شاہراہِ دستور پر صحافت ایک جرم ہے

اپ ڈیٹ 01 ستمبر 2014
۔ —. فائل فوٹو
۔ —. فائل فوٹو

اسلام آباد: اتوار کی صبح جب شاہراہِ دستور پر سورج کی کرنیں پھیل گئیں، تو بے چین مظاہرین کے ہجوم کے ساتھ مختلف ٹی وی چینلوں کے صحافیوں اور کیمرہ پرسنز نے ریکارڈنگ شروع کردی اور فوٹیج و اطلاعات کو عین اسی وقت اپنے ہیڈکوارٹرز میں بھیجنا شروع کردیا۔

مظاہرین جو طویل وقت سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہے تھے وہ پتھریا ان کے ہاتھ میں جو کچھ بھی ہوتا ہےپولیس کی جانب پھینک کر اپنے ہاتھ خالی کردیتے ہیں۔

اس مقام پر پولیس کی تازہ نفری تعینات کرکے ان کا راستہ روکا گیا ہے۔

سماء نیوز کے کیمرہ مین خرم فیاض نے ڈان کو بتایا ’’میں ایک طرف کھڑا تھا، اور مظاہرین کی وڈیو بنارہا تھا، جب میں نے کسی کو پکارتے سنا کہ ’میڈیا والن نوں مارو‘ یعنی میڈیا والوں کو مارو۔‘‘

خرم فیاض میڈیا کے ان نمائندوں میں سے پہلے فرد تھے، جن پر حملہ کیا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ابتدائی مارپیٹ کے بعد انہوں نے دیکھا کہ ان کا کیمرہ ٹوٹ گیا ہے، پھر وہ ڈی چوک کے قریب پاک کی گئی ڈی سی این جی وین کی سمت فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔

انہوں نے کہا ’’میں نے دنیا ٹی وی کی وین میں پناہ لینی چاہی، لیکن اس کے ڈرائیور نے میری مدد کرنے سے انکار کردیا، اور پیچھا کرنے والے پولیس اہلکاروں نے میرے ساتھ اس کو بھی پکڑلیا، انہوں نے مجھے گاڑی سے باہر نکالا اور میرے ساتھ یہ سلوک کیا۔‘‘

یہ کہہ کر انہوں نے اپنی پیٹھ دکھائی، جس پر لاٹھیوں کی چوٹ کے سیاہ اور نیلے نشانات موجود تھے۔

خرم کے سر میں بھی چوٹیں آئی تھیں، اور جب ان کو پمزلایا گیا تھا تو ان کے سرسے بےتحاشہ خون بہہ رہا تھا۔ وہ نیم بے ہوشی میں تھے اور ان کے زخموں کو بند کرنے کے لیے آٹھ ٹانکے لگانے پڑے۔

سماء ٹی وی کے عجب خان پر بھی ہفتے کی علی الصبح اس فساد کے دوران حملہ ہوا تھا۔انہیں پولی کلینک پہنچایا گیا۔

جب ڈان نے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو ان کے ایک قریبی دوست ان کے موبائل فون سے جواب دیا، انہوں نے کہا کہ عجب خان کو ان کی کھوپڑی کے سی ٹی اسکین کے لیے شفاء ہسپتال منتقل کیا گیا ہے، جس پر بہت شدید زخم آئے تھے۔

سماء ٹی وی کے ایک رپورٹر عامر سعید عباسی کو اس وقت لاٹھیوں سے پیٹا گیا، جب وہ اپنے ساتھی کیمرہ مین اویس قاضی کو بچانے کی کوشش کررہے تھے۔ اویس بھی مظاہرین پر کیے جانے والے لاٹھی چارج کی ریکارڈنگ کررہے تھے جب ان پر حملہ کیا گیا۔

