مظاہرین خالی پیٹ پیش قدمی کیلئے پرعزم

01 ستمبر 2014
۔—اے پی فوٹو۔
۔—اے پی فوٹو۔
۔—اے پی فوٹو۔
۔—اے پی فوٹو۔

اسلام آباد: ریڈ زون کو اتوار کے روز بھی سکون نہ مل سکا جو ہفتے کی رات سے ہفتے کی رات سے جنگ زدہ علاقہ بنا ہوا ہے۔

اتوار کو گراؤنڈ زیرو پر نہ صرف جھڑپیں اور آنسو گیس کا استعمال جاری رہا بلکہ متعدد افراد زخمی ہوتے بھی دیکھے گئے۔

بچوں اور بڑوں کو چھوٹے چھوٹے گروپوں میں اپنے زخموں پر مرہم لگاتے دیکھا گیا۔ تھکے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے کارکنان کو ادھر ادھر کھانے کی تلاش میں بھٹکتے دیکھا گیا جن میں سے متعدد نے پٹیاں باندھی ہوئی تھیں۔

ندا زہرہ کا کہنا تھا کہ میں نے گزشتہ شام سے کچھ نہیں کھانا کیوں کہ رات بھر جاری رہنے والی شیلنگ سے مجھے متلی ہورہی ہے، ہم باہر چائے لینے گئے تھے لیکن تمام دکانیں اور ہوٹل بند ہیں۔

دوپہر ہونے تک عوامی تحریک کے کارکنان کے پاس پانی اور کھانے کی قلت پیدا ہوگئی تھی اور جو انہیں کھانے پینے کیا اشیاء فراہم کرنے کے ذمہ دار تھے وہ انہیں گزشتہ روز باقی رہ جانے والی نانیں ہی دے رہے تھے جس کارکن پانی سے کھانے پر مجبور تھے۔

کھانے کی سپلائی کے انچارج غلام محمد نے کہا کہ ہمارے کھانے کے ٹرکوں کو اندر آنے کی اجازت نہیں دی جارہی اور ہمارے پاس پچھلے دن کی نانیں ہی بچی ہیں۔

دوسری جانب شاہراہ دستور پر کہیں کہیں جھڑپیں جاری رہیں جہاں مظاہرین نے پتھروں اور غلیلوں سے پولیس کا مقابلہ کیا۔

ابلاغ عامہ کے نمائندگان پر تشدد بھی بس ابھی ختم ہوا تھا جہاں ٹی وی چینلز کی تباہ شدہ ڈی ایس این جیز قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کنٹرول کردہ علاقے میں پارکڈ تھیں۔

دوپہر کے مناظر سے اس مقام پر گزشتہ روز ہونے والے واقعات کا اندازہ لگایا جاسکتا تھا۔

حکومتی وزراء کے دعوؤں کے برعکس متعدد مظاہرین پارلیمنٹ کے گرین ایریا میں موجود تھے جن میں سے کچھ نے ٹینٹ لگا رکھے تھے اور کچھ بستر بھی بچھا چکے تھے۔

فوجی اہلکار ہفتے کی رات تک وہاں موجود تھے تاہم جیسے ہی مظاہرین اندر آئے وہ پیچھے ہٹ کر پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے قریب چلے گئے۔ بائیں جانب کیبینٹ بلاک کی جانب روڈ جارہی تھی جسے ابھی بھی کنٹینر سے سیل کر رکھا تھا۔

یہ وہی مقام ہے جہاں مظاہرین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان جھڑپوں کا آغاز ہوا۔

پولیس افسران کے مطابق مظاہرین نے کنٹینر ہٹادیے تھے اور وہ ایوان صدر کی جانب بڑھ رہے تھے۔ اس موقع پر انہوں نے مارچ کو روکنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جہاں دیر رات تک اسی طرح کے مناظر دیکھے گئے۔ کچھ دیر بعد مارچ کے شرکاء پارلیمنٹ گراؤنڈ کا گیٹ توڑ کر وہاں پہنچ چکے تھے۔

