ملائیشیا کی سیر

13 ستمبر 2014
کوالالمپور کا آزادی چوک — فوٹو سلیم عالم
کوالالمپور کا آزادی چوک — فوٹو سلیم عالم
چن سوئی مندر — فوٹو سلیم عالم
چن سوئی مندر — فوٹو سلیم عالم
ملائیشیا کا ایک رین فاریسٹ — فوٹو سلیم عالم
ملائیشیا کا ایک رین فاریسٹ — فوٹو سلیم عالم

نیلے پانیوں میں ڈوبتے سورج کے سنہرے تھال کو پام اور ناریل کے درختوں کے جھنڈ کی اوٹ سےدیکھنے کا مزہ ہی کچھ اور ہے۔ پھر بارانی جنگلات سے بھرا لنکاوی جیسا ہرا بھرا اور حسین جزیرہ - یہ میں اور میری بہن انیس تھے جواس چھوٹے سے لنکاوی جزیرے کے سامنے پھیلے وسیع ساحل پر بنےدلکش ریزورٹ میں کنارے بچھی آرام کرسیوں پر دراز تھے۔ بازو پڑی میز پرگرم چائے کا پیالہ دھرا تھا اور لبوں پرسہانے گیت-

ڈھلتی شام کے سائےاورسنہری کرنیں مل جل کرمچلتی لہروں کے سینے پر سنہری سا راستہ بنا رہے تھے جو مجھے جانے کہاں کہاں لیے جا رہا تھا- کب مغرب ہوئی اور ہر طرف ایک پرسکون سا سناٹا چھا گیا۔ مجھے پتہ بھی نہ چلا تبھی انیس نے مجھے آواز دی- اب چلو کل کی پیکنگ بھی کرنی ہے، صبح نو بجے بنکاک کی فلایٹ ہے۔

اس دفعہ ہمارا ارادہ ملایشیا کے پررونق شہر کوالالمپور، گرمیوں کی لمبی چھٹیوں میں بھر پور آباد گینٹنگ ہائی لینڈس اور اس کے مضافات اور جزیرہ لنکاوی اور بنکاک تھائی لینڈ کی سیر تھا۔ گو کہ تھائی لینڈ کی خبریں ذرا گڑبڑ تھیں کہ تھائی عوام کے ایک بہت بڑے گروپ نے موجودہ صورت حال کے خلاف زبردست احتجاج کیا تھا۔ اور یہاں پاکستان میں لوگ کراچی کے حالات کی وجہ سےکچھ فکرمند تھے۔ مگر جب ویزا آسانی سے مل گیا تو سفر میں کوئی رکاوٹ نہ رہی۔

ہماری ایئرلائین تھائی تھی۔ بنکاک میں دوگھنٹے کا ٹرانزٹ چٹکی بجاتے گزر گیا اس دوران ہم نے دوچار تھائی لفظ پکڑنے کی کوشش کی زیادہ تر حروف تامل اور سنسکرت زبان سے لیے گئے ہیں اور گول یا نیم دایروں اورالف کی شکل میں نمایاں ہیں۔ بدھسٹ تھائی میزبان سیاحوں کا ہاتھ جوڑ کر استقبال کرتے ہیں جیسے کہہ رہے ہوں آؤہمارے ملک آؤ، اور دیکھو ہم نے کتنی محنت اور محبت سے اسے بنایا ہے۔

کوالالمپور ہماری پہلی منزل تھی۔ جنوب مشرقی ایشیا کے ایک اہم چوراہے پر واقع ہونے کی وجہہ سے ملایشیا اور تھائی لینڈ آج بھی ہندوستانی پاکستانی اور چینی تاجروں کے لیے سستی مارکیٹ ہے یورپ اور امریکہ کو اپنی مہنگی برانڈز کو یہاں تیار کروانے میں آسانی ہے کہ یہ سیاسی طور پر ٹربل فری ایریا ہے-

ایرپورٹ سے شہر کا مرکزتقریبا دوگھنٹے کی فاسٹ ڈرائیوتھا راستے میں پام، ناریل اور کیلے کے جھنڈ کے جھنڈ نظر آتے ہیں پام آئل ملایشیا کی اکنامی کو بڑی حد تک کنٹرول کرتا ہےاور ملک کی خوشحالی کا ایک بڑا ذریعہ - جڑواں مینارپیٹروناس ٹاورز ان ہی آئل کمپنیوں کے دماغ کی اختراع ہیں ان کا شہرہ ان کی مختلف طرز تعمیر، خوبصورتی اور بلندی کی وجہہ سے تھا وقت کی دوڑ میں ان کی بلندی پیچھے رہ گی چارسو میٹر لمبے ورلڈ ہیرٹیج ٹاورز کو ایک اسکائی برج سے فضا میں جوڑ دیا گیا ہے تیز رفتار لفٹ کے ذریعے سیاح منٹوں میں اوپر پہونچتے ہیں اورکوالالمپور کے حسین اور دلکش نظاروں کو ڈیجیٹل کیمروں میں قید کرلیتے ہیں-