وقت ٹی وی کی ٹیم آنسوگیس کی شیلنگ کی براہِ راست زدمیں آئی۔ کیمرہ مین عاطف یوسف اور عمران اقبال، ڈی سی این جی آپریٹر محمد زاہد اور ان کے ڈرائیور جمیل کیانی سانس کے ساتھ بے انتہا آنسوگیس چلی جانے کے باعث بے ہوش ہوگئے اور گھنٹوں بعد ہی ہوش میں آسکے۔

نصف درن سے زیادہ ڈان نیوز کے کیمرہ مین اور رپورٹرز بھی پولیس کی میڈیا پرسنز کے خلاف سخت غیض و غضب کا نشانہ بنے۔ ڈان نیوز اسلام آباد ڈیسک کے اسائنمنٹ ایڈیٹر حسنین رضا نے بتایا کہ کاشف عباسی کا بازو ٹوٹ گیا، نوشاد عباسی کو ڈنڈوں سے پیٹا گیا اور انہیں براہِ راست لگنے والے آنسوگیس شیل سے بھی زخم آئے تھے، جبکہ رپورٹرز یاسر ملک اور ثمر عباس بھی آنسو گیس سے متاثر ہوئے۔

انہوں نے کہا کہ ’’اشفاق حسین کو پشاور بیورو سے بلایا گیا تھا، انہیں بھی پلاسٹک کے چھرّے اور ربڑ کی گولیاں لگی ہیں، جبکہ کیمرہ مین عمران چوہدری اور منصور احمد بھی پر بھی حملہ کیا گیا، جب وہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے حمایتیوں پر پولیس کے لاٹھی چارج کی کوریج کررہے تھے۔‘‘

ایکسپریس نیوز کے امیر عالم جو ایک ہاتھ سے سہارا دے کر اپنے زخمی کیمرہ مین کو لے جارہے تھےاور دوسرے ہاتھ سے اپنا پریس کارڈ دکھارہے تھے، پر بھی حملہ کیا گیا۔

انہوں نے کہا ’’پولیس ہم پر پتھروں سے حملہ کررہی تھی۔‘‘

انہیں لاٹھیوں سے بھی پیٹا گیا اور ان کے سر، گھٹنے اور ہاتھوں پر زخم آئے۔

ایکسپریس نیوز کے کیمرہ مین عثمان افضل اور ڈرائیور بخت زمین اتوار کو پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں زخمی ہوگئے تھے۔

آج ٹی وی کے رانا طارق خوش قسمت تھے کہ آنسو گیس کی مہلک مقدار کے قریب ہونے کے باجود وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔لیکن ان کے ساتھی کیمرہ مین ہارون خورشید اور غلام علی کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا، وہ پولیس کے گھیرے میں آگئے اور پولیس کی جانب سے انہیں بُری طرح پیٹا گیا۔

اے آر وائی نیوز کے کیمرہ مین آصف عبداللہ اور اقبال زیب اور دنیا ٹی وی کے عملے کے اراکین سید عیسٰی نقوی، حسن ایوب، ڈی سی این جی انجینئر عدنان اور کیمرہ مین انجم فاطمی بھی ریڈزون میں صحافیوں کے خلاف اتوار کو ہونے والے تشدد میں زخمی ہوئے۔

ان میڈیا پرسنز میں سے زیادہ تر کو ہفتے کی صبح پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں پہنچایا گیا۔ ایک صحافی طاہر عمران اس وقت پمز میں موجود تھے، جب میڈیا کے نمائندوں میں سے پہلے زخمی کو وہاں لایا گیاتھا۔

انہوں نے کہا ’’ایک کیمرہ مین نوشاد نے مجھے بتایا کہ انہیں اسلام آباد پولیس کے ایک اہلکار نے بچایا، جو ان پر ڈنڈے برسانے والے شخص کو روک رہے تھے۔‘‘

تبصرے (1) بند ہیں

Nadeem Sep 01, 2014 03:48pm
When media was not permitted there so why did they go there ? And when they got beaten by police or scattered protestors they started complaining please follow rules media shouldn't be leash less should work under the code of conduct. In the end i pray for injured media people for speedy health. and i am sure this comment will not be posted by Dawn Open minded news. Thanks