مرد ہمیں سمجھاتے ہیں

12 ستمبر 2014
مرد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی معلومات ہمیشہ خواتین سے بہتر ہوتی ہیں، اور انہیں خواتین کو سمجھانے اور بتانے کا حق حاصل ہے۔
مرد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی معلومات ہمیشہ خواتین سے بہتر ہوتی ہیں، اور انہیں خواتین کو سمجھانے اور بتانے کا حق حاصل ہے۔

2008 میں ایک سال لکھاری ریبیکا سولنِٹ اپنی ایک دوست کے ساتھ پارٹی میں گئیں۔ پارٹی ایک مشہور اور صاحب حیثیت شخص کی جانب سے دی گئی تھی۔ جب پارٹی اپنے اختتام کو پہنچی، تو وہ شخص ان دونوں کے پاس گیا، اور رعب جمانے والے انداز میں پوچھا، "آپ کیا کرتی ہیں؟"۔

اس شخص نے اس کے بعد ان کو ان کی ایک کتاب پر لیکچر دے ڈالا۔ بات چیت کے تحکمانہ اندازنے سولنِٹ کو ایک مضمون "Men Explain Things to Me" (مرد مجھے چیزیں سمجھاتے ہیں)، لکھنے پر مجبور کیا۔ وہ مضمون کا آغاز اس طرح کرتی ہیں۔ "ایک جاہل شخص کا کسی کے روبرو اعتماد کے ساتھ کھڑا ہونا میری رائے میں جنسی ناانصافی پر مبنی ہے۔ مرد مجھے اور دوسری خواتین کو چیزیں سمجھاتے ہیں، بھلے ہی وہ اس بارے میں جانتے ہوں، یا نہیں"۔

سولنِٹ کے مضمون نے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔ خواتین کے حقوق کے علمبردار جنسی ناانصافیوں کی لسٹ میں صرف غیر مساوی تنخواہ، خواتین پر تشدد، اور سماجی پابندیوں کو شامل کرتے ہیں۔ وہ سولنِٹ کی نشاندہی کردہ ان چھوٹی چھوٹی باتوں پر آواز نہیں اٹھاتے، جن کا خواتین کو روزانہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔

سولنِٹ کے مطابق مرد یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی معلومات ہمیشہ خواتین سے بہتر ہوتی ہیں، اور انہیں خواتین کو سمجھانے، بتانے، اور ان پر حکم چلانے کا حق حاصل ہے۔ اس کے شدید کیسز میں خواتین کو کمتر انسان سمجھنا شروع کردیا جاتا ہے۔ اور وہ جو مثال دیتی ہیں، وہ پاکستان کی ہے، جہاں جنسی زیادتی کے مقدمے میں عورت کی گواہی مرد کی گواہی کے برابر نہیں ہے۔ عورت کی بات کم حیثیت اور ناقابل اعتبار ہونے کی اس سے زیادہ بڑی مثال کوئی نہیں۔

Men Explain Things to Me نے اپنی اشاعت کے بعد کے سالوں میں روزانہ کے ان معاملات میں مردوں کے زیادتی پر مبنی رویے کو چیلنج کیا ہے۔ ایسے واقعات، جہاں خواتین کی بات کاٹ کر، یا اسے غیر اہم قرار دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ مرد کو ہی سب کچھ پتہ ہے، کو ایک بے نام بلاگر نے "mansplaining" کا نام دیا تھا۔

جب بھی مرد یا مردوں کے ساتھ جنسی ناانصافی، جنسی تشدد وغیرہ پر بات کی جاتی ہے، تو زیادہ تر مرد ان معاملات سے اپنی ذاتی لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں، کہ سب مرد ایسے نہیں ہوتے۔ اور ایسا کرنے میں وہ مسئلے کی گہرائی کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ پھر اکثر اس بحث کو یہ کہہ کر ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ جب میں ذاتی طور پر ملوث نہیں تو اس پر توجہ کیوں دی جائے۔

سولنِٹ کے مضمون میں پاکستان کے خصوصی ذکر پر توجہ دینے ضروری ہے۔ پاکستان میں کچھ ہی لوگ ہیں جو اس مسئلے پر توجہ دیتے ہیں، اور ان کی تعداد بھی روز بروز کم ہوتی جارہی ہے۔ اس لیے سولنٹ کے مطابق خواتین کو خاموش کرا دیے جانے کی انتہا پاکستان میں ملتی ہے، جہاں ان کے مطابق خواتین کو کورٹ کے دروازے پر سنگسار کر دیا جاتا ہے۔ اس طرح کی پر تشدد مردانہ بالادستی کے واقعات کے ہوتے ہوئے کیا سولنٹ کے نشاندہی کردہ روز مرہ کے واقعات پر توجہ دی جا سکتی ہے؟