کوالالمپور کا آزادی چوک — فوٹو سلیم عالم
کوالالمپور کا آزادی چوک — فوٹو سلیم عالم

ملایشیا کے ابتدائی باشندے چین اور جاپان سے آئے اور انھوں نے یہاں کے رسم و رواج پر گہرا اثر چھوڑا تجارت، صنعت و حرفت عقائد اور کلچر کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تیرھویں صدی سے عرب تاجر اور پھر بادشاہوں کی حکومت یہاں رہی۔

طاقتور بادشاہ مسلمان ہوا تو ہندواور بدھ کلچر کمزور پڑ گیا آج ملایشیا مسلم مگر سیکیولر اسٹیٹ ہے۔ دستور اور پارلیمان سپریم ہے- صدرکا عہدہ موروثی ہے اور وہ اپنے محلوں کے اندر چھوٹی موٹی سیاست، ہوم انڈسٹری اور کلچر کے فروغ سے ہی اپنا کام چلا لیتے ہیں۔ سرکاری زبان مالی اور انگریزی ہے۔ تعلیم اور پڑھائی لکھائی کا بہت چرچا ہے۔ ورکر دن یا شام کے وقت اسکول اور کالج جاتے ہیں۔ ہمیں چھوٹے سے لنکاوی جزیرے میں بھی بڑا سا اسکول اور ٹکینیکل کالجز نظر آَ ئے -

کوالالمپور کراچی کی طرح ملایشیا کا ہب ہے اور پترا جایا اسلام آباد کی یاد دلاتا ہے۔ کوالالمپورعرف عام میں کے ایل کے نام سے جانا جاتا ہے کے ایل میں جہاں جاؤ جس گلی جھانکووہ چینیوں ، کورین اورجاپانیز لڑکیوں کے ہیں۔ کھوکوں سے بھری پڑی ہے بھائو تاو زوروں پر ہے چائینا ٹاؤن میں راتیں جگمگاتی ہیں اور دن دوڑتے ہیں۔

ملٹی اسٹوری مال شہر میں درجنوں ہیں اور مزید نئے بن رہے ہیں لوگ ٹھنڈی ہوا کھانے یا پھر منہ کا مزہ بدلنے کو مال جاتے ہیں مگردو نمبر مال کی خریداری ان ہی گلیوں سے کرتے ہیں- ہم کوالالمپور شہر کے صدرایریا پہونچے تو تعمیر نو زوروں پر تھی - قناتوں سے گھری عمارتوں میں مشینوں اور باہرگاڑیوں کا شور تھا ہر گھنٹے پر فری بس چل رہی تھی جو مشہور مال جاتی تھی ٹیکسیاں ہر میوزیم ، شہر اوررین فارسٹ لے جانے کو تیاراور ٹرین فلائی اوورز پر آپ کی منتظر- کوالالمپور میں نیشنل میوزیم کے اندر پہونچے تو فورا ہی ایک اسکول بس آ کر رکی- تتلی میوزیم میں ہزاروں حسین تتلیاں کہ ایک لمحے کی قید میں ہیں اور سیاح زندگی کے تعاقب میں- برڈ میوزیم بہت بڑا اور جالی دار چھت سے ڈھکا ہے آزاد پرندے چہچہاتے اور مور سڑکوں پر نا چتے ہیں ہاں بڑی چونچوں والے طوطے قدرے ناراض پنجروں میں قید ہیں۔

ہماری سیر میں رین فاریسٹ ٹرپ کی سیر بھی شامل تھی اور انٹرنیٹ پر سرفنگ نے ہمارے ذہن میں اس کی خدا جانے کیا تصویر بنا دی تھی مگر ان رین فاریسٹ کو اب ایک محفوظ ترین پکنک اسپاٹ میں بدل دیا ہے۔ ہاں پہاڑیوں کی ڈھلانوں پربڑے بڑے درخت ہیں جن پر بندروں اور لنگوروں کا راج ہے جو ہر آنے جانے والے سے اپنا بھتہ روٹیوں اور فروٹ کی شکل میں وصول کرتے ہیں جہاں کسی نے آنکھ میچی وہیں انھوں نے فاختہ اڑائی یہ دیکھ کر بچوں کا مارے ہنسی کے برا حال ہوتا ہے-

مسلسل بارشوں کی وجہ سے بارانی جنگلات ہر چھوٹے بڑے شہر جیسے کوالا لمپور، گینٹنگ وغیرہ کے مضافات میں موجود ہیں اور قومی دولت میں شمار ہوتے ہیں ان رین فارسٹ میں تین چار لیول تک راستہ بنا ہوا ہے اورچھوٹی موٹی پکنک منانے کا سامان ہے۔ مگر جیسے جیسے اوپر چڑھائی کی طرف جائیں راستہ دشوار گزار اور سکیورٹی کم ہوتی جاتی ہے۔

ملائیشیا کا ایک رین فاریسٹ — فوٹو سلیم عالم
ملائیشیا کا ایک رین فاریسٹ — فوٹو سلیم عالم

گینٹنگ ہائی لینڈس بہترین ہوٹلز، انڈر ون روف تھیم پارک ، گیمبلنگ اور خوشگوار موسم کی وجہہ سے چھٹیوں کے لمبے وقفوں کے لیے ایک پسندیدہ جگہ ہے۔ ہم فرسٹ ورلڈ ہوٹل میں ٹھہرے تھے جہاں پانچ ہزار سے زائد کمرے تھے۔ سو سیاحوں کی کثرت کا اندزہ تو اسی سے لگا لیں۔ چیک ان میں اتنی دیر لگ گئی کہ ہم نے سوچا کہاں پھنس گئے، مگر شکر ہے کہ اس کے بعد پھر کوئی مرحلہ نہ ہوا۔ انڈر ون روف تھیم پارک میں چھکا چھک لایئٹوں سے بھرپور ہنڈولے اور جھولے تھے- ٹائم اسکوائرپر بنا بڑا سا اسٹیج نوجوانوں کو اپنی پرفارمنس دکھانے کا بہترین موقع فراہم کر رہا تھا۔ گیمبلنگ ہال میں تو نظارہ ہی اور تھا۔ خواتین اور سوٹڈ بوٹڈ مرد یوں جوئے پر بڑی بڑی رقمیں لگا رہے تھے جیسے کہ کوئی بات ہی نہ ہو-

نوجوان ڈیجیٹل اسکرین پر نظریں جمائے دنیا و مافیہا سے بے خبرساکت تھے بس ان کی کلمے کی انگلی متحرک تھی اور بس- گینٹنگ ہائی لینڈس میں بھی فری بس موجود تھی وہ ہمیں چن سوئی بدھسٹ ٹمپل لے گئی یہ مندر پہاڑ کی ڈھلان پر شہر Pahang میں بہت ہی خوبصورت بنا ہوا ہے یہاں سے شہر کا نظارہ بہت ہی حسین نظر آتا ہے۔

چن سوئی مندر — فوٹو سلیم عالم
چن سوئی مندر — فوٹو سلیم عالم

ہماری اگلی منزل ملایشیا کا حسین و دلکش جزیرہ لنکاوی تھا کوالالمپور سے ڈائرکٹ فلایئٹ لے کر یہاں پہونچا جا سکتا ہے۔ چھوٹے سے اس جزیرے میں آبادی کم ہے مگر اسکول کالجز ، میوزیم ، ایکیوریم ، موٹر بوٹ کے ذریعے سمندر کی سیر سبھی کچھ موجود ہے- جزیرے کے اطراف میں سو کے قریب چھوٹے جزائر موجود ہیں جن میں ایگل آئی لینڈ، منکی اور باتو اور مین گرو آئی لینڈ زیادہ مشہور ہیں۔

باتو آئی لینڈ دراصل چمگاڈروں کی نرسری ہے یہاں دن میں مکمل خاموشی رہتی ہے سیاح سرگوشیوں میں بات کرتے غاروں میں داخل ہوتے ہیں اور چھت سے چپکی ہزاروں چمگاڈروں اور ان کے بچوں کو دیکھتے حیران باہر نکلتے ہیں اور اپنی جان کی خیر مناتے ہیں- مین گروو آئی لینڈس جزیرہ کا انمول تحفہ ہیں موٹر بوٹ میں بیٹھے سیاح ٹھیرے ٹھیرے پانی میں ڈوبے، جھومتے دھانی درختوں کی درجنوں تصویریں لیتے ہیں مگر پھر بھی کسی کا دل نہیں بھرتا-

ہمارے ملاح نے جب یہاں کچھ دیر کے لیے کشتی روک دی توہم مبہوت ہو گئے۔ ہمیں لگا کہ ہم ایک بہت بڑی قدرتی پینٹنگ دیکھ رہے ہوں۔ ان جزیروں کے درمیان سمندر کا پانی ایک پتلی سی نہر کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ یہ نہریں چھوٹی چھوٹی سمندر میں ڈوبی پہاڑیوں کی چوٹیوں کے اطراف گھومتی چکرلگاتی ایک بہت ہی دلچسپ منظر پیش کرتی ہیں اور پھر یکدم کھلے سمندر میں جا نکلتی ہیں۔

یہاں ایک جزیرے میں ایک چھوٹا سا ریستوران بھی موجود ہے جو آپ کی من پسند مچھلی کی ڈش منٹوں میں پیش کر دیتا ہے۔ ساحل سمندر پر لکڑی کے حسین گھروندوں سے بنے حسین ریزورٹ میں ہم تین دن تک رہے اور ٹھنڈی سانسیں بھرتے یہاں سے تھائی لینڈ بنکاک کے لئے روانہ ہوئے۔

(جاری ہے)

تبصرے (0) بند ہیں