‘انیس سو پنتالیس کا سونامی: ’کراچی تباہی کے دہانے پر تھا

ایک مشق کے بعد پاکستان میں ماہرین موسمیات کا کہنا تھا کہ ایک بڑے سونامی کے نتیجے میں ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی صف ہستی سے مٹ سکتا ہے۔

چیف میٹرولوجسٹ توصیف عالم نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس تجربے کے نتیجے میں تین سے 23 فٹ بلند لہریں اٹھیں جو ایک سے ڈیڑھ گھنٹے میں کراچی پہنچ سکتی ہیں۔

توصیف نے کہا کہ اس زلزلے کے نتیجے میں پورا شہر ختم ہو سکتا ہے کیونکہ یہ لہریں انتہائی طاقتور ہوں گی۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں 1945 میں سونامی آیا تھا جس میں کم از کم چار ہزار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اس سانحے کی کہانی درج ذیل ہے۔


اٹھائیس نومبر، 1945 صبح 4 بجکر چھ منٹ

ایک عینی شاہد نے ٹائمز آف انڈیا کو انٹرویو میں بتایا ’جب لہریں کنارے سے ٹکرائیں تو سمندر پر پتھر اس طرح اڑنے لگے جیسے ہوا میں زرات۔ دیہاتی چڑھتے پانی سے خوفزدہ ہوکر درختوں پر چڑھ گئے۔‘

لہریں ساحل سے صبح ہونے سے پہلے ٹکرائیں جبکہ اندھیرے نے خوف اور الجھن میں مزید اضافہ کیا۔

پاکستانی وقت کے مطابق تقریباً صبح 4 بجے 8.1 شدت کا زلزلہ مکران کے قریب شمالی بحیرہ عرب میں آیا۔

کراچی بلدیہ کی عمارت کی گھڑی رک گئی جبکہ زمین تقریباً 30 سیکنڈز تک ہلتی رہی۔

زلزلے کی شدت کا اندازہ اس طرح لگایا جاسکتا ہے کہ انہیں کلکتہ تک محسوس کیا گیا تھا۔

سونامی سوسائٹی کے مطابق زلزلے کا مرکز کراچی سے تقریبا 408 کلو میٹر دور تھا۔


ایک عینی شاہد نے سونامی سوسائٹی کو بتایا ’لوگ اپنے بستروں سے اچھل گئے، کھڑکیاں دروازے ٹوٹ گئیں۔ اس کے علاوہ کراچی سے مسقط تک کیبل کے ذریعے رابطہ بھی منقطع ہوگیا۔‘

مکران کے ساحل کے قریب آنے والے اس زلزلے کے باعث ایک بڑے سونامی نے جنم لیا تھا جس نے پورے بحیرہ عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

کراچی سے 48 کلو میٹر کے فاصلے پر واقع خدی نامی بستی کی تمام آبادی صف ہستی سے مٹ گئی جبکہ پسنی اور ارمارہ کے ساحلوں پر بھی 15 فٹ اونچی لہروں کا غلبہ رہا۔


مکران کے ساحل پر اس سونامی کے باعث 40 فٹ اونچی لہریں دیکھی گئیں جن کے باعث مچھیروں کے دیہاتوں اور بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچا۔


کراچی میں کم از کم تین دو میٹر اونچی لہروں نے بندرگاہ کو شدید نقصان پہنچایا جبکہ متعدد قیمتی جانیں بھی ضائع ہوئیں۔ لہروں کی واپسی کے سفر میں بھی بڑا نقصان ہوا جس کا خمیازہ کیٹی بندر نے بھگتا۔

پاکستان کی ساحلی پٹی 1046 کلو میٹر طویل ہے جبکہ مکران کی ساحلی پٹی 400 کلو میٹر لمبی اور 250 کلو میٹر چوڑی ہے۔

مکران سے تقریباً 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ایک ’سبڈکشن ریجن‘ واقع ہے جس کے باعث 1945 میں یہ سونامی آیا۔

یونیسکو کے ایک کمیشن کے مطابق 1945 کا سونامی اس خطے کا اب تک ریکارڈ ہوا سب سے بڑا سونامی تھا۔


ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سونامی کے باعث 4000 دیہاتی مارے گئے جبکہ کراچی سے کیٹی بندر کے درمیان واقع 100 کلو میٹر کی ساحلی پٹی کے متعدد دیہات صاف ہوگئے۔