جواب ہاں میں ہے، اور اس کی وجوہات سادہ ہیں۔ مرد روزانہ کی زندگی میں کس طرح خواتین کو خاموش کرادیتے ہیں، یا ان پر حکم چلاتے ہیں، اس کو اگر نوٹ کیا جائے تو یہ بات واضح ہے، کہ اس طرح کے مردوں میں صرف وہ نہیں جو مذہب کو بنیاد بنا کر یہ سب کرتے ہیں، بلکہ وہ بھی شامل ہیں جو جنسی مساوات کے بارے میں صرف باتوں تک ہی محدود ہیں۔

جب ایک عورت اس طرح کے مردوں کے ساتھ تعلق قائم کرتی ہے، تو ان کے نزدیک وہ اس بات پر رضامند ہوتی ہے کہ اسے کمتر سمجھ کر اس کے ساتھ برا سلوک کیا جائے۔ اور اس طرح وہ سب تہذیب جو وہ دوسرے مردوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں، خواتین ان کی حقدار قرار نہیں پاتیں۔ اس طرح کے مرد "سب مرد ایسے نہیں ہوتے" کی دلیل سب سے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اس طرح وہ اس مردانہ بالادستی کو قائم رکھتے ہیں، جس کی وہ زبانی طور پر مخالفت کرتے ہیں، پر حقیقیت میں اس کا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں۔

Mansplaining اور روز مرہ کی زندگی میں خاموش کرا دیے جانے کے خلاف آواز اٹھانا ضروری ہے۔ اس سے خواتین ایک مجموعی گروہ کا روپ لے سکتی ہیں، جو اپنی صنف پر ہونے والی زیادتی کے خلاف آواز بلند کرے۔ اگر ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ڈاکٹر، یا کسی کمپنی کے مالک کے خودسر بیٹے کی mansplaining کا شکار ایک قابل وکیل اس بات کو سمجھ جائے کہ ایسی چھوٹی چھوٹی باتوں کا پاکستان میں جنسی ناانصافی کو بڑھاوا دینے میں کیا کردار ہے، تو ملک کی خواتین کے درمیان ایک ایسا تعلق قائم ہوگا، جو ابھی وجود نہیں رکھتا۔

مجموعی طور پر اس کا اثر یہ ہوگا، کہ خواتین کے خلاف ناانصافی یا انہیں کمتر سمجھنے کو صرف تیزاب پھینکنے وغیرہ جیسے واقعات سے تشبیہ نہیں دی جائے گی۔ سولنٹ کے نزدیک اس تحکمانہ رویے کا سامنا ہر عورت کو اپنے اندربھی ہے، کیونکہ ان کی اپنی کمزوری کی وجہ سے ہی انہیں چپ کرایا جاتا ہے۔ سولنٹ کے مطابق پوری دنیا اور پاکستان کی عورتوں کو دو محاذوں پر جنگ لڑنی ہوگی، ایک، کسی بھی موضوع پر بات کرنے کی آزادی کے لیے، اور ایک، بات کرنے کی آزادی کے لیے۔

انگلش میں پڑھیں۔


لکھاری قانون کے پیشے سے وابستہ ہیں، اور کانسٹیٹیوشنل لاء اور پولیٹکل فلاسفی پڑھاتی ہیں۔

یہ مضمون ڈان اخبار میں 10 ستمبر 2014 کو شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (3) بند ہیں

butt Sep 12, 2014 08:04pm
pta nae kya bongia maari hue han oper hehe , men q kci ko kum samjay ga , we want justice in genders , there should be no quota for ladies n they sit in tests for jobs
john Sep 13, 2014 01:40am
pata nahi janab ne kya chawlein mari hain aupar, lagta hai kuch samjh nhi aya k kya likhna tha aur ye likh dia
abdul rehman kang Sep 13, 2014 11:17am
@butt: Sir aap ko in arguements ko accept karna chahiye haqeeqat yahee hay.Aap maanain ya nah maanain yeh zaawia yeh soach choonkeh mard hazraat ke khilaaf hay is liye aap shayd is zawia se dekhna hi naheen chahate.more than 50 % population is disabled due to our HATT DHARM rawwiah