اسلام آباد : منگل کی دوپہر جب ڈاکٹر طاہر القادری نے شارع دستور پر اپنے اسٹیج پر کھڑے ہوکر اپنے اور عمران خان کے حامیوں سے خطاب کرنے کی کوشش کی جسے ساﺅنڈ سسٹم نے ناکام بنادیا۔

اپنے انجنئیروں سے بار بار ان کا خطاب ہر ایک تک پہنچانے کو یقینی بنانے کی درخواستوں کے باوجود آخر میں طاہر القادری کو افسوس کا اظہار کرنا پڑا کہ ان کی جماعت بہتر ساﺅنڈ سسٹم کا انتظام کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ان کا کہنا تھا" ہم خوش قسمت ثابت نہٰں ہوئے، ہم ماڈل ٹاﺅن کے اپنے قیدخانے سے سیدھا اسلام آباد آئے، ہم نے پہلے جو سسٹم لیا تھا وہ پولیس نے تباہ کردیا جبکہ ہمارا بیک اپ سسٹم اتنا اچھا نہیں جتنا ہمارے پڑوسی استعمال کررہے ہیں"۔

کہ کہتے ہوئے انہوں نے کچھ فاصلے پر واقع عمران خان کے کنٹینر کی جانب اشارہ کیا۔

اس وقت جب پی اے ٹی کی تیکنیکی ٹیم ساﺅنڈ سسٹم کو درست کرنے میں مشکلات کا سامنا کررہی تھی، عمران خان نے مائک سنبھالا اور اچانک ہی طاہر القادری کو اپنے حامیوں سے خطاب کے لیے پی ٹی آئی کے اسٹیج پر آنے کی دعوت دیتے ہوئے کہا" ہمارا ساﺅنڈ سسٹم زیادہ بہتر سنا جاسکتا ہے"۔

یہ ایک تہلکہ خیز لمحہ تھا، اس سے قبل دونوں جماعتوں کے مارچز کے درمیان تعاون زبانی حد تک ہی محدود تھا اور وہ بھی اکثر طاہر القادری کی جانب سے ہی نظر آتا تھا، مگر عمران خان، جنھوں نے سرکاری ٹیلیویژن پر ایک روز قبل دھاوا بولنے والے پی اے ٹی کے ورکرز سے دستبرداری ظاہر کی تھی، نے اپنے پڑوسی دھرنے کے قائد کو دعوت دے کر تاریخ ساز اشارے کا اظہار کیا۔

کوئی وقت ضائع کیے بغیر طاہر القادری پی اے ٹی کے ورکرز کی ایک ٹیم کے ساتھ عمران خان کے اسٹیج پر پہنچ گئے۔

پی ٹی آئی کے کنٹینر پر موجود ٹی وی کیمروں کو کچھ سیکنڈ بعد ہی دونوں رہنماﺅں کے پہلے عوامی معانقے کی تصویر لینے کا نادر موقع ملا، عمران خان نے طاہر القادری کو خوش آمدید کہتے ہوئے مائک تھما دیا۔

پی اے ٹی کے قائد لگ بھگ آدھے گھنٹے تک خطاب کرتے رہے، شروع میں تو وہ کچھ ہچکچائے مگر اس میں کوئی شک نہیں وہ پی ٹی آئی سربراہ کے اپنے گھر میں انہیں متاثر کرنے کے خواہشمند تھے، تو بعد ازاں انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں شعلہ فشاں تقریر کی۔

انہوں نے متعدد موضوعات کو چھیڑا، سب سے پہلے تو چوہدری نثار کی جانب اشارہ " خان صاحب کے قریبی دوست" کہہ کر کیا، جو عمران پر طنز لگتا تھا اور کہا" وہ جو کبھی قریبی دوست تھا"۔

پھر طاہر القادری نے جاوید ہاشمی کی قومی اسمبلی کے ایوان میں تقریر کی جانب اشارہ کیا، اس حوالے پر ہجوم پر سکوت طاری ہوگیا اور تمام نگاہیں عمران خان پر مرکوز ہوگئیں تاکہ ان کا ردعمل دیکھا جاسکے۔

آخر یہ طاہر القادری اب اسی اسٹیج پر کھڑے تھے جس پر چند روز پہلے تک جاوید ہاشمی کا قبضہ تھا، پی اے ٹی قائد نے ان کے بارے میں کافی کچھ کہا مگر عمران خان ساکت بیٹھے رہے اور پھر طاہر القادری نے بھی حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے اپنے ریمارکس کو جاوید ہاشمی کے الزامات کی تردید تک محدود کردیا۔

تقریر کے دوران اک مرحلے پر، جب وہ کرپشن، بدانتظامی اور شریف برادران کی مبینہ برائیوں پر بات کررہے تھے، اچانک طاہر القادری عمران خان کے ہاتھ تک پہنچے اسے مضبوطی سے پکڑا اور اپنے سر سے بلند کیا تاکہ اتحاد کا اظہار ہوسکے اور پھر کہا" یہ ہاتھ ملک کو شریف برداران کے ہاتھوں سے نکالیں گے، جو صرف لینا جانتے ہیں اور ملک کو کچھ واپس نہیں کرتے"۔

اپنی پوری تقریر کے دوران طاہر القادری اپنا رخ عمران خان کی جانب کرتے رہے جیسے اپنے الفاظ پر ان کی منظوری چاہ رہے ہوں، عمران خان بھی اس وقت اس مبارکبادی ہجوم میں شامل ہوگئے جب پی اے ٹی رہنماءنے اعلان کیا کہ شریف برداران کے نام اور انسداد دہشتگردی کی دفعات سانحہ ماڈل کی ایف آئی آر میں شامل ہوگئے ہیں۔

طاہر القادری کے اس خطاب کی ایک خاص بات ڈی جے بٹ کو سراہنا ت ھا، یہ وہ شخص نے جو پی ٹی آئی کے ساﺅنڈ سسٹم کو سنبھالے ہوئے ہے۔

اپنی تقریر کے دوران وزیر داخلہ کے احتجاجی مظاہرین پر لائے جانے والے الزامات پر ردعمل دیتے ہوئے طاہر القادری نے کہا" آپ کے پاس گلو بٹ اور بلو بٹ ہیں ہمارے پاس نہیں"۔اس موقع پر عمران خان خاموش رہے۔

طاہر القادری کا کہنا تھا" ہمارے پاس ڈی جے بٹ ہے" جس پر ہجوم میں زبردست جوش و خروش نظر آیا۔

اپنے ابھرنے کے لمحے کو محسوس کرتے ہوئے طاہر القادری نے اس لیجنڈری ساﺅنڈ مین کے لیے اپنا خودساختہ نام بناتے ہوئے ہجوم سے کہا" کیا آپ جانتے ہیں کہ ڈی جے بٹ کا کیا مطلب ہے؟ ڈی سے مراد ہے ڈیسینٹ، جے سے جسٹ اور بی سے بٹ"۔

اس پر ہجوم نے تالیوں اور قہقہوں کے ساتھ اس نام کی منظوری دی۔

تبصرے (0) بند ہیں