تاہم دوپہر میں ایسا محسوس ہوا جیسے کنٹینر کو کبھی ہٹایا ہی نہیں گیا۔ روڈ کو ایک کے اوپر ایک چار کنٹنروں کو رکھ کر بلاک کیا گیا تھا جن میں سے اوپر کے دو کو دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا کہ کسی کرین کے ذریعے انہیں ہٹانے کی کوشش کی گئی تاہم نچلے دو کو بظاہر چھیڑا نہیں گیا تھا۔

تاہم یہ اس بات کے اشارے موجود تھے کہ اس مقام پر مظاہرین اور پولیس کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہوں گی جس کی نشانیاں کنٹینر کے اوپر اور زمین پر موجود تھے۔

شہر کے دیگر حصوں میں پرسکون کشیدگی غالب تھی۔

اسلام آباد شہر اتوار کو مدنظر رکھنے کے باوجود بھی خاموش تھا۔

شہر بھر میں قیاس آرائیوں کا راج تھے جن میں حکومت کی جانب سے ظالمانہ کریک ڈاؤن، فوجی بغاوت اور ریڈ زون میں مزید تشدد پیش پیش تھیں۔

تاہم دوپہر تک تناؤ میں کچھ کمی اس وقت آگئی جب تحریک انصاف کے مقامی حمایتی واپس آگئے۔

شام تک راولپنڈی اور اسلام آباد کے متعدد مقامات پر پی ٹی آئی، پی اے ٹی اور مجلس وحدت المسلمین کی جانب سے سڑکوں کو بلاک کرنے اور مظاہرے کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا تھا۔

تاہم رات تک مظاہرین کا موڈ دوبارہ تبدیل ہوچکا تھا۔

ریڈ زون پر جہاں گزشتہ رات جھڑپیں جاری تھیں، دوبارہ موسیقی چلنے لگی۔ کچھ شرکاء ابھی بھی ماسک لگائے ہوئے تھے اور چند سو افراد ہی عمران خان کے کنٹینر کے باہر ان کی تقریر سننے جمع ہوپائے۔

انتیس سالہ شاہمیر خان نے کہا کہ میں یہاں جی 11 سے آیا ہوں۔ ہم یہاں پوری رات رہ کر اپنے قائد کی حفاظت کریں گے۔

چھبیس سالہ محمد ناصر کا کہنا تھا کہ وہ بھی اس مقام پر اپنی رات گزاریں گے جبکہ اسپیکروں پر روایتی پی ٹی آئی گانیں بجتے رہے۔

تاہم پی اے ٹی کارکنان نے پارلیمنٹ ہاؤس کے میدانوں پر آرام فرمایا ہی بہتر سمجھا۔

پارٹی کارکن ساجد حسین کا کہنا تھا کہ آرام کرنا ہی بہتر ہے کیوں کہ ہمارے پاس اطلاعات ہیں کہ رات میں ہمارے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے، اس لیے ہم اس لیے تیار رہنا چاہتے۔'

یہاں کھانا تقسیم کیا جارہا تھا جس کا انتظام کچھ لوگوں نے کیا تھا۔

کمیٹی چوک کے رہائیشی محمد نسیم نے کہا کہ میں یہاں سے راولپنڈی سے آیا ہوں اور میرے ساتھیوں نے مجھ سے کھانے کا انتظام کرنے کی درخواست کی تھی۔

مظاہرے میں شریک سہیل احمد نے کہا کہ وہ اور دیگر ساتھی طاہر القادری کے احکامات کے بغیر نہیں جائیں گے۔

کچھ دیر بعد عمران خان ایک مختصر تقریر دینے کے لیے اسٹیج پر نظر آئے۔ بظاہر ایسا محسوس ہورہا تھا کہ ریڈ زون کے 'رہائشیوں' کے لیے شام کا ابھی صرف آغاز ہی ہوا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں