طالبان کہاں ہیں؟

اپ ڈیٹ 08 ستمبر 2014
— فوٹو اے پی
— فوٹو اے پی

کرسٹین البرٹز کا بچپن 1950ء کی دہائی میں جنگ عظیم دوم کی تباہ کاریوں کے ملبے پر گزرا۔ وہ لاطینی و یونانی زبان کے ڈچ پروفیسر ہانس البرٹز اور ان کی جرمن اہلیہ کی بیٹی ہیں۔ وہ جب کمسن تھیں اور باہر بچوں سے کھیلنے جاتی تھیں تو والدین اپنے بچوں کو ان کے ساتھ کھیلنے سے منع کرتے تھے۔ یورپ کے ذہن پر ہٹلر کے نازی ازم کے بھوت کا خوف سوار تھا۔ جرمن خون سے وہ بھاگتے تھے۔

سیاست کے خونی واقعات کی تباہ کاریوں میں پیدا ہونے کے باعث ان کے روزمرہ کے کاموں میں باقاعدگی سے خبرنامے دیکھنا شامل ہے۔ سالہا سال گزرے وہ عالمی حالات وواقعات کے خبرنامے دیکھتی آرہی ہیں۔ نائن الیون کے بعد ان خبروں میں دو نام کثرت سے اس کے ذہن میں بیٹھ گئے ہیں۔ طالبان اور پاکستان۔

ان ناموں سے اس کے ذہن میں اس کے بچپن کی تباہ کاریوں کا تصور پیدا ہوتا ہے۔ وہ چاہتی تھیں کہ کاش وہ ہٹلر کو دیکھ لیتیں۔ جس نے دنیا کو تہس نہس کیا تھا۔ وہ دنیا میں نہیں تھیں لہٰذا ہٹلر کو دیکھنا اسے نصیب نہیں ہوا۔ اب ان کے پاس موقع ہے؛ وہ اس ملک پاکستان کی سیر کریں، جہاں طالبان بستے ہیں۔

وہ غریب طلباء کی سمر ورکشاپ کرانے پاکستان آنے کا فیصلہ کرتی ہیں۔ انہیں معلوم ہے، ان کا دفترخارجہ ان کے فیصلے کو پسند نہیں کرتا اور دوست و عزیز ان کو پاگل تصور کرنے لگتے ہیں۔ بڑی عمر کی ایک رشتہ دار کہتی ہے "تم وہاں جارہی ہو، جہاں سانپ، مگرمچھ اور طالبان پائے جاتے ہیں۔ ہم تمہارے حق میں دعا کے سوا کچھ نہیں کرسکتے"۔

ہالینڈ کے شہر ہیگ میں پاکستانی سفارت خانے کا ویزا آفیسر ان کی شخصیت سے متاثر ہوتا ہے۔ وہ جاننا چاہتے ہیں کہ وہ کیوں پاکستان جارہی ہے؟ "غریب طلباء کو انگریزی پڑھانے۔" کرسٹین البرٹز جواب دیتی ہے۔ سفارتی اہلکار ضروری دستاویزات، کورس کی کتابیں چیک کر کے کچھ رسمی سوالات کرتا ہے اور انگریزی زبان کی کلاسیں لینے و تعلقات بنانے کے لیے ای میل ایڈریس لے کر ان کو فوری ویزہ جاری کردیتا ہے۔

وہ ویزا آفیسر کے رویے سے زیادہ اس بات سے پریشان ہوجاتی ہیں کہ سیاسی لحاظ سے اتنے اہم ملک میں جانے کے لیے ویزہ کی وہ واحد درخواست گزار تھیں۔

پاکستان کا ناک نقشہ ان کے ذہن میں انڈونیشیا جیسا تھا۔ جس کی ہالینڈ کے ولندیزیوں کیساتھ نوآبادیاتی رشتے کی عمدہ کہانی انڈونیشیائی ادیب پرمودیہ آنند طور نے اپنے مقبول ناولوں میں بیان کی ہے۔ فرق اتنا ہے کہ پاکستان برطانیہ کی نوآبادیاتی دنیا کی راکھ سے جنم لے چکا ہے۔

کرسٹین البرٹز 17 جولائی 2014 کی علی الصبح سحری کے وقت کراچی پہچنتی ہیں۔

"میں جیسے ہی اپنا سوٹ کیس سنبھالے ، ایئر پورٹ کے کار پارکنگ کی طرف نکلتی ہوں، ایک آواز میرے کانوں میں پڑتی ہے؛ اللہ اکبر۔۔۔۔ مجھے اپنے دوست سے پتہ چلتا ہے کہ یہ فجر کی اذان ہے۔ میکڈونلڈ ریستوران کی عمارت دیکھ کر مجھے مشرق میں مغرب کی نشانیاں یاد آنے لگتی ہیں"۔ انہوں نے اپنے پروفیسر والد کو پاکستان سے اپنی پہلی ای میل لکھی۔

لکھاری کرسٹین البرٹز اور دوسرے دوستوں کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل میں — فوٹو رزاق سربازی
لکھاری کرسٹین البرٹز اور دوسرے دوستوں کے ساتھ کراچی آرٹس کونسل میں — فوٹو رزاق سربازی

"یہ ایک ٹوٹی پھوٹی دنیا ہے۔ بہت کم چیزیں ٹھیک حالت میں، تسلی بخش ملتی ہیں۔ ٹریفک بے ہنگم ہے۔ ہرایک جلدی میں ،غصے میں بھرا ہوا موڑ کاٹتا ہے۔ شدید گرمی ہے اور شہر میں بجلی نہ ہونے کی شکایت عام ہے۔ لوکل ٹرانسپورٹ کے لیے چلنے والی گاڑیاں شدید خستہ حالت میں ہیں لیکن کھچا کھچ بھری ہوئی ہوتی ہیں۔ فوجی استعمال میں کام آنے والی ڈبل کیبن گاڑیاں رعب داب قسم کی شخصیت کا تاثر پیدا کرنے کے لیے پسند کی جاتی ہیں۔ جن کے پچھلے حصے میں مسلح افراد بندوقیں لیے بیٹھے ہوتے ہیں۔ ان گاڑیوں کا رنگ بھی بیشتر اوقات ، میں نے سیاہ پایا۔ شیشے بھی کالے؛ اندر بیٹھے لوگوں کا باہر کے راہ گیروں پر رعب پڑتا ہوگا۔ شہر کا اولڈ ٹاؤن مجھے بیلجیم جیسا لگا۔ جہاں برطانوی دور کی عمارات شہر کے کسی بھی حصے سے زیادہ ہیں۔ عدم توجہ نے ان تاریخی عمارات کو قابل رحم بنادیا ہے"۔

کرسٹین البرٹز ڈان کے دفتر میں — فوٹو رزاق سربازی
کرسٹین البرٹز ڈان کے دفتر میں — فوٹو رزاق سربازی

کرسٹین البرٹز موسم گرما کی چھٹیاں اس سال پاکستان کے غریب طلباء کو انگریزی زبان پڑھا کر اپنا وقت گزارنا چاہتی تھیں جو ان کے دورہ پاکستان کا اہم مقصد تھا۔ میرپورخاص ان کا دوسرا پڑاؤ تھا۔

"میر پور خاص چھوٹا سا گند سے بھرا کاروباری مرکز ہے۔ بظاہر شہر ہے لیکن جابجا دیہاتی مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ گدھا گاڑیاں بار سے لدی ہیں اور ساتھ میں کوئی اسٹیکرز سے بھری نئی ماڈل کی کار بھی چل رہی ہوتی ہے۔ شہر ایسا ہے جیسے کوئی قصبہ؛ جہاں عام لوگ، رکشے والے، دکاندار کم از کم چہرے سے ایک دوسرے کو ضرور پہچانتے ہیں۔ شہر کے اطراف رہنے والے بیشتر لوگ شدید غربت کا شکار ہیں"۔ انہوں نے اپنے مشاہدات میں لکھا۔

"طالبان کہاں ہیں؟ پاکستان آتے ہوئے طالبان کا جو عکس میرے ذہن میں تھا، وہ عکس ان علاقوں میں کہیں نظر نہیں آیا۔ میں گھومتی پھرتی رہی، دوست رہنمائی کے لیے ساتھ ہوتے۔ طالبان اگر ہیں بھی تو وہ عام لوگ نہیں۔ عام لوگوں کے روز مرہ کاموں میں مذہب کا عمل دخل بہت ضرور ہے۔ جس نے شاید زندگی کو بھی متاثر کیا ہو"۔

پاکستان آئیں، اور موٹرسائیکل کی سواری نا کریں؟ — فوٹو رزاق سربازی
پاکستان آئیں، اور موٹرسائیکل کی سواری نا کریں؟ — فوٹو رزاق سربازی

"اٹھارہویں، انیسویں صدی میں جب مغربی ممالک سے عیسائی مبلغ ایشیاء و افریقہ جاتے تھے، وہ کم خوراکی کے شکار مقامی لوگوں کو خوراک دیتے اور اس کے بدلے میں ان کو دینی صحیفوں سے کہانیاں سننی پڑتیں۔ آج بھی یہ مناظر یہاں دیکھنے کو ملتے ہیں۔ مغرب کی اخلاقیات کا کام یہاں مذہب کررہا ہے، جو معاشرے کا ستون ہے"۔

کلچر کیا ہے؟ یہ سوال ان کے لیے معمہ بنا ہوا تھا۔ "مجھے کلچر سیکھنا ہے"۔ وہ کچھ سوچتیں اور انگلی سے کنپٹی پر چابی کی علامت بناکر اس سے تالا کھولنے کا مظاہرہ کرتیں۔ "لوگوں کو اپنا ذہن کھولنا ہوگا، نہیں یہ کلچر نہیں ہے، یہاں میں کچھ کروں تو مجھے کلچر کے احترام کا درس دیاجاتا ہے۔ یہ کسی کی پرائیویسی کو ختم اور اپنی پرائیویسی محفوظ رکھنے کا بہانہ ہے۔ مجھے یہاں آکر یہاں کے کلچر کا احترام کرنا ہے۔ جو لوگ مراکش و دیگر ملکوں سے ہالینڈ آتے ہیں، وہاں بھی ان کے کلچر کا احترام ہمیں ہی کرنا ہے؛ پھر میرے کلچر کا احترام کون کرے گا؟ کیا احترام کا حق صرف ایک گروہ کو حاصل رہے گا؟"۔

ہم جیسا چاہیں؛ سب ویسا کریں، شاید کلچر کی نئی تعریف وضع کی جائے؟

تبصرے (3) بند ہیں

Abdul Ghafoor Sep 08, 2014 06:15pm
Bhut hi zabardast article hy
laeeq Sep 09, 2014 02:12am
send her to wazrirstan ,fata or she can find taliban everywhere in country which have been destroyed by sucide blasts
Dr.Salim Haidrani Sep 09, 2014 10:20pm
Extremely patronising attitude of an educated Westerner who should have read the book by Edward Said, Orientalism, before travelling to Pakistan. What a pity what Christine think about people and the day to day life in Pakistan.