانی کے بہاؤ کو یقینی بنانا ہوگا۔ دسمبر 2013 میں آنے والا یہ فیصلہ فروری 2013 کے اس فیصلے کا فالو اپ تھا، جس نے ہندوستان کو سندھ طاس معاہدے کے تحت کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ تعمیر کرنے کی اجازت دی تھی۔

پاکستان کو اپنی نا اہلی کا ذمہ دار ہندوستان کو نہیں ٹھرانا چاہیے۔

پاکستان میں پانی اور بجلی کے بحران کی وجہ پچھلے 5 عشروں سے پانی کے وسائل کی خراب مینیجمنٹ ہے۔ پاکستان میں بڑے آبی ذخائر کی تعمیر سندھ طاس معاہدے کا تحفہ تھی، جن کی تعمیر کے لیے پاکستان کو ورلڈ بینک سے امداد اور قرضوں کی مد میں کروڑوں ڈالر ملے، جبکہ ہندوستان کی جانب سے پاکستان کو معاوضے کے طور پر 17 کروڑ ڈالر بھی دیے گئے۔

اپنے آبی وسائل کی مینجمنٹ میں ہندوستان بھی کچھ خاص بہتر نہیں رہا ہے، لیکن اس معاملے میں پاکستان کی نا اہلی پبلک پالیسی اور گورننس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس کے علاوہ پاکستان میں توانائی اور پانی کے بحران سے نمٹنے کے لیے افرادی قوت کی بھی کمی ہے۔ پاکستان کی انجینیئرنگ یونیورسٹیوں کو پانی کی وجہ سے قوم کے وجود کو لاحق خطرات پر فوکس کرنا چاہیے، پر اس کے بجائے پاکستانی یونیورسٹیاں کمپیوٹر انجینیئرنگ پر پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ واٹر ریسورس انجینیئرگ، ڈیموں کی تعمیر، اور متعلقہ موضوعات پر صرف انڈر گریجویٹ لیول پر تھوڑی روشنی ڈالی جاتی ہے، جبکہ ہائیڈل پراجیکٹس پر شاید ہی کوئی قابل ذکر پی ایچ ڈی کی گئی ہو۔

1991-92 میں میں نے الکلی ایگریگیٹ ری ایکٹیویٹی (Alkali Aggregate Reactivity) کی وجہ سے وارسک ہائیڈل پراجیکٹ کے اسٹرکچر کو پہنچنے والے نقصانات پر ریسرچ کی تھی۔ میں پشاور سے وارسک ایک سال تک جاتا رہا، اور میں نے وہاں کینیڈین انجینیئرز کی جانب سے کیے جانے والے بحالی کے کام کا معائنہ بھی کیا۔ مجھے وہاں چیزوں کی حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا تھا۔

میری حیرانگی کی اس وقت انتہا نا رہی، جب مجھے معلوم ہوا کہ ڈیم کی تعمیر کی رپورٹ ہی وہاں موجود نہیں تھی۔ پھر مجھے وہ رپورٹ ڈھونڈنے کے لیے لاہور تک کا سفر کرنا پڑا۔ وہاں مجھے فیروزپور روڈ پر واقع ایک چھوٹے سے آفس میں رپورٹ پڑی مل گئی۔ اس کی دو کاپیاں بنوا کر میں نے ایک ڈیم کے اس وقت کے چیف انجینیئر محبت خان کو حوالے کی، اور ایک ریکارڈ کے لیے اپنے پاس رکھ لی۔

تب سے لے کر اب تک پاکستان میں انجینیئرنگ کی حالت زار کچھ زیادہ بہتر نہیں ہوئی ہے۔

کشن گنگا ہائیڈرو الیکٹرک پراجیکٹ کے معاملے پر پاکستان کی جانب سے ثالثی عدالت میں جو "ماہرین" پیش ہوئے، ان کی لسٹ اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ پاکستان اپنا کیس بنانے کے لیے کسی قابل ذکر سول انجینئر کی خدمات حاصل نہیں کر سکا، اور پھر غیر ملکیوں، اور نان انجینیئر ماہرین پر اس کام کے لیے اعتماد کیا گیا۔ حتمی فیصلے کے گیارہویں صفحے کا مطالعہ کریں، تو صاف ظاہر ہے کہ پاکستان کی جانب سے پیش ہونے والے ماہرین کس طرح "Regression Models" کی تفصیلات میں الجھاؤ کا شکار تھے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کی اس معاملے پر معلومات کتنی سطحی تھیں، کیوںکہ پانی کے بہاؤ کے Statistical Models بناتے وقت موسمیاتی وجوہات (Seasonal Factors) کو مد نظر رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اس طرح کے حساس معاملات پر اتنی لاعلمی کا مظاہرہ، جس سے پاکستان کے وجود کو خطرات لاحق ہوں، ناقابل معافی ہے۔

پاکستان میں پانی کے معاملے پر داخلی مسائل کا ذمہ دار ہمیشہ ہندوستان کو ٹھرایا جاتا ہے، جس کی وجہ سے پاکستان صوبوں کے درمیان پانی کے تنازعات کو حل کرنے میں تاخیر کر رہا ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب صوبے پانی اور توانائی کے معاملے پر اپنے حقوق کا تحفظ کرنے میں مگن ہیں، تب قوم اپنے وسائل کھو رہی ہے، اور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگا رہی ہے۔

انگلش میں پڑھیں۔


مرتضیٰ حیدر تدریس سے وابستہ ہیں، اور Regionomics.com کے ڈائریکٹر ